• صارفین کی تعداد :
  • 4326
  • 8/30/2008
  • تاريخ :

آيت اللہ جوادی آملی دام ظلہ کا  شب قدر کی نعمتوں پر بیان

مبارک علیکم الشهر

آيت اللہ جوادی آملی دام ظلہ نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ شب قدر سے حقيقی استفادہ كرنا ،قرآن سر پر ركھنا اور اعتكاف بیٹھنا ہی تمام مشكلات كا حل ہے – 

آيت اللہ جوادی آملی نے سب سے پہلے شب قدر كی فضيلت بيان كرتے ہوۓ فرمايا: شب قدر ماہ رمضان كا دل ہے اور یہ رات حضرت سليمان كے معجزہ سے كئی گناہ بڑھ كر معجزہ ہے – كيونكہ حضرت سليمان-ص- ہوا پر تسلط اور قدرت ركھتے تھے جو ايك ماہ كا سفر ايك صبح میں طے كيا كرتی تھی ليكن شب قدر كی رات میں ہزار ماہ يعنی ۸۰ سالہ مسافت طے كی جا سكتی ہے. جس ہوا پر حضرت سليمان -ص- مسلط تھے وہ ايك مكانی معجزہ تھا ليكن شب قدر مكانتی اور منزلتی معجزہ ہے آپ نے اس رات كی مزيد فضيلت بيان كرتے ہوۓ فرمايا: كسی شخص نے حضرت امام صادق -ع-  سے پوچھا شب قدر كی علامت كيا ہے ؟ آپ نے فرمايا : یہ شب قدر ايك معطر اور خوشبودار رات ہے – امام-ع- كا یہ فرمان مجاز نہیں بلكہ حقيقت ہے يعنی امام-ع- یہ نہیں فرما رہے كہ اس رات كی ہوا معطر اور خوشبودار ہے بلكہ فرما رہے ہیں كہ خود یہ رات معطر اور خوشبودار ہے منتہی اس رات كی خوشبو كو فقط دل كی قوہ شامہ سے احساس كيا جا سكتا ہے - دل كی قوہ شامہ كو ايسی ہی راتوں اور اعتكاف میں بیٹھنے كے ذريعے پيدا اور بيدار كيا جا سكتا ہے – آپ نے اس رات كے مزيد كمالات كی طرف اشارہ كرتے ہوۓ فرمايا : یہ رات حضرت علی-ع- سے منسوب ہے وہ علی -ع- جو فرمايا كرتے تھے ماكنت اعبد ربا لم ارہ میں اس پروردگار كی عبادت ہی نہیں كرتا جسے ديكھ نہیں ليتا البتہ یہ ديكھنا ظاہری آنكھ سے ديكھنا نہیں ہے بلكہ دل كی آنكھ سے ديكھنا مراد ہے – یہ وہ مقام ہے جس پر حضرت علی -ع- جيسی شخصيت ہی فاﺋز ہوسكتی ہے– آپ نے فرمايا اگرچہ ہم اس مقام پر نہیں پہنچ سكتے ليكن اس سے نچلے مقام پر پہنچ سكتے ہیں اور وہ یہ كہ اپنے آپ كو اتنا بلند كریں كہ یہ كہہ سكیں انی ما كنت اطيع عليا لم ارہ میں اس علی كی اطاعت نہیں كرتا جسے ديكھ نہ لوں ،انی ما كنت اطيع اماما لم ارہ میں اس امام -ع- كی پيروی نہیں كرتا جسے ديكھ نہ لوں –انی ما كنت اطيع قرآنا لم اراہ میں اس قرآن كی پيروی نہیں كرتا جسے ديكھ نہ لوں- البتہ یہ ديكھنا دل سے ديكھنا مراد ہے نہ ظاہری آنكھ سے. آپ نے فرمايا: امام شناس اور مفسر قرآن تو بہت سے ہیں ليكن امام اور قرآن كو ديكھنے والے بہت كم ہیں.

آپ نے تيسرے مرحلہ میں شب قدر میں دعا اور مناجات كی نوعيت كے حوالے سے فرمايا :حل مشكلات ،مريضوں كی شفايابی اور اداء قرض اور امن و امان كی برقراری وغيرہ كے لیے دعا كرنا ايك فرعی امر ہے ،شب قدر میں ہمارا اصل فريضہ كچھ اور ہے جس پر عمل كرنے سے یہ فرعی مسايل خود بخود حل ہوجاتے ہیں اور وہ اپنے آپ میں قرآن و عترت كے شہود كے لیے دلی بصيرت پيدا كرنا ہے اگر ہم نے اپنے آپ كو اس مرحلہ تك پہنچا ديا كہ دل سے قرآن و عترت كو ديكھ سكیں تو باقی مسايل خود بخود حل ہوجاﺋیں گے-

آپ نے فرمايا : قرآن مردہ دلوں كو نئی زندگی عطا كرتا ہے اور معيوب افراد كو صحيح وسالم بنا ديتا ہے بہروں كو قوت شنوائی اور نابيناوں كو بصيرت بخشتا ہے. آپ نے فرمايا :مگر ابی بصير نابينا نہیں تھا ليكن در عين حال امام زمانہ ۜ كے مورد اعتماد اور معتبر راوی تھے . وہ اپنے پورے دل و جان سے اپنے امام زمانہ كے شيدائی تھے-

آپ نے فرمايا: یہ درجہ فقط ايسی ہی راتوں اور قرآن كو سر پر ركھنے اور اعتكاف میں بیٹھنے سے ہی نصيب ہوسكتا ہے –چونكہ ہم ان چيزوں سے دور ہیں اس لیے فانی كو باقی ،مجاز كو حقيقت ،زاﺋل كو پايدار اور باطل كوحق سمجھ بیٹھتے ہیں-

                                                       

                                                                                             اکنا ڈاٹ آئی آر