• صارفین کی تعداد :
  • 5596
  • 8/25/2008
  • تاريخ :

امام مہدی (عج) قرآن مجید میں

یا صاحب الزمان-عج-

احادیث کے مطابق بہت سی قرانی آیات امام مہدی(عج) اور انکے ظہور کے متعلق بشارت دے رہی ہیں کیونکہ مسلم سی بات ہے کہ آخر الزمان میں الہی حکومت کی تشکیل جو کہ ایک بہت بڑا موضوع ہے اور تمام انبیاء کی زحمتوں اور قربانیوں کا ثمرہ ہے کیسے قران مجید میں اسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے لہذا بہت سی آیات میں سے بطور نمونہ یہاں چند آیات کو پیش کیا جاتا ہے:

۱۔الذین یومنون بالغیب (بقرہ آیت۲)

داود بن کثیر رقی امام صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے اس آیہ شریفہ الذین یومنون بالغیب کے بارے میں فرمایا:

من اقر بقیام القائم انہ حق

یعنی وہ لوگ کہ جو قائم (مہدی) علیہ السلام کے قیام اور ظہور کی حقانیت پر ایمان رکھتے ہوں ۔

ماخذات: کمال الدین،ج۲ص۲۴۰،ح۱۹۔اثبات الھداۃ ،ج۳،ص۴۵۸،باب۳۳،ف۵،ھ۹۳، المھجۃ ، ص۱۲، البرھان، ج۱ ص۵۳،ھ۴،البحار، ج۵۱،ص۵۲، ب۵،ح۲۸،ج۵۲،۱۲۴ص۔باب۲۲،ح۹۔نورالثقلین،ج۱ ص۳۱،ح۱۱،المیزان،ج۱، ص۴۶، منتخب الاثر،ص۱۶۷،ف۲،باب۱۲،ح۷۵

۲۔و اذاابتلی ابراھیم ربہ بکلمات فاتمھن (بقرہ آیت ۱۲۴)

محمد بن زیاد ازدی نے  مفضل بن عمر سے روایت کی ہے، وہ بتاتے تھے کہ میں نے امام صادق علیہ السلام سے اس آیہ شریفہ و اذاابتلی ابراھیم ربہ بکلمات فاتمھن کے بارے میں سوال کیا تو حضرت نے فرمایا: یہ کلمات تھے کہ جنہیں حضرت آدم علیہ السلام نے اپنے پروردگار سے حاصل کیا اور اللہ تعالی نے انہی کلمات کی بنا پر ان کی توبہ قبول کی اور اس انداز سے فرمایا: اے میرے پروردگار میں تجھ سے بحق محمد و علی فاطمہ و حسن و حسین چاہتا ہوں کہ میری توبہ قبول فرما اور اللہ تعالی نے ان کی توبہ قبول فرمائی، وہ توبہ قبول کرنے والا اور مہربان ہے۔ میں نے عرض کیا ہے اے فرزند رسول یہاں پروردگار کی فاتمھن سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا یعنی بارہ اماموں کو قائم کے ساتھ کامل کر دیا کہ جن میں سے نو امام حسین کی اولاد میں سے امام ہیں۔

ماخذات: کمال الدین ج۲،ص ۳۵۸، باب ۲۳، ح ۵۷، معانی الاخبار، ص ۱۲۶، ح۱، الخصال، ص ۳۰۴، ح۸۴، مناقب ابن شھر اشوب، ج۱، ص ۲۸۳، مجمع البیان، ج۱، ص۲۰۰، ارشاد القلوب، ص ۴۲۱، ،البحار، ج۱۱، ص۱۷۷، ب۳، ح۲۴، ج۱۲، ص۶۶، ب۳، ح۱۲، ینابیع المودۃ ص۹۷، باب۲۴، منتخب الاثر، ص۷۷، ف۱،ب۶، ح۳۳

۳۔ اینما تکونوا یات بکم اللہ جمیعا (بقرہ آیت۱۴۸)

ابوخالد کابلی امام زین العابدین سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا:

المفقودون عن فرشھم ثلاثماۃ و ثلاثہ عشر رجلا ، عدۃ اھل بدر فیصبحون بمکۃ وھو قول اللہ عزوجل اینما تکونوا یات بکم اللہ جمیعا و ھم اصحاب القائم۔

یعنی وہ لوگ جو رات کو اپنے بستروں سے غائب ہوجائیں گے ،وہ اصحاب بدر کی مانند تین سو تیرہ افراد ہوں گے کہ صبح کو سب کے سب مکہ (امام کی خدمت) میں حاضر ہوں گے اور یہ اللہ تعالی کا کلام ہے کہ وہ فرما رہا ہے: اینما تکونوا یات بکم اللہ جمیعا تم جہاں بھی رہو اللہ تعالی تم سب کو لے آئے گا اور وہ سب قائم علیہ السلام کے اصحاب ہوں گے۔

ماخذات: کمال الدین، ج۱، ص۶۵۴، ب۵۷، ح۲۱، اثبات الھداۃ، ج۳، ص۴۹۱، ب۳۲، ج۴، ح۲۳۵، حلیۃ الابرار، ج۲، ص۶۲۲، ب۳۵، البحار،ج۵۲، ص۳۳۳، ب۲۷، ح۳۴، نور الثقلین، ج۱، ص۱۳۹، ح۴۲۴، منتخب الاثر، ص ۴۷۶، ف۷، ب۵، ح۸

۴۔اولئک علیھم صلوات من ربھم و رحمۃ (بقرہ آیت ۱۵۷)

اولئک ھم المھتدون (بقرہ ۱۵۷)

اولئک ھم المفلحون (بقرہ آیت ۵۔)

اولئک ھم الفائزون (النور آیت۵۲)

عتیق بن یعقوب عبداللہ بن ربیعۃ سے نقل کرتے ہیں کہ وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ کی فضیلت میں ایک طولانی حدیث نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں :

وہ جن کا آپ کے بعد انتظار کیا جائے گا ان کا نام پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جیسا ہوگا وہ عدل و انصاف کا حکم دیں گے اور عدل کو قائم کریں گے برائیوں سے روکیں گے اور خود بھی پرہیز کریں گے، اللہ تعالی اس کے وسیلہ سے تاریکیاں اٹھا لے گا اور شک و تردید اور دل کا اندھا پن بھی اس کے وسیلہ سے ختم ہوجائے گا اس زمانہ میں بھیڑیا اور بھیڑ ایک ساتھ ہوں گے ،اھل آسمان فضا میں پرندے اور دریاؤں میں مچھلیاں اس سے راضی ہوں گی اور کہیں گے کیسا بہترین انسان ہے کہ اللہ تعالی کی اس پر عنایت ہے بشارت ہوگی ان لوگوں کے لئے کہ جو اس کی اطاعت کریں اور ہلاکت ہو ان پر جو اس کی  نافرمانی کریں، اور بشارت ہو ان لوگوں پر جو اس کی رکاب میں جہاد کریں اور ہلاکت وہ ان پر جو اس کی نافرمانی کریں، اور بشارت ہو ان لوگوں پر جو اس کی رکاب میں جہاد کریں کفار کو قتل کریں یا شہید ہوجائیں (یہ وہ ہیں کہ جن کے بارے میں قرآن میں آیا ہے ) اولئک علیھم صلوات من ربھم و رحمۃ ان پر پروردگار کا درود اور رحمت ہے۔

اولئک ھم المھتدون یہ وہ ہیں کہ جو ھدایت یافتہ ہیں اولئک ھم المفلحون یہ وہ جو فلاح پانے والے ہیں اولئک ھم الفائزون یہ وہ ہیں کہ جو کامیاب ہونے والے ہیں۔

ماخذات: اثبات الھداۃ ، ج۱، ص۷۰۹، ب۹، ف۱۸، ح۱۴۹، البحار، ج۳۶، ص ۲۱۷، ب۴۰، ب۱۹، العوالم، ج۱۵، الجزء ۳، ص۸۹، ب۵، ح۱، منتخب الاثر، ص۱۱۔۱۲

۵۔ ومن یوت الحکمۃ فقد اوتی خیرا کثیرا (بقرہ آیت ۲۶۹)

ابوبصیر نے امام باقر علیہ السلام سے پوچھا: اس آیت و من یوت الحکمۃ فقد اوتی خیرا کثیرا سے کیا مراد ہے تو حضرت نے فرمایا :معرفۃ الامام و اجتناب الکبائر ۔و من مات و لیس فی رقبۃ بعیۃ الامام مات میۃ الجاھلیۃ ولا یعذر الناس حتی یعرفوا امامھم فمن مات و ھو عارف بالامامۃ لم یضرہ تقدم ھذا الامر و تاخر فکان کم ھو مع القائم فی قسطاطہ

امام کی معرفت اور گناہ کبیرہ سے پرہیز اور جو اس دنیا سے جائے اس کی گردن پر امام کی بیعت نہ ہو، وہ زمانہ جاھلیت کے لوگوں کی مانند دنیا سے گیا ہے اور وہ لوگ اپنے امام کی شناخت میں معذور نہیں ہیں اور جو بھی امام کی معرفت میں مر جائے اسے ظہور میں تقدم و تاخر کا نقصان نہیں ہوگا، وہ اس شخص کی مانند کہ جو قائم کے خیمہ آپ کے ساتھ ہے، ابو بصیر کہتا ہے تو پھر امام کچھ لمحات خاموش رہے اور پھر فرمایا: لابل کمن قاتل بعد نہیں بلکہ وہ اس شخص کی مانند ہے جو کہ ان کی رکاب میں جہاد کررہا ہو، پھر امام نے فرمایا: لابل واللہ کمن اشھد مع رسول اللہ نہیں بلکہ خدا کی قسم وہ اس شخص کی مانند ہے کہ جو رسول اللہ کی رکاب میں شہید ہوا۔

۶۔وسیروا فیھا لیالی و ایاما امنین (سورہ سباء آیت۱۸)

زہیر بن شبیب بن انس امام صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے ابوبکر حضری کے سوال کے جواب میں فرمایا: یا ابابکر سیرو فیھا لیالی و ایاما امنین فقال مع قائمنا اھل البیت و اما قولہ فمن دخل کان آمنا فمن بایعہ و دخل معہ و مسح علی یدہ و دخل فی عقد اصحابہ و کان امنا اے ابوبکر اس زمانہ میں امن و سکون سے شب و روز گزارو گے پھر فرمایا ہم اھل بیت کے قائم کے ساتھ یہ اللہ تعالی کا کلام ہے فمن کان دخلہ کان امنا پس جو اس میں داخل ہو وہ امن سے ہے یعنی جس نے اس کی بیعت کی اور اس کے ساتھ داخل ہوا اور اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ پر مسح کیا تو وہ ان کے اصحاب کے زمرہ میں داخل ہوجائے گا اور امن و سکون سے رہے گا ۔

                                                                         ترتیب وپیشکش: علی اصغر سیفی

ماخذات: علل الشرائع ص۸۹، ب۸۱، ح۵، الصافی، ج۱ ص ۳۰۹ ، حلیۃ الابرار  ج ۲،  ص ۱۴۸۔ ب۷،  البحار ، ج۲،  ص ۲۹۲،   ب۳۴، ح 


متعلقہ تحریریں:

تاویل قرآن

 قرآن اور علی (ع)