• صارفین کی تعداد :
  • 2616
  • 9/1/2008
  • تاريخ :

آگ کا دریا

آگ کا دریا

یہ قراۃ العین حیدر کا شہرہ آفاق ناول ہے اور اس ناول کو اردو ادب کے چند بہترین ناولوں میں شمار کیا جاتا ہے۔

اشاعت

قرۃالعین نے یہ ناول 1957 میں لکھنا شروع کیا تھا اور اسکی اشاعت دو برس بعد ممکن ہوئی۔ دو قومی نظریے کے حامی ادیبوں اور نقادوں کے لئے آگ کا دریا ہمیشہ ایک ناخوشگوار ادبی واقعہ رہا ہے لیکن اسکے فنّی محاسن پر داد دینے میں کبھی کنجوسی نہیں برتی گئی۔

مرحومہ نے یہ ناول تیس برس کی عمر میں لکھ ڈالا تھا۔ بہّتر سال کی عمر میں جب خود اسکا انگریزی ترجمہ کیا تو انہیں کردار نگاری اور بعض تفصیلات میں سقم نظر آئے چنانچہ 1998 میں شائع ہونے والا River of fire۔ اس ناول کا ایک بہتر اور زیادہ موثر روپ قرار دیا جا سکتا ہے۔

پلاٹ

اُردو میں یہ ایک انوکھی ساخت کا ناول تھا جسکی کہانی ڈھائی ہزار سال پہلے شروع ہوتی ہے اور بیسویں صدی کے نصف پر آ کر رُکتی ہے۔ لیکن اس تاثر کے ساتھ کہ بہتے دریا کی لہروں کے سمان یہ کتھا ابھی چلتی رہے گی۔۔۔ شاید ابد تک۔۔۔ اور کائنات کے مکمل خاتمے کے بعد اگر دھرتی اور آکاش دوبارہ جنم لیتے ہیں تو یہ کتھا بھی پھر سے شروع ہوجائے گی۔۔۔

گوتم نیلمبر کی یہ داستان چار ادوار میں تقسیم کی جاسکتی ہے: پہلا دور چندر گُپت موریا کے زمانے سے تعلق رکھتا ہے (چار سو برس قبلِ مسیح)۔ دوسرا دور لودھی سلطنت کے خاتمے اور مغلوں کی آمد سے شروع ہوتا ہے جبکہ تیسرے دور کا تعلق ایسٹ انڈیا کمپنی کے زمانے سے ہے۔ ناول کا چوتھا اور آخری دور 1930 کے لگ بھگ شروع ہوتا ہے اور 1950 تک چلتا ہے۔

پہلے تین ادوار کا تعلق مُصنفہ کے نظریہ تہذیب اور تاریخی بنیادوں سے ہے۔ اِس نظریاتی حصّے کی اہمیت اپنی جگہ لیکن کتاب کا آخری اور چوتھا دور بذاتِ خود ایک مکمل ناول ہے جو بیسویں صدی کے نصف اوّل میں ابھرنے والی سیاسی اور سماجی تحریکوں کی روشنی میں کرداروں کی زندگی کا جائزہ لیتا ہوا ہمیں تقسیمِ ہند (1947) کے مرحلے تک لے آتا ہے۔

اس ناول میں جنم جنم کے پھیرے کرداروں کا مقّدر ہیں۔

کردار

پہلے دور میں چمپک نامی خاتون ایک وزیر کی بیٹی ہے لیکن جس شہزادے سے اسکی منگنی ہوئی ہے وہ راج پاٹ تج کر بدھ بھکشو بن جاتا ہے۔ دوسرے دور میں یہی خاتون ایودھیا کے ایک پنڈت کی بہن کے روپ میں نمودار ہوتی ہے۔ تب تک ہندوستان میں اسلامی سلطنت کی داغ بیل پڑ چکی ہے۔ ہماری ابدی ہیروئن اب ایک درباری مسلمان عالم سید منصور کمال الدین کے عشق میں مبتلا ہوجاتی ہے اور اسلام قبول کرنے کا فیصلہ بھی کر لیتی ہے لیکن سفر پہ نکلا ہوا منصور کمال کبھی واپس نہیں آتا۔ خاتون اسکے انتظار میں زندگی گزار دیتی ہے اور آخر کار سنیاسن بن کر جنگل کی راہ لیتی ہے۔

تیسرے دور میں یہی عورت اودھ کی ایک ذہین فطین اور تیز طرار طوائف کے طور پہ سامنے آتی ہے، جسکی محفل میں انگریز نواب اور مسلم اشرافیہ کے لوگ آ کر بیٹھتے ہیں۔ اِن میں منصور کمال الدین نام کا ایک شخص پھر سے موجود ہے لیکن طوائف کو عشق ہوتا ہے گوتم نیلمبر دت نامی ایک شخص سے جوکہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا ایک وفادار ملازم ہے۔ لیکن اس دور میں بھی خاتون ریلوے سٹیشن پر انتظار ہی کرتی رہ جاتی ہے اور گوتم ہے کہ کلکتے سے لوٹتا ہی نہیں۔

ادھیڑ عمر میں پہنچ کر وہ طوائفوں کی چودھرائن بن جاتی ہے اور آخری عمر میں بھکارن بن کر اسی ریلوے سٹیشن پر بھیک مانگتی ہے جہاں وہ گوتم دت کی راہ تکا کرتی تھی۔

آخری دور کی چمپا احمد ایک مسلم لیگی وکیل کی بیٹی ہے۔ وہ بھی اپنے دور کے گوتم نیلمبر سے پیار کرتی ہے لیکن اسے پا نہیں سکتی۔ انگلستان میں قیام کے دوران اسے مسٹر ایشلے سے بھی پیار ہوجاتا ہے لیکن وہ بھی کامیاب نہیں ہوتا۔ آخر کار وہ اپنے آبائی گھر بنارس چلی آتی ہے۔

چمپا کا نام ہر دور میں تھوڑا سے تبدیل ہوجاتا ہے: ڈھائی ہزار سال پہلے وہ چمپک تھی۔ اسلامی دور میں چمپا وتی ہوگئی۔ اودھ میں اسکا تیسرا دور شروع ہوا تو وہ چمپا جان بن کر ابھری اور آخری دور میں چمپا احمد ہوگئی۔

اسی طرح منصور کمال ایک طالع آزما قافلے کے ساتھ نیشا پور سے ہندوستان آتا ہے، جون پور کے دربار میں مترجم کے طور پر کام کرنے لگتا ہے اور چمپا وتی کے عشق میں مبتلا ہوجاتا ہے۔

سکندر لودھی کی فوج جون پور کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتی ہے۔ جنگ کے ہنگامے میں چمپاوتی اور کمال جدا ہو جاتے ہیں۔ کمال چمپا کو ڈھونڈنے کی کوئی خاص کوشش نہیں کرتا اور کٹی پتنگ کی طرح ادھر اُدھر ڈولتا رہتا ہے۔ بے جہتی کے اس عالم میں اسکی ملاقات چشتیہ سلسلے کے صوفیوں، بدھ بھکشؤں اور بھگت کبیر کے چیلوں سے بھی ہوتی ہے۔ آخر میں وہ بنگال جا کر آباد ہوجاتا ہے اور سجاتا دیوی نام کی ایک عورت سے شادی کر کے کسانوں کی سادہ زندگی بسر کرنا شروع کر دیتا ہے۔ کمال کا بڑا بیٹا مغلوں کے دربار میں ملازم ہوجاتا ہے جس پر کمال کو غدار قرار دیا جاتا ہے اور شیر شاہ سوری کے سپاہی اسے موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔

اگلے دور میں منصور اور کمال دو الگ الگ کرداروں کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ منصور بنگال کا ایک غریب مانجھی ہے اور کمال اودھ کا ایک جدّی پُشتی زمیندار۔ یہ کمال اودھ کی طوائف چمپا جان کا مداح ہے اور نئے گوتم نیلمبر کا دوست لیکن پھر 1857 کا ہنگامہ شروع ہوجاتا ہے جسکے نتیجے میں چمپا جان کا ڈیرا اُجڑ جاتا ہے اور وہ گلیوں میں بھیک مانگنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔

چوتھی کہانی کا کمال کیمبرج سے واپس لکھنؤ آتا ہے تو وہاں سب کچھ اُجڑ چکا ہے۔ خاندان کی تمام پراپرٹی کو متروکہ جائیداد قرار دے دیا گیا ہے۔ لُٹا پٹا کمال پاکستان کی راہ لیتا ہے۔

تکنیک

ڈھائی ہزار سال پہ محیط اس کہانی کو سنبھالنا کسی عام لکھاری کے بس کی بات نہ تھی۔ اسکے لئے قرۃالعین جیسا لیکھک ہی درکار تھا جسےسر زمینِ ہندوستان کی سیاسی اور ثقافتی تاریخ ہی ازبر نہیں تھی بلکہ فِکشن میں اس تاریخ کو ایک پس منظر کے طور پر برتنے کا سلیقہ بھی آتا تھا۔

قرۃالعین کا ہندوستان ایک مضبوط ثقافتی اکائی ہے اور باہر سے آنے والے کلچر اس کی رنگا رنگی میں صرف اضافہ ہی کرتے رہے ہیں۔

ثقافتی تنوع کا یہ نظریہ اس لحاظ سے تو نیا نہیں کہ جواہرلال نہرو اور رابندرناتھ ٹیگور پہلے ہی اس پر تفصیل سے اظہارِ خیال کر چکے ہیں لیکن ایک اہم ناول کے نظریاتی تار و پود میں یہ تھِیم پہلی مرتبہ اس وضاحت کے ساتھ استعمال کی گئی ہے۔

                                                            اردو وکیپیڈیا


متعلقہ تحریریں:

 آخری کوشش

 توبہ شکن