• صارفین کی تعداد :
  • 3616
  • 8/30/2008
  • تاريخ :

سستی و جمود یا نشاط وارتقاء؟

رمضان الکریم

مسلمان معاشروں  میں  مسیحی،یھودی اور ھندو تھذیب و افکار کا یہ اثر ھوا کہ دیگر اسلامی معارف کی طرح تقویٰ کوبھی بالکل بے روح اور بے کیف کر دیا گیا ھے۔ تقویٰ کوغاروں  ،تھہ خانوں  اور گوشئہ عافیت کی بے روح عبادتوں  سے مخصوص کر دیا گیا ھے ۔ساری دنیا سے بے خبر ، معاشرے سے دور،انسانوں  سے روگرداں اور دوست و دشمن سے لا پرواہ ایک سادہ لوح انسان کو متّقی کا نام دے دیا گیاھے جبکہ یہ تقویٰ اس تقویٰ کی بالکل ضد ھے جو رسول اللہ(ص)، امیرالمومنین علیہ السلام اور دیگر ائمّہ و انبیاء علیھم السّلام کے پاس تھا۔ اگرتقویٰ کا بھترین نمونہ رسول اللہ(ص) اور امیرالمومنین علیہ السلام کی زندگی ھے تو یہ دونوں  شخصیتیں  ھمیشہ میدان عمل میں  نظر آئیں ،دشمنوں  سے مبارزہ کرتے ھوئے نظر آئے ،مسلمانوں  کے حالات و مسائل کو حل کرتے ھوئے نظر آئے ،کبھی بازار میں ،کبھی مسجد میں ،کبھی گھر میں اور کبھی اصحاب کے درمیان۔اسلام میں  تقویٰ سستی اور جمود کا نام نھیں  ھے بلکہ تقویٰ یعنی ایک مسلسل حرکت اور ارتقاء ۔قرآن نے سورئہ حمد کے بعد سورئہ بقرہ کی ابتدا ھی متّقین کے صفات بیان کرنے سے کی ھے اورمتقین کے تمام صفات کو صیغئہ مضارع میں بیان کیا ھے یعنی عمل مسلسل اور ایمان مترقّی۔

تقویٰ وقایةسے ھے اور وقایة یعنی سپر ۔چونکہ انسان کو ایمان اور عمل کے ذریعے مسلسل تکامل کرنا ھے اور اس تکاملی سفر کا جو راستہ ھے اس پر شیطان قسم کھا کر بیٹھا ھے کہ انسان کو گمراہ کرے گا لھٰذا اسے شیطانی حملوں  سے بچنے کے لئے الٰھی سپر کی ضرورت ھے اوروہ سپر تقویٰ ھے ۔ تقویٰ یعنی انسان کے اندر موجود ایک ایسی دفاعی قوت جو شیطان کے ھر حملے کو پسپا کر کے انسان کو اپنے مقصود تک پھونچا دے۔

امام علی علیہ السلام نے فرمایا :”فَاِنَّ التَّقْوَیٰ الْیَومَ حِرْزٌ وجُنَّةٌ وَ فی غِداًالطَّرِیْقُ اِلَی الْجَنَّةِ“ تقویٰ آج پناہ و سپر ھے اور کل جنّت کا راستہ ھے۔

تقویٰ کا ایک منفی معنی ھے اور ایک مثبت ۔منفی معنی وھی ھے جورھبانیت سے متاثّر بعض صوفی سلسلوں  کے ذریعے ھمارے معاشروں  میں  رائج ھواھے،یعنی چونکہ اپنی زندگی کو پاک اورسالم رکھنے کے لیے خود کو شیطان کی دسترس سے محفوظ رکھنا ھے لھٰذا اپنے آپ کو ایسے مقام پر قرار دیاجائے جو شیطانی دسترس سے باھر ھو۔ لھٰذا وہ اپنی فردی،خاندانی اور سماجی ذمّہ داریوں  سے فرار کر کے کسی گوشئہ تنھائی میں  پناہ لیتے ھیں  اور گمان یہ کرتے ھیں  کہ یہ جگہ شیطان کی دسترس سے محفوظ ھے جبکہ اس طرح  شکست خوردہ اور زندگی سے فرار کرنے والا انسان زیادہ شیطان کی دسترس میں  ھوتا ھے۔

اسلام اور قرآن کی نظر میں مثبت تقویٰ وہ ھے جو انسان کو دشمن کے سامنے سے فرار کی دعوت نہ دے بلکہ اسے دشمن پرغلبہ پانے کے لئے آمادہ کرے۔ انسان کے اندر ایسی معنوی قوت اور بصیرت پیداکردے جو اسے سماج میں  لوگوں  کے درمیان رھتے ھوئے بھی محفوظ رکھے اور نہ صرف اپنے آپ کو محفوظ رکھے بلکہ دوسروں  کی نجات کے لئے بھی کوشاں  رھے ۔خدا کی دی ھوئی نعمتوں  سے فرار کرنے کے بجائے انھیں  اپنے اور معاشرے کے تکامل کا وسیلہ قرار دے۔

صاحب تقویٰ انسان خدا کی دی ھوئی نعمتوں  کو استعمال کرتا ھے لیکن ان کا اسیر نھیں  ھوتالھٰذا ضرورت پڑنے پر اپنی جان سے لے کر اپنی عزیز ترین چیزوں  تک کو قربان کرنے کے لئے تیّار ھو جاتا ھے،بر خلاف اس شخص کے جودنیا کی نعمتوں  کو ترک کرنے کے بعد بھی ان کا اسیر ھوتاھے اور ضرورت پڑنے پراک معمولی سی بھی قربانی دینے کی جراٴت نھیں  کر پاتا۔جواپنے گوشئہ تنھائی میں  خدا کی یاد کے بجائے ھمیشہ ان چیزوں کی یاد میں  رھتا ھے جو اسے نصیب نھیں  ھوئیں  یا جنھیں  وہ ترک کر کے آیا ھے۔یھاں  پر شیطان اسکی شکست خوردہ ذھنیت اور تنھائی سے فائدہ اٹھا کران کی اشیاء کی یادو محبّت کو اور شدید کر دیتا ھے اور اس طرح اسے اپنے دام میں  گرفتار کر لیتا ھے۔