• صارفین کی تعداد :
  • 3569
  • 8/23/2008
  • تاريخ :

اسٹو ڈنٹس کي انجمن کے ارکان سے رہبر معظم کا خطاب

 رہبر معظم انقلاب اسلامی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

٭نوجوان ،صلاحیت کے ابلتے ہوئے چشمے ہيں ۔

٭اسلام، اجازت نہيں دیتا کہ مسلمان زور و زبردستي کے نیچے آئیں اور بےعزت ہوں،اسلام سے وابستہ انسان کي عزت و شخصیت ہر حال ميں محفوظ رہنا چاہئے ۔ یہ اسلام کے اعماق سے مربوط ہے ۔

بحمد اللہ جواني اور طالب علمي کي شادابي ہمارے اس جلسہ ميں موجزن ہے ۔ یہ جلسہ اس ماحول کا ایک نمونہ ہے کہ جو ہمارے ملک کے چپہ چپہ ميں چھایا ہوا ہے ۔ یہ چھوٹا موٹا امتیاز نہيں ہے کہ ستر لاکھ آبادي ہر مشتمل ایک ملک کي اکثریت ،جوانوں اور نوجوانوں پر مشتمل ہو ۔ جوان اور نوجوان صلاحیت و استعداد کے ابلتے ہوئے چشمے ہيں ۔ جوان یعني مستقبل۔ کسي ملک کا اچھا جوان یعني اچھا مستقبل ۔ ہمارے جوان اور نوجوان اہل فکرو اندیشہ اور صاحبان نقد و نظر ہيں ۔ اور یہ خود ایک ،دوسرا امتیاز ہے ۔

اس ملک اور اس ملت کے دشمنوں کي گفتگو اور تبصروں ميں جو چیز مرکزي حیثیت رکھتي ہے وہ یہ ہے کہ اس نوجوان ،آیندہ ساز اور پر بہار نسل کو مختلف طریقوں سے آباد ،آزاد اور مومن و پاکیزہ حکومت اسلامي بنانے ميں ناتوان کردیں ۔ لیکن دشمنوں کي باتیں اور گفتگو قابل قبول نہيں ہے جو کبھي کبھي اخباروں اور ذرائع ابلاغ ميں نوجوان نسل کے منحرف ہونے کي باتیں کرتے ہيں !ایسا ہر گز نہيں ہے۔ اگر کبھي کسي نوجوان سے ایک خطا ہو بھي جائے تو اس کے پاک اور نوراني دل کو مد نظر رکھتے ہوئے یقیناً اس خطا کي تلافي ممکن ہو سکتي ہے ۔ یہ لوگ جوان کي پاکدامني و پارسائي اور خیر و صداقت کو کیوں نہيں دیکھتے ہيں ؟ ان کے شعور اور ادراک کو کیوں نہيں دیکھتے ہيں ؟جو جوان کي صرف دوچار غلطیوں پر نظر گاڑ دیتے ہيں اور بالکل اس سلسلہ ميں زبا ن اور قلم چلاتے ہيں جہاں دشمن چاہتا اور پسند کرتا ہے ۔

جغرافیائي ،تاریخي ،انساني اور قدرتي مخازن کے لحاظ سے ہمارا ملک بے شک دنیا کے اہم ملکوں ميں سے ہے ۔ ہماري تاریخ باشکوہ ،بااثر اور با افتخار ہے ہمارا جغرافیہ ایک نہایت نازک جغرافیہ ہے ۔ جغرافیہ کے لحاظ سے ہم ایک ایسے علاقہ ميں ہيں جو مختلف ملکوں کو اطلاعات ،سرمائے اور علم و ہنر کے حوالے سے آپس ميں متصل و مرتبط کرنے کے پیش نظر ،دنیا کي اہم ترین اور نازک ترین جگہ شمار ہوتا ہے ۔اس نظام اسلامي کے عہدیدار ان اور ذمہ داران کے جلسہ کے اندر مجھے نہایت دقیق معلومات اس سلسلہ ميں دي ہيں کہ ہمارا ملک قدرتي ذخائر کے لحاظ سے دنیا کے ذرخیز ممالک ميں سے ایک ہے تیل اور گیس کے لحاظ سے اور فلزات کے لحاظ سے معدني مواد اور دوسرے قدرتي منابع کے لحاظ سے ۔

انساني استعداد کے لحاظ سے بھي ہمارا ملک پر استعداد اور باصلاحیت ہے ،جو کہ ماضي ميں ثابت ہو چکا ہے ہمارا حال بھي یہي کہہ رہا ہے ،جب بھي کوئي میدان سامنے آیا تو یہ حقیقت ۔ یعني درخشاں صلاحیتیں ۔ ابھر کر سامنے آ گئیں ۔ ہمارے ملک کا متوسط عالمي متوسط سے کہيں زیادہ ہے مثلاً آپ آٹھ سالہ ’’دفاع مقدس‘‘ کو دیکھیں جہاں استعداد کے ابھرنے کا موقع ملا تھا ۔ ہماري ضرورتیں بہت تھیں لیکن پوري دنیا کے دروازے ہمارے لئے بند تھے ۔ جو چیز جنگ ميں ہمارے لئے مدد گار ثابت ہو سکتي تھي دنیا اسے ہمارے حوالے کرنے کے لئے تیار نہيں تھي ۔ نہ اسلحے ،نہ سازو سامان ،نہ معلومات اور نہ ہي کوئي دوسري مدد دوسري طرف ملک اپنے تشخیص ،اپني زمین ،اپني سرحدوں اور اپنے گھروں کا دفاع کرنے ميں لگا تھا لہذا ان وسائل کي ضرورت بھي تھي ۔ یہ ضرورت سبب بني کہ تمام میدانوں ميں استعداد اور صلاحیتں پھلنے پھولنے لگیں ،علمي میدان ميں اور جنگي وفوجي میدان ميں ۔

جن علمي پیشرفت کے کچھ نمونے آپ لوگ آج سنتے ہيں ان کي بنیاد ’’دفاع مقدس‘‘کے زمانے ميں پڑي تھي۔  آج بہت سے جوان جو ملک کے بہت ہي نازک علمي شعبوں ميں مشغول ہيں وہي’’دفاع مقدس‘‘کے عناصر ہيں جو اس حوصلہ اور اسي جذبے کے تحت مشغول کار ہيں اور آج ان کے حیرت انگیز کارناموں ميں سے ایک کارنامہ ’’ایٹمي ٹیکنالوجي‘‘ہے جو کہ ایک عالمي سرّي ہنر ہے جسے عالمي طاقتوں اپنے اندر محصور کر رکھا ہے لیکن ہمارے جوان اپنے ہوش و استعداد اور اپنے ماہر ہاتھوں کے ذریعہ اتنے بڑے کام پر قادر ہو گئے اور آپ دنیا کے مستکبرین کا ردّعمل دیکھ رہے ہيں اس دنیا ميں جو شور شرابہ مچا ہوا ہے یہ آپ کي استعداد ،توانائي اور آپکے افتخارات کے مقابل کا ردّعمل ہے ،ایک دوسرا نمونہ ،بنیادي جرثوموں کي تولید و تکثیر سے متعلق ہے۔ دنیا کے دانشمند اور متخصص اس اعتراف پر مجبور ہو گئے ہيں کہ ہمارے جوان ،ایمان و ہمت و غیرت کے بل بوتہ پر قادر ہو گئے کہ اپني کھوئي ہوئي صلاحیتوں کو ظاہر کریں اور اس سخت راستے کو طے کریں ۔اور اسي طرح کے متعدد نمونے تحقیقا ت کے میدان ميں ہمارے پاس موجود ہيں ۔

فوجي لحاظ سے بھي اسي طرح ہے شاید آپ جوانوں اور نوجوانوں کیلئے یہ بات جاذب ہو کہ ’’آٹھ سالہ دفاع مقدس‘‘کے دوران بڑي بڑي کاري ضربیں جو ہمارے دلاروں کي طرف سے عراقي مجہز فوج پر لگیں وہ غالبا ً ہمارے پچیس چھبیس سالہ جنگي نقشہ سازوں اورنو جوان افسروں کي کاوشوں کا نتیجہ تھیں جنہوں نے بڑے بڑے جنرلوں اور ٹرنینگ گزارنے والوں کو شکست دے دي ۔ جبکہ امریکہ ،روس،یورپ اور علاقے کے مختلف ممالک کي طرف سے اُس فوج کي مالي ،تسلیماتي اور اطلاعاتي مدد ہوتي تھي ۔ جب ہمارے جوانوں نے خرمشہر کو واپس لے ليا ،تو حقیر کي صدارت کا ابتدائي دور تھا ایک عالمي ٹیم ایران آئي اور اس کے رئیس نے مجھ سے جو کہا اس کا مفہوم یہ تھا کہ ایک سال پہلے کے با نسبت آج آپکے حالات ميں زمین آسمان کا فرق ہے ۔

وہ صحیح کہہ رہا تھا ،دنیا کو باور نہيں ہوتا تھا کہ ہمارے جوان، ہمارے بسیجي ،ہماري سپاہ ااور ہماري فوج دشمن کے اتنے استحکام اور اتنے مضبوط ٹھکانوں کے باوجود خرمشہر کو واپس لے لیں گے ۔ جب ہمارے جوانوں نے خرمشہر کو واپس لے ليا ،سرحدوں کو واپس لے ليا اور مشترک آبي سرحدوں کو بھي واپس لینے ميں کامیاب ہو گئے اور پھر آ گے تک جا کر دشمن کي تحقیر بھي کر آئے ۔ یہ نورایماني جو آج ہمارے جوانوں کے دلوں ميں ابھر رہا ہے اور دنیا کو اپني طرف کھینچ رہا ہے، یہ سب خوشخبري سنانے والے ہمارے نوجوانوں اور جوانوں کو آیندہ کي خو شخبري سنا رہے ہيں تمہيں جتنا اچھا ہو سکے اپنے مستقبل کو بنانا چاہئے ۔

انقلاب سے پہلے بھي یہي جوان یہي جغرافیا اور یہي تاریخ ہمارے پاس تھي لیکن یہ پیشرفت اور یہ درخشندگي نہيں تھي ،کیوں ؟چونکہ جو حکومت اور سلطنت اس ملک اور ان علمي و ہنري مراکز پر مسلط تھي وہ اولاً دین و ایمان اور اعتقادي اقدار سے بالکل بے بہرہ تھي ایک مٹھي ایسے افراد عوام پر حکومت کرتے تھے جن کے اندر اقدار و ایمان نام کي کوئي چیز نہيں تھي ۔ ثانیاً یہي سبب تھا کہ وہ دشمنوں اور بے گانوں سے وابستہ  ہو گئے تھے ۔

ہمارا عزیز ایران غارتگروں اور ڈاکوؤں کیلئے جنت بن گیا تھا ،کیوں ؟ چونکہ ذمہ داران کو دیکھ لیا تھا کہ بستي کو لوٹ رہے تھے ۔ نظام حکومت کے ذمہ داران کو بھي اپني لوٹ مار ميں شریک کررکھا تھا اور اس ملت کو لوٹ رہے تھے ۔ انقلاب نے آ کر بے گانوں کي خیانت آمیز مداخلت اور فاسد و فاسق افراد کي ناجائز سلطنت کي راہ ميں ایک بہت بڑا پتھر لگا دیا ۔ وہ پتھر کیا تھا ؟وہ پتھر اسلام تھا ۔ جب تک اسلام حقیقي جگہ پر رہے گا ،تب تک عالمي اور بین الاقوامي پروپیگنڈہ کرنے والے اسلام سے خائف رہيں گے ۔ ہاں اگر اسلام :سیاست ،زندگي اور اجتماعي و سماجي فضا سے دور ہو جائے ،عبادتگاہوں کے گوشوں اور مسجدوں کي خلوتوں سے مخصوص رہے تو انھیں اسلام سے خوف کا شائبہ تک نہ ہوگا ۔ اگر چند لوگ خلوت ميں جا کر عبادت ميں مشغول ہو جائیں اور اجتماعي فضا ،سماج کي مدیریت ،ملک کي باگ دوڑ اور مختلف امور کا اختیار وگوناگون اہوائ و ان کے ہاتھ ميں ہو تو وہ لوگ ایسے اسلام سے نہيں ڈرتے اور اسے کوئي اہمیت نہيں دیتے ۔ لیکن اسلام کو مشیئت اور قرآن کے فرمان کے تحت ،زندگي کے دستورالعمل کے عنوان سے پیش کیا گیا اور مان لیا گیا تو اس سے ڈرتے ہيں ،کیوں ؟اس لئے کہ یہ اسلام پہلي منزل ميں اپنے اندر بہت بڑي چیزوں کو چھپائے ہوئے ہے ۔ایک یہ کہ وہ انسان کي شخصیت اور اسکي رشد و ترقي کو محترم گردانتا ہے ،دوسرے یہ کہ وہ عالمي طغیان کاروں ،غارتگروں اور ظالم و ستمگروں کے لئے راستہ کا ایک بہت بڑا پتھر ہے ۔

کلمہ تو حید ميں یہ موجود ہے ،لاالہ الااللہ ۔۔اس جملہ ميں سب سے اہم یہ بات مضمر ہے کہ ان طاغوت ،عالمي غارت گراور بین الاقوامي ظالموں اور ستمگروں کے ساتھ نہيں رہا جا سکتا جنہیں آج آپ دنیا ميں لوٹ مار اور غنڈہ گردي کرتے دیکھ رہے ہيں کلمہ توحید اس بات کي اجازت نہيں دیتا کہ مسلمان ایسي بے لگام طاقتوں کے سامنے جھکے جو فلسطین ،عراق اور افغانستان کے سامنے ایسا برتاؤ کرے یا جنہوں نے اس سے پہلے بوسنیا،لبنان اور دوسرے اسلامي ممالک کے ساتھ ایسا سلوک کیا ۔بعض کمزور ملتوں کا ان کے سامنے گٹھنے ٹیکنا ہي ان خون آشاموں کے طاقتور ہونے کا سبب بنا ہے ۔ اگر ملتیں اپنے حقوق کو پہچان ليں اور بین الاقوامي غنڈہ گردي کے زیر بار نہ جائیں اور ان کے جھوٹے اور ریا کارانہ نعروں کو قبول نہ کریں تو یہ اتنے طاقتور نہيں ہو سکتے۔

اسلام اس بات کي اجازت نہيں دیتا کہ مسلمان زور و زبردستي کے زیر بار جائیں اور ان کے حقوق پامال کئے جائيں ۔ مسلمان انسان کي شخصیت ،عزت اور رشد و ترقي ہر حال ميں محفوظ رہنا چاہئے ،یہ اسلام کي بنیادي چیز ہے ۔اگر اسلام ، زندگي کے دستور العمل کے عنوان سے پیش کیا جائے تو یہ چیزیں بھي سامنے آئیں گي ۔ ہمارے سماج ميں بحمد اللہ دسیوں لاکھ نوجوان مرد اور نوجوان خواتین موجود ہيں ،یہ ہمارے سماج کے لئے مایہ افتخارہے ۔ ہمارے معاشرے کو ان جوانوں ،ان صلاحیتوں اور ان پاک دلوں پر افتخار کرنا چاہئے اورجوانوں کو بھي انقلاب ،اسلامي نظام اور اسلام کے لہراتے پرچم کے اوپر فخر کرنا چاہئے اور مستقبل کو بنانا اور سنوارنا چاہئے ۔ مستقبل باتوں سے نہيں بنایا جاتا بلکہ فکرو اندیشہ اور دین و ایمان کے ذریعہ بنایا جاتا ہے ۔آپ کام کریں اور ایسا کا م جسے فکرو عقل اور یقین و ایمان کي پشت پناہي حاصل ہو۔

جن جوانوں کو آپ دیکھتے ہيں کہ اچانک ہنري اور فني کاموں ميں یا کسي نئي ایجاد کے سلسلہ ميں ظاہر ہوتے ہيں ان لوگوں نے مدتوں ایمان کے ساتھ تلاش و کوشش کي ہے اور پھر اچانک علمي میدان مين ظاہر ہوئے ہيں آپ بھي ایسا کر سکتے ہيں ۔علم ،کلاس،درس اور تحقیق کو اہمیت دیجئے ،ميں اس موضوع کے سلسلہ ميں ذمہ داران اور عہدیداران سے بھي گزارش کرتا ہوں لیکن یہ گزارش الگ ہے اور اس کو ان سے الگ کہتا ہوں ۔آپ جوانوں سے بھي اپني عزیز اولاد اور اس ملت کے پارہ جگر ہونے کے عنوان سے جداگانہ کہتا ہوں کہ میرے عزیزو!کا م کرو۔

آج دشمن نہيں چاہتا کہ درس ،مدرسہ ،استاد اور یونیورسٹي باقي رہے ۔ دشمن نہيں چاہتا کہ یہ لاکھوں جو ان ،کلاس و درس اور پاکدامني و پارسائي کے ساتھ اس علاقے ميں کل کیلئے ایک طاقتور ایران بنائیں ۔ وہ جانتے ہيں کہ اگر یہ اسطرح سے کام کریں تو مستقبل قریب ميں ایک ایسي طاقت اس علاقہ سے اٹھے گي کہ دشمن اس سے استکباري و استعماري ہوس کے بر خلاف عمل ميں اتر جائیں گے۔اپني پاکدامني اور اپنے ایمان کو محفوظ رکھئے۔اپنے درس کو اچھي طرح پڑھئیے اور اپني جواني کي قدر سمجھئے ۔ یہ صلاحیت یہ طاقت اور یہ نشاط ،اعلي اقدار کي راہ ميں صَرف ہونا چاہئے ۔اس کا وقت بھي یہي ہے ۔اس وقت آپ اپني عمر کے سنہري سالوں ميں ہيں اور خدا بھي یقیناً آپ کي مدد کرے گا ۔

زندگي کي اس بہترین فرصت اور نظام اسلامي کے سائے سے اچھي طرح استفادہ کیجئے ،جس نے بحمد اللہ اتنے مومن اور اچھے جوانوں کو اپنے اندر پرورش دي ہے ۔ جیسا کہ ميں نے کہا کہ ہمارے جوان اچھے ہيں ،غلطیاں اور لغزشیں ہوتي ہيں اور یہ جوانوں سے مخصوص بھي نہيں ہے جوانوں ميں یہ امتیاز پایا جاتا ہے کہ استغفار اور آغوش رحمت ِخدا کي طرف بازگشت کے ذریعہ اپني تمام آلودگیوں کو دھو سکتے ہيں ۔

بزرگوں کے مقابل ميں اس لحاظ سے جوانوں کا کام آسان ہے ۔ البتہ جو جوان شروع ہي سے گناہ کي آلودگي ميں مبتلا نہ ہو اس کي نورانیت ،توفیق اور اسکي پاکیزگي کہيں زیادہ ہوگي ،آپ کي تمام تر کوشش بھي یہي ہونا چاہئے ۔ مجھ حقیر کا فریضہ بھي یہي ہے کہ ایک باپ کي طرح آپ کے لئے دعا کروں اور کرتا رہوں ۔ مبعث رسول اکرم (ص)  کے ان نوراني ایام ميں جو پڑھائي کے سال کے آغاز کے ہمزمان بھي ہے مجھے امید ہے کہ خدا کي برکات ورحمت آپ سب کے شامل حال ہو اور انشا ئ اللہ حضرت بقیتہ اللہ الاعظم کي دعا آپ کے ساتھ ہو ۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

                                         ولایت ڈاٹ کام


متعلقہ تحریریں:

 نماز کا ترجمہ

 جوانی اور جذبات کا ظھور