• صارفین کی تعداد :
  • 9632
  • 7/8/2008
  • تاريخ :

حیات اللہ انصاری

کتاب

 
 

پیدائش: 1912ء

صحافی و افسانہ نگار لکھنو میں پیدا ہوئے۔ فرنگی محل کے عربی مدرسے سے سند حاصل کی۔ علی گڑھ سے بی۔اے کیا۔ ابتدا میں ترقی پسند ادب کی تحریک سے وابستہ رہے۔ پھر کانگرس میں شامل ہو گئے۔ کچھ دنوں ہفتہ وار ’’ہندوستان‘‘ کے ایڈیٹررہے۔ اس کے بعد کانگرس کے سرکاری اخبار ’’قومی آواز ‘‘ کے اڈیٹر ہوئے۔ اخبار نویسی کے علاوہ افسانے بھی لکھتے رہے۔ 1936میں افسانوں کا ایک مجموعہ ’’انوکھی مصیبت‘‘ لکھنو میں چھپا۔ بعد میں بھرے بازار کے نام سے یہی مجموعہ چھپا۔ 1969ء میں ہندوستان کی جہدوجہد آزادی کی تاریخ پر مبنی ایک ضخیم ناول ’’لہو کے پھول ‘‘ شائع ہوا۔

 

آخری کوشش 

ٹکٹ بابو نے گيٹ پر گھسيٹے کو روک کر کہا:

ٹکٹ؟

گھسيٹے نے گھگھا کر بابو کي طرف ديکھا ، انہوں نے ماں کي گالي دے کراسے پھاٹک کے باہر ڈھکيل ديا، ايسے بھک منگوں کے ساتھ جب بلا ٹکٹ سفر کريں اور کيا ہي کيا جاسکتا ہے؟

گھسيٹے نے اسٹيشن سے باہر نکل کر اطمينان کي سانس لي کہ خدا خدا کرکے سفر ختم ہوگيا، راستہ بھر ٹکٹ بابوئوں کي گاليان سنيں، ٹھوکريں سہيں، بيسيوں بار ريل سے اتارا گيا، ايک اسٹيشن سے دوسرے اسٹيشن پيدل بھي چلنا پڑا۔

 ايک دن کے سفر ميں بائين دن لگے مگر ان باتوں سے کيا؟ کسي نہ کسي طرح اپنے وطن پہنچ تو گئے؟وطن پچيس برس کے بعد، ہاں پچيس ہي برس تو ہوئے جب ميں کلکتہ پہنچا تو کالي مل کھلي تھي، اور اب لوگ کہتے ہيں اس کو کھلے پچيس سال سے زيادہ ہو چکے ہيں۔

 آگئے وطن ہاں اب اب فاصلہ ہي کيا ہے، اگر غلطي نہيں کرتي ہے تو وھ کوس کا کچا راستہ اور دو گھنٹہ کي بات ہے، اپنا گھر اپنے لوگ، وہ تعمتيں جن کا پچيس سال سے مزا نہيں چکھا ہے کلکتہ ميں گھر کے نام کو سڑک تھي، يا دکانوں کے تختے يا پھر شہر سے ميلوں دور ٹھيکہ دار کي جھونپڑياں جس کي زمين پر اتنے آدمي ہوتے تھے کہ کروٹ لينے کي جگہ نہ ملتے تھي، رہے اپنے لوگ سو وہاں کون اپنا تھا؟سب غرض کے بندے، بے ايمان، حرام زادے، ايک وہ سالا بھوندو اور دوسرا تھا بھورا اور وھ ڈائن بھنگوي جو خونچے کي ساري آمدني کھاگئي، وہ ملوں کے مزدور، بھائي بھائي ہيں مگر مزدوري کا موقع آيا ہر ايک کو اپني اپني پڑ گئي، جہاں جائو کوئي دوسرا مزدور سفارش لئے موجود يہاں سفارش کرنے والا کون تھا؟

 جب جيلر نے آکر مجھے حکم سنايا ہے کہ تيري معياد ختم، تو آنکھوں سے نہ جانے کيوں آنسو نکل آئے، بس ايکدم سے گھر کي ياد آئي، گھر کيا چيز ہے؟

گھسيٹے کو يقين تھا پچيس سال کي تھکي ماندي آتما کو گھر پہنچتے ہي سکھ مل جائے گا اور گھر اب قريب تھا، اسٹيشن سے کچھ دور آکر گھسيٹے بھونچکا ساراہ گيا، يہاں کي دنيا ہي اب اور تھي، کھتيوں اور باغوں کي جگہ ايک شکر مل تھي، کچي سڑکي کي جگہ اب پکي سڑک تھي اور اس کے برابر مل تک ريل کي پٹرياں نظر آتي تھي، سڑک خوب آباد تھي۔

 مزدوروں کے بہت سے چھوٹے چھوٹے غول آجا رہے تھے، اتني دير ميں کئي موٹريں فراٹے بھرتي نکل گئي تھيں، ايک مال گاڑي چھک چھک کرتي جارہي تھي غرض کہ خغرافيہ اتنا بدل گيا، کہ راستہ  پہچاننا بس سے باہر تھا ليکن،  پھر بھي گھسيٹے کا دل اس بات پر راضي نہ ہوا کہ ميں اپنے اسٹيشن پر اتر کر اپنے ہي قصبہ کا راستہ پوچھوں، يہ آپ ہي آپ ايک طرف مڑ گيا، تھوڑي دور جا کر جب مل کي حديں ختم ہونے لگيں اور اوکھ کے کھيت اور باغوں کا سلسلہ آگيا تب اس کے دل نے دھڑک کہ کہا ميرا راستہ ٹھيک نہيں۔ڈيڑھ کوس چلنے کے بعد اپنے قصبے کے تاڑ دکھائي دينے لگے، ذرا اور چل کر شاہي زمانے کي ايک توٹي ہوئي مسجد ملي جس کا ايک مينار تو ناچتي ہوئي بيلوں سے منڈھا اور جنگلي کبوتروں سے آباد تھا اور دوسراتقريبا مسلم زمين پر ليٹا کائي کي مخمليں چادر اوڑھے  تھا، اس پر نظر پڑنا تھي، کہ بچپن کي بہت سي چھوٹي چھوٹي ياديں جو کب کي بھول چکي تھي۔

 پچيس برسوں کے بھاري بوجھ کے نيچے اکدم پھڑ پھڑ کر تڑپ کر نکل آئيں اور کم سن ديہاتي چھوکريوں کي طرح سامنے اچکنے کودنے لگيں، وہ زمانہ آنکھوں کے سامنے پھر آگيا، جب اس مسجد کے گرد پاني بھر جاتا اور گائوں بھر کے لونڈے ننگے اس ميں نہاتے تھے، اس وقت بھي يہ کھڑا مينار يوں ہي کھڑا تھا اور ليٹا مينار يوں ہي ليٹا تھا۔

آگے چل کر گر برگد کا درخت  ملا يہ وہ جگہ تھي جہاں ہيرا، بقائي، بلاقي تينوا، نيولا، سورج، بلي اور وہ کنوا سالا کيا نام تھا اس کا ور کون کون ساري کي ساري ٹولي جمع ہوتي تھي، اور دن دن بھر سيار مار ڈنڈا اڑا کرتا تھا، وہ گڑھيا کے اس پار امرود کا ايک باغ تھا، اس پر کبھي کبھي لونڈا ڈا کہ پڑتا تھا، لونڈے گھس کر اور چپکے چپکے کچے امرود نوچ نوچ کر جيبوں ميں بھرنے لگے، رکھوالا ماں بہن کي سناتا دوڑتا ہوا آتا آنا فانن سب ہوا ہوگئے۔

  ايک بار ايسا ہوا کہ لونڈے امرود کھسوٹ رہے تھے، کہ ادھر سے ايک فقيرني نکل آئي جو منما منما کر گارہي تھي کچھ لونڈو کو شرارت سوجھي، وہ چڑيل چڑيل چلا کر بھاگے، پھر کيا تھا، سب سر پر پائوں رکھ کر بہاگے، بلاقي رہ گيا، ارے ڈر کے مارے اسکي جو گھگھي بندھي ہے اور جو لگا ہے فقيرني کے سامنے ہاتھ جوڑنے....۔گھيسٹے يہ ياد کر بے اختيار ہنس پڑا۔

سورج دن بھر کا سفر طے کرکے افق کے قريب پہنچ چکا تھا، دھوپ ميں ملائمت آگئي تھي، اور ہوا ميں خوش گوار اخنکي، راستے کے ايک طرف پتاور کے ہرے بھرے جھنڈ تھے، جن کے بيچ بيچ سے بوڑھي سرکياں سروں کو نکالے جوانوں کي طرح کھڑي ھونے کي کوشش کررہي تھي، دوسري طرف آسمان کے کنارے تک کھيتوں اور امرود کے باغوں کا سلسلہ چلا گيا تھا۔

 بسيرا لينے والي مينائوں اور کوئوں کا شور کھتيوں سے واپس آنے والے بيلوں کي گھيٹياں، ھلو اہوں کي ہٹ ہٹ باغوں کے رکھوالوں کي ہوہو، ان سب سے ہوا اسي طرح بسي ہوئي تھي، جيسے پتاوروں کي بھيني بھيني ميٹھي ميٹھي خوشبو سے معلوم ہوتا تھا کہ ساري دنيا ايک بہت برا گھر ہے جس کے رہنے والے يعني کھيت، درخت، ہوا، آنے والي صدائيں اور خوشبو سب قريبي رشتہ دار ہيں اور خوشي خوشي مل جل کر رہتے ہيں۔

کسانوں کا ايک جھتا کھيتوں سے واپس آتا ہوا ملا، آگے آگے ايکلڑکي پھٹي اوڑھي سر سے لپيٹے گاتي چلے جارہي تھي، اسکے پيچھے ہلوں کو کندھے پر رکھے بيلوں کو ہنکاتے چھ سات مرد تھے، ان لوگوں نے پٹھے حال گھسيٹے کي طرف ديکھا تو مگر جيسے ہي گھسيٹے کي ان ميں سے ايک شخص پر نظر پڑي، وہ بے اخيتار مسکراديا، جيسے کوئي دور دراز سفر سے آنے والا اپنے عزيزوں کو ديکھ کر مسکرا ديتا ہے۔

ادھر سورج افق کے دامن سے چھپا اور ادھر قصبہ آگيا، اس کا نشان ايک اکل کھڑا تھا، جس سے کچھ دور ہٹ کر آم کے دوچار بوڑھے درخت  شام کا دھند لکا اوڑھے کسي ياد ميں کھوئے ہوئے کھڑے ہيں، اس مقام اسے ايک بہت رومان بھري ياد انگڑائي لے کر اٹھي اور گھسيٹے کے پائوں تھم گئے۔وھ بلا ارادہ کھرا ہوگيا، وہ سامنے کي جھاڑي اور گڑھيا يہيں دلاري سے چھپ چھپ کرملے تھے، وھ بھرے جسم کي جہناد ايسي دلاري کے نہ روٹھنےکا ٹھيک پتہ چلتا تھا اور نہ ماننے کا، وہاں بيٹھ کر وہ دلاري کا انتظار کرتا تھا، تو دل ميں کيا کيا نقشے  بنتے تھے، شہر جائوں گا نوکري کروں گا، دونوں وقت چنے چبائوں گا مگر روپيہ جوڑ جوڑ کر رکھوں گا۔

 پھر جب ڈھائي سو روپے ہو جائے گے تو واپس آجائوں گا اور ہيرا لالا کي طرح ايک دم سے ايک گوئي بيل لےکر کھتي شروع کروں گا، اسي وقت دالري ميري کتني خوشامديں کرگي، ميں تو کم سے کم دو مہينے تک اس سے بات نہيں کروں گا، بس اس جگہ ٹہلنے آجايا کروں گا، وہ آئي گي ضرور، اور ہاں درخت کي جڑ پر بيٹھ ، گڑھيا ميں ڈھيلے پھينکے گي، گنگائے گي، ميري  طرف کن انکھيوں سے  سيکھ کر ہنسے گي، بڑي چڑيل تھي نہ جانے اب کہاں ہے؟

گھسيٹے درختوں کے اندر گھس کر ديکھنے لگا کہ پراني گڑھيا اب تک ہے؟ ہاں تو اور وہ سامنے حيمني کا درخت بھي ہے جس کي جڑ پر وہ بيٹھي تھي، کيا زمانہ تھا۔

گھسيٹے درختوں سے نکل کر سڑک پر آگيا اور قصبے کے اندر چلا ، مگر اب اس کي چال دھيمي تھي، ون ان يادوں ميں ايسا ڈوب گي تھا کہ آنکھيں ديکھنا اور کان سننا بھول گئے تھے، ايکا ايکي ايک موڑ پو چونک پڑا جيسے کوئي بسري بات اک دم ياد آگئي ہو، يہي جگہ تو ہے، ہاں يہہيں آبانے دو چانٹے مار کر ميرے گلے سے شبن مياں کي قميض کا بٹن نوچ ليا تھا، ادھر شبن ميان گھر کے اندر آئے اور ادھر ڈانٹ لگائي گھسيٹے،گھسيٹے کہدھر مرگيا؟

 ٹانگيں پھيلا کر دونوں بوٹ ميرے منہ کي طرف بڑھا دئيے، انکو اتاروں، پھر انگليوں کو تولئے سے پونچھو، پھر جوتي لکر پائوں کے نيچے دھرو ۔۔۔شبن مياں کي چيزيں ديکھ ديکھ کر جي چاھتا تھا کہ ان ميں سے ايک دو ہمارے پاس بھي ہوتيں ہمارے پاس کيا ہوتا ايک پھٹا کرتہ پاجامہ پہنے رہتے تھے۔وہ بالکل چيتھڑے ہو جاتا تو خاں صاحبن پھر  کسي کا پرانا دھرانا جوڑے دے ديتيں، پھر پھاڑ لايا، اس کے بدن پر تو کانٹے ہيں، يہ کہاں سے کھونچا لگايا؟ کمينے کو کبھي تميز نہ آئے گي، ايک باريش مياں کے کمرے ميں جو گيا تو ديکھتا کيا ہوں کہ قميض کے کف کے دو بٹن پلنگ پر پڑے چم چم کررہے ہيں۔

 اس وقت کچھ اسيے پيارے معلوم ہوئے کہ ميں چپکے سے ايک مٹھي ميں دباليا، تھوڑي دير ميں شبن مياں چلانے لگے، ايک بٹن کيا ہوا؟ کون لے گيا ميں جي ميں کہا، ميں لايا ہوں، کہو کيا کہتے ہو؟ بٹن تو نہ دون گا چاہے کچھ کرو، بلکہ اب تو تمہارے گھر کا کام بھي نہ کروں گا، سب کي آنکھ بچاکر باہر چلاآيا، ميري قميض ميں آستين کہاں تھي؟

 ميں نے وہ بٹن گلے ميں اس طرح کہ بٹن اور زنجير دونوں چيزيں باہر چم چم کريں اور پھر دن بھر بھوکا پياسا کھتيوں کھيتوں گھومتا رہا، جب رات آگئي تب فکر ہوئي اب کہاں جائوں گا، ميں ادھر ادھر دبکتا پھرتا تھا، کہ ابا نے جو ميري کھوج ميں لگے تھے، ديکھ ليا تو شبن مياں کا سونے کا بٹن لے آيا۔۔۔۔۔۔۔سونےکا بٹن، دو تھپڑ پڑے تھے کہ ميں بھاگا، سونے کا بٹن کلکتہ ميں چار پيسے پتہ ملتا ہے جتنے چاہو اتنے لےلو،چھپروں اور نيچي نيچي کچي ديواروں پر سام کي سانولي رنگت چھاگئي۔

کتاب

 فضا ميں ہلکي ہلکي خنکلي تھي جس سے دل کو عجيب سکون ملتا تھا، گھروں ميں چولھے جل گئے تھے، جنکا دھواں اور سرخي چھپروں سے نکل کر بلا کسي گبراہٹ کے اوپر چڑھ رہا تھا، پکارنے اور زور زور سے باتيں کرنے کي آوازيں آرھي تھي، جو اپنے ساتھ دن بھر کي تکان کو لئے بھاگي جاري تھيں، دروازے پر لڑکے لڑکياں اونچا نيچا کھيل کھيل رہے تھے، اور بے حد شور مچا تھا جيسے بسيرا ليتے وقت جنگلي مينائيں ايک گھوڑا دن بھر دوڑ دھوپ کرکے ابھي ابھي تھان پر آيا تھا، اور خوشي سے ہنہنا رہا تھا۔آخر مسجد آگئي، اس کي بغل سے گھسيٹے کا راستہ جاتا تھا، پہلي تاريخوں کا ہلال مسجد کے ايک مينار سے لگا ہوا چمک رہا تھا اسے ديکھ کر گھسيٹے کو ايک بارات ياد آئي، جو باجے گاجے لئے مشعليں جلائے ايک کمزور سي نائو، چڑھي گنگا کي خوني لہروں کو پار کرکے کنارے آاتري تھي۔

بغيا بھي آگئي، اسکے پار آبادي سے ذرا نکل کر گھر تھا، گھسيٹے کا دل اميد  بيم سے زور زور سے دھڑکنےلگا اور ساتھ ساتھ خوش کے مارے آنسو نکل پڑے، آنکھوں کے سامنے گھر کي تصوير پھر گئي، بڑا سا صاف ستھرا ليپا پوتا چھپر، دو بڑي بڑي اناج کي کھٹياں رات کو نہ معلوم کب سے اٹھ کر اماں کا گھرڑ گھرڑ چکي پيسنا اور اس پر گانا۔

 موري چھا گل نہ بولے دن کو کام کام کرکے گھر آئو اور لاکھ چلائو، اماں روٹي دے، اماں دوٹي دے، اور چلاتے چلاتي تھک جائوں، رودھو کر اماں اسي طرح پيسے چلي جاتي ہيں، جب اسکا جي چاہتا ہے تب اٹھ کر چولھا جلاتي ہيں جميا اور شبراتن، دقہ دونوں کو اماں کتنا مارتي ہے، اور تھيں وہ بھي دونون بڑي حرامزادي، کبھي جو کام کرتيں۔

ادھر ابا کلہاڑي کندھے پر رکھے بکرياں ہانکتا گھر ميں گھستا اور ادھر چلانے لگتا، ادھر اماں پر غصہ آيا اور جونٹے پکڑ کر دھوئيں دھوئيں۔۔۔۔واہ ري اما جہاں کسي کا جي خراب ہو اس کے جي ک لگ گئي، پھر تو يہ ہے ارے آترا سر داب دوں۔۔۔۔ادھر آبخر گجرا تاروں ۔۔۔۔۔۔ چاندني ميں بيٹھ کر نہ کھا، دونوں وقت ملتے ہيں، نہ چلا، ہر وقت ٹٹکا اتاررہي ہے۔

 آنے جانے والوں سے پوچھو پوچھو دوا پلا رھي ہے۔۔۔۔۔کھانے کي کتني شوقين ہے، کچے کچے، گلے سڑے کھٹے ميٹھے جيسے آم مل جائيں بڑے مزے سے بيٹھ کر سب کھا جاتي ہے، امرود جھربيرياں، کھيتے اور کيا کيا سب شوق سے کھاتي ہے مگر بچوں کا کھانا اسے برا نہيں لگتا تھا۔وہ قصہ جو ہوا تھا، کہ اماں کو کہيں سے گڑ کي بھيلي مل گئ اس نے طاق ميں رکھ دي، ميں ادھر ادھر آئوں چرا کر ايک ٹکڑا منہ ميں رکھ لو شام کو ابا نےجو ديکھا تو ذرا سا گڑيا تھا، وھ لگے ڈکارنے کون کھا گيا؟ اماں سمجھ گئيں سہوليت سے بوليں، چوہا کھا گيا،۔۔۔۔ تو کھا گئي ہےتو کياچوہے بلي گڑ کھاتے ہيں؟اماں نے کہا کيوں؟ کيا ميں جان نہيں ہوتي ہے؟

 ميں نے جي ميں کہا کہ ديکھو جب شہر سے  کما کر لوٹوں گا تو لڑکي کي ايک پاري بھيلائوں گا، تب تو يہ ہي ابا چٹخارے ماريں گے، واہ کيا مجا ہے، جميا اور شبراتن آنکھيں پھيلا پھيلا کر تکيں گي، منہ سے پاني چھوٹے گا۔

گھر ميں اب کون ہوگا؟ ابا اماں بھلا کيا زندگ ہونگے؟ ستراسي برس کون جيتا ہے، جميا اور شبراتن کہيں بياہ دي گئي ہوگي،ہاں فقيرا تو جوان ہوگا، بھورے کے تو بيوي بچے ہوں گے، اور بکرياں؟ افوہ کلو کے ناتنو کي ناتيں ہوگي، کلو زندہ ہو تو پہچانے گي؟ جب بھوکي ہوتي تھي تو ميري طرف ديکھ ديکھ کر کيسا ميں ميں کرتي۔

سامنے گھر ہے کہ نہيں؟

 بغيا سے باہر آتے ہيں گھسيٹے کے دل نے دھڑک کر بڑي بےتابيسے پوچھا۔۔۔۔وھ جگہ تھي۔۔۔۔وہ ہاں۔۔۔۔۔۔۔وہاں کچھ ہے تو ضرور، شروع تاريخوں کي اوس کي ماري بيمار چاندني ميں اندھيرے اجالے کا ايک ڈھير نظر آيا، ايک ديوار تھي جس کا آدھا حصہ تو ٹيلے کي طرح ڈھير تھا۔

 آدھا جو کھڑا تھا، اس پر ايک ٹوٹا پھوٹا چھپر تھا جس کا پھونس دھواں کھائے ہوئے مکڑي کے جالے کے طرح ہر طرف جھول رہا تھا، چھپر کے سامنے کي طرف چوحدي کي جگہ جھانکڑوں تاڑ کے پتوں اور کسي سوکھي بيل کا ملا جلا ايک اڑم تھا۔آخر مسجد آگئي، اس کي بغل سے گھسيٹے کا راستہ جاتا تھا، پہلي تاريخوں کا ہلال مسجد کے ايک مينار سے لگا ہوا چمک رہا تھا اسے ديکھ کر گھسيٹے کو ايک بارات ياد آئي، جو باجے گاجے لئے مشعليں جلائے ايک کمزور سي نائو، چڑھي گنگا کي خوني لہروں کو پار کرکے کنارے آاتري تھي۔

بغيا بھي آگئي، اسکے پار آبادي سے ذرا نکل کر گھر تھا، گھسيٹے کا دل اميد  بيم سے زور زور سے دھڑکنےلگا اور ساتھ ساتھ خوش کے مارے آنسو نکل پڑے، آنکھوں کے سامنے گھر کي تصوير پھر گئي، بڑا سا صاف ستھرا ليپا پوتا چھپر، دو بڑي بڑي اناج کي کھٹياں رات کو نہ معلوم کب سے اٹھ کر اماں کا گھرڑ گھرڑ چکي پيسنا اور اس پر گانا۔

 موري چھا گل نہ بولے دن کو کام کام کرکے گھر آئو اور لاکھ چلائو، اماں روٹي دے، اماں دوٹي دے، اور چلاتے چلاتي تھک جائوں، رودھو کر اماں اسي طرح پيسے چلي جاتي ہيں، جب اسکا جي چاہتا ہے تب اٹھ کر چولھا جلاتي ہيں جميا اور شبراتن، دقہ دونوں کو اماں کتنا مارتي ہے، اور تھيں وہ بھي دونون بڑي حرامزادي، کبھي جو کام کرتيں۔

ادھر ابا کلہاڑي کندھے پر رکھے بکرياں ہانکتا گھر ميں گھستا اور ادھر چلانے لگتا، ادھر اماں پر غصہ آيا اور جونٹے پکڑ کر دھوئيں دھوئيں۔۔۔۔واہ ري اما جہاں کسي کا جي خراب ہو اس کے جي ک لگ گئي، پھر تو يہ ہے ارے آترا سر داب دوں۔۔۔۔ادھر آبخر گجرا تاروں ۔۔۔۔۔۔ چاندني ميں بيٹھ کر نہ کھا، دونوں وقت ملتے ہيں، نہ چلا، ہر وقت ٹٹکا اتاررہي ہے۔

 آنے جانے والوں سے پوچھو پوچھو دوا پلا رھي ہے۔۔۔۔۔کھانے کي کتني شوقين ہے، کچے کچے، گلے سڑے کھٹے ميٹھے جيسے آم مل جائيں بڑے مزے سے بيٹھ کر سب کھا جاتي ہے، امرود جھربيرياں، کھيتے اور کيا کيا سب شوق سے کھاتي ہے مگر بچوں کا کھانا اسے برا نہيں لگتا تھا۔فقيرا  نکل کر قريب آيا اور بولا تم کون ہون؟ يہاں کيا کر رہے ہو؟

ذرا سنو تو بھائي، تم فقيرا ہونا؟

ہاں ۔۔۔۔کہہ تو ديا۔

تم يہيں رہتے ہو۔

گھسيٹے کي آواز ميں کچھ اتنا پيارتھا، کہ فقيرا کا غصہ غائب ہوگيا، مگر اس کي سمجھ ميں نہ آيا کہ يہ شخص کون ہے اور کيا چاہتا ہے، دوسري طرف گھسيٹے کي سمجھ ميں نہ آتا تھا کہ اپنےکو کيسے پہچنوائے، اس خيال تک نہ آيا کہ اپنے گھر پہنچ کر يہ کام بھي کرنا ہوگا، آخر  کڑوا بولا ميں بائيس روز کا سفر کرکے آرہا ہوں۔۔۔تمہارے پاس۔

اب بھي فقيرا کچھ نہيں سمجھا مگر بلا ارادہ اس کي زبان سے نکل گيا تو اندر آئو، اندر آکر گھسيٹے کي ہمت بندھي اور ساتھ ہي راحت پانے کي اميد بھي بلا وجہ ہريانے لگي، فقيرا نے ديا سلائي کھيينچ کر چراغ جلايا، چھپر کے نيچے سات بکرياں اور بکريوں کے بچے بندھے تھے، انھيں سےشايد گھرانے کي روٹي چلتي تھي، ذرا ادھر  ہٹ کر زمين پر ايک چھيد ٹاٹ بچھا تھا۔

 جس پر ايک ميلي سي چيز جو شايد کبھي رضائي ہو مگر چيتھڑا ہو کر گمنا ہوگئي تھي، اوڑھنے کيلئے پڑي تھي، گھسيٹے نے ٹاٹ پر بيٹھکر کپکپاتے چراغ کي دھندلي روشني ميں فقيرا کو غور سے ديکھا، دبلا  پتلا آنکھيں اندر دھنسي ہوئي اور بے نور چہرہ کي کھال جوتے کے چمڑے کي طرح کھردري اوراس پر دونوں طرف دو لمبي لمبي چھرياں جيسے کچي ديوار پر برکھا کے  پاني کي لکيريں، بال کھچڑي جن ميں سفيد زيادہ، يہ تھا گھسيٹے کا جوان بھائي فقيرا مصيبت زدہ گھسيٹے ديکھنے ميں اس سے زيادہ جوان تھا۔گھسيٹے اس کي طرف پيار بھري نظروں سے ديکھ کر بولا بھيا تم تو جواني ہي ميں بڑھاگئے ہو۔

فقيرا ٹھنڈي سانس بھر کر بولا۔

جواني تو کھلائي پلائي سے ٹھرتي ہے۔

سچ ہے بھيا۔۔۔بھورا، جمعدار شبراتن کہاں ہيں۔

اب فقيرا ٹھٹکا۔۔۔پہلے تم يہ بتائو کہ تم کون ہو۔۔۔۔ گھسيٹے تو نہيں ہو۔

ہاں گھسيٹے ہوں اور کون، بائيس دن ٹھوکريں کھا کر آرہا ہوں، بھيا کہہ کر فقيرا اس سے لپٹ گيا، گھسيٹے نے بھي بھينچ کر اسے لپتا اور جيسے کوئي سوتا پھوٹ  جائے، اسکے آنسو دھل بہنے لگے، فقيرا بھيرو ديا، تھوڑي دير تک دونوں روتے رہے، پھر فقيرا نے اپنے آنسو پونچھے اور گھسيٹے کو ڈھارس دلائي کہ اب نہ رو يہ خوشي کي بات ہے کہ تم گھر آگئے ہو، اماں کو ديکھو گے؟

گھسيٹے کي آنسو سے لبريز آنکھيں حيرت سے پھيل گئيں۔

اماں۔۔۔۔ہے کيا؟

ہاں۔

چھپر کے ايک کونے ميں چھيتڑوں کا ڈھير لگا تھا، فقيرا اس کي طرف انگلي اٹھا کر بولا وہ پڑي ہے۔

گھسيٹے محبت اور اشتياق کے جوش ميں ادھر بھاگا۔

کتاب

يہاں چھيتڑوں کے انبار ميں دفن ايک انساني پيجر تھا جس پر مرجھائي ھوئي بدرنگ گندي کھول ڈھيلے کپڑوں کي طرح جم گئے تھے، آنکھيں دھول ميں سوندي کوڑيوں کي طرح بے رنگ اپنے ويران حلقوں ميں ڈگر ڈگر گر کر رھي تھيں، ان کے کوے کيچڑا اور آنسو ميں لت پت تھے، گال کي جگہ ايک پتلي سے کھال رہ گئي تھي جو دانتوں کے غائب ہونے سے کئي تہوں ميں ہو کر جبڑوں کے نيچے آگئي۔گال کے اوپر  کي ہڈيوں پر کچھ پھولا پن سا تھا، بد گوشت يو يا ورم جيسے روتے روتے ورم آگيا ہو، گردن اتني سوکھي تھي کہ ايک ايک رگ نظر آرھي تھي، ننگےسينے پر چھاتياں لتک رہي تھيں، جيسے بھنچي ہوئي الٹي بنڈي کي خالي جيبيں، چہرے کي ايک ايک جہري سخت گھنائوني مصيبتوں کي مہر تھي جسے ديکھ کر بے اختيار ڈھاڑيں مار مار کر رونے کو جي چاہتا تھا۔

فقيرا چراغ لے کرآيا، روشني ديکھتے ہي بڑھيا کچھ بکنے لگي، اور داہنے ہاتھ کي انگليوں سےجھوٹ موٹ کا نوالہ بناکر اپنے منہ کي طرف بار بار  لے جانے لگي، جيسے گونگا کھانے کو مانگے، بڑھيا نہ معلوم کي کہہ رہي تھي،  مگر سننے ميں صرف يہ آيا تھا،  باب۔۔۔باب۔۔۔باب۔۔۔باب۔۔۔۔باب۔۔۔باب۔

اسکي آوازايسے ويراني کےمارے گائوں کي ياد تازہ کرتي تھي، جہان کے رہنے والے آگ سے جل مرے تھے، اور اب اسکے کھنڈروں ميں دنکو بندر چيختے اور رات کو سيار روتے تھے۔

فقيرا نے گھسيٹے کي طرف ديکھا کہ کہا جب اسکے پاس آئو يہ اسي طرح کھانے مانگنے لگتي ہے، چاہے جتنا کھلائوں اس کي جي نہيں بھرتا، منہ سے نکل نکل نکل پڑتا ہے، پھر بھي مانگے جاتي ہے۔

آخر گھسيٹے بڑي کوشش سے بولا، اماں۔

آواز بتا رہي ہے تھي کہ اس کا دل اندر ہي اندر کراہ رہا تھا، فقيرا نےکہا نہ وہ سنتي ہے نہ سمجھتي ہے، بس کھانے کي بات سمجھتي ہے، بڑھيا کا پو پلا منہ دھو نکي کي طرح چلتا ہے باب کي آواز نکل رہي تھي اور انگليوں کا بنا ہوا نوالہ بار بارہ منہ کي طرف جارہا تھا مگر ان حرکتوں پر بھي يقين نہيں آتا تھا کہ پنجرہ زندہ ہے۔يہ وہي چوڑي چکلي تندرست اماں تھي جو منہ اندھيرے سے دور دوپہر تک مسلسل چکي پيسا کرتي تھي، جسے دن رات يہي دہن سوار رہتي تھي کہ کسي طرح گھر کي حالت سنبھل جائے ، اس نے کيسا کيسا اپنا جي مارا، زرا زرا سي چيز کيلئے کيسا کيسا ترستي رہي۔

گھسيٹے کے دل ميں ماں کيلئے ترس بھر اپيار ابل رہا تھا، جو ہاتھ پھيلا  پھيلا کر يہ دعا مانگنے لگ کہ اے خدا اس کي مشکل آسانکر اور اب تو اس ناپاک دنيا سے اٹھالے، اگر اس وقت گھسيٹے کي آنکھيں رو ديتيں تو اسے سکون مل جاتا مگر افسوس آنسوئوں جسيي نعمت کوسوں دور تھي۔

فقيرا کيلئے اس نظارے ميں کوئي خاص بات نہيں تھي، اس نے کہا، کہ بھيا تم ذرا ہاتھ منہ دھو لو، ميں کھانے پينےکا کچھ سبيتا کروں۔

فقيرا بھاگتا ہوا بغيا کے اس پار جوگيوں کے گھر سے آدھ سير جوار کا آٹا ادھار مانگ لايا اور پھر چولھا جلا کر روٹياں پکانے بيٹھ گيا، گھسيٹے بھي چولھے کے پاس آکر بيٹھ گيا اور بولا اتنا آٹا؟ کيا تم نے ابھي نہيں کھايا؟

نہيں آج آٹا ختم ہو گيا  تھا تو ميں نے کہا کہ ايک رات يوں ہي سہي۔

اب کھيتي نہيں ہوتي؟

وہ کب بند ہگئي، ابا کے مرنےکے بعد بھورے کو جيل ہوگئي، ميں اکيلا رہ گيا وہ دس برس تک ترکاريں ورکاريں بوئيں مگر وہ بکيں بکاتيں نہيں ، لگان تک نہيں ادا ہوا۔

بھورے کا ہے ميں پکڑا گيا؟

سونے چند کي ايک بکري بيچ ڈالي تھي، پھر جب جيل ميں سے چھوٹ کر يہاں آيا، تو اس کي بيوي دوسرے کے گھر بيٹھ چکي تھي، يہ  فوجداري کرنے پر تيار ہوگيا، مگر اس کي طرف سے کوئي کاہےکو کھڑا ہوتا اور دو مہينے سب کو گالياں ديتا رہا۔پھر ايک رات کہنے لگا فقيرا مجھ سے تو اب تيري طرہ نہ بھوکوں مرا جائے گا اور نہ اس گائوں ميں رہا جائےگا، بلا جيل سے رہا ہوجائے چار دن ، عيس تو کرليں گے، دوسرے دن منہ اندھيرے کہيں نکل جائے۔۔۔۔۔بانکے کہتا تھا، کہ اب پھر جيل پہنچ گيا ہے۔

جيما حرا زادي کسي کے ساتھ بھاگ گئي، شبراتن کا دس کوس پر تکيہ والوں ميں بياہ ہوگيا، ايک امردو کا باغ ہے کسي طرح گزر بسر  ہوجاتي ہے، مگر کبھي ماں کو نہيں پوچھتي۔

زرا دير خاموش رہي، پھر فقيرا روٹي کو انگاروں پر سيکتےہوئے بولا تمہارے جانے کےبعد بھيا وہ آفتيں آئيں، سب گھر مٹ گيا، وہ بھي کيا جمانا تھا، ابا کہا کرتے تھے، کہ يہ سب پلے پيٹ بھرے  سچ کہتے تھے، اس زمانے ميں تو کوئي رات ايسي نہ تھي جب چولھا نہ جلا ہو۔

گھسيٹے لمبي سي ٹھنڈي سانس بھر کر چپ ہوگيا، اور لپکتے کوئلوں کي طرف تکنے لگا جيسے ان ميں پرانے دنون کو ڈھونڈ رہا ہوں۔

فقيرا نے کہا اس سناٹے کو توڑا کہاں کہاں رہےگا گھسيٹے؟

ہم کلکتہ جاکر ايسے پھنسے کہ خط پتر کو بھي پيسے نہ بچے گھر ياد کرکرکےکني بار رويا، بڑي کٹھن زندگي گزاري وہاں پر، ملوں کي خاک چھاني ، اميدواري میں کام کيا، بھوت گھر ميں روٹي ڈھوئي، ہفتوں قبض ميں رھا، چار سال رکشا چلائي، پھر خونچہ لگايا، ارے فقيرا بڑا کٹھن ہے کلکتہ ميں رہنا۔جس کے دو چار جاننے والے ہوں اور جس کے پاس لينے دينے کو زرا پيسہ ہو اس کے لئے تو وہاں سب کچھ ہے، ليکن ايسے ويسوں کو تو کوئي پوچھتا ہي نہيں، وہاں تو روئے رلائي نہيں آتي تھي، مرنے کي دعائيں مانگا کرتے تھے۔

فقيرا نے لال لال روٹي کپڑے ميں رکھ دي، اور دونوں ٹکڑے توڑ توڑ کر کھانے لگے، فقيرا بولا بھيا، ذرا چپکے چپکے کھائو اماں سن لے گي تو چلا چلا کر رات بھر نہ سونے دے گي۔

گھسيٹے نے شک اور حيرت سے فقيرا کي طرف ديکھا تم تو کہتے ہو وہ بالکل نہيں سنتي، ہاں مگر نہ جانے کيا بات ہے کھانے کي آواز سن ليتي ہے  اور کھانے کي بو بھي پاليتي ہے اور پھر باب کرنے لگتي ہے۔

گھسيٹے بجھتے انگروں کي طرح تکنے لگا، اسکا حلق اتنا سوکھ گيا تھا کہ منہ سے نوالا پاني کے گھونٹ کے نہ اترا۔

گھسيٹے گھر کے دوارے ہونتوں پر بکري کا مسکا ملے، دھوپ ميں ننگے بدن بيٹھا اپنے ميلے کرتے کے چلو چن رہ تھا، کئي روز سے ہاتھوں پيرو اور ہونٹون کر چٹخار دينےوالي سرد ہوا کے تيز جھونکے چل رہے تھے، کھيتوں کے پودے اور درخت ہوا کي چوٹ  کھا کر جھک جاتے ہيں اور بے بس کسي سے اپنے پتے پھٹراتے تھے، جيسے ہوا سے فرياد کرتے ہوں۔

 کہ اب تو اللہ جان چھوڑ دے، کھيتوں ميں کسان اپني چادروں کو بدن پر سميتے ہاتھ پائوں، سکيڑے کندھوں کو آگے، جھکائے سو سوکر رہے تھے، ہر جگہ اتني اجاڑ اور ہر چيز اتني دکھ بھري کہ بے اختيار جي گھبرا گھبرا کر کہتا تھا کہ چلو کہيں بھاگ چليں۔گھسيٹے دھوپ ميں بيٹھا کانپ رھا تھا اور کلکتہ کو ياد کر رہا تھا، آنے کے دوسرے ہي دن وہ ٹوٹے چھوٹے ويران چھپر بکريوں کے موت کي کھرا ہند اور اپني ماں کي باب باب سے گھبراگيا تھا، دن بھر بھوک بہلانا اور بکرياں چرانا اور رات کو برے کے روکھي سوکھي روٹي اور کبھي کبھي تو رات کو بھي فاقہ، پھر يہاں کي سردي ، افوہ  بدن ہے کہ کٹا جاتا ہے۔

 اوڑھے کو کہو کہ يا پہننےکو دو آمدميوں کے بيچ مين ايک سب سے بڑي کوفت يہ کہ جواني کے پچيس سال کلکتہ ميں گنوانے کے بعد گھسيٹے کو يہاں کي کسي چيز سے اب لطف نہيں آتا تھا، چوپال کي باتيں روکھي پھيکي، گائوں کي عورتوں ميں شرم اور کھچائو، پھر جس سفيد پوش کو ديکھو تھانے دار کي طرح اکڑا دکھاديتا ہے، اور فقيرا؟ وہ تو بات بات ميں باپ بنتا ہے، سب مصيبتوں سے بڑي مصيبت يہ کہ پيسا کمانے کا کوئي راستہ  نہيں، دومڑي دومڑي کيلئے فقيرا کيلئے فقيرا کي محتاجي، ہر بات ميں اس کا دست نگر رنہا۔

گھسيٹے چلو مار رہا تھا، اور کلکتہ سے آنے پر پچھتا رہا تھا، وہ دکانوں کے تختوں پر رات کاٹنا وہ سڑکوں پر جو جاڑوں ميں برف کي سلي اور گرميوں ميں دہکتا ہوا ہوتي تھيں، خچر کي طرح رکشا لے کر دوڑنا وھ کبھي کبھي تين تين فاقے کرلينا، اپنے گھر کي اسکي زندگي سے لاکھ درجہ بہتر تھا، وہ کلکتہ کي ايک پيسہ والي سنگل چاء وہ دھيلے والا پان کا بيڑا، وہ پسيے کي پچيس بيڑياں يہ وہ تعمتيں تھين جن کيلئے وہ يہاں ترس گيا تھا۔

گھسيٹے نے ايک ٹھنڈي سانس بھري اور دور تک پھليے ہوئے مٹر کے کھيتوں کي طرف ديکھا، ميري زندگي بھي کيا زندگي ہے، پندرہ سولہ برس کے سن تک باپ کے عجبانوں کي مارکھائي، کھانے پينے ک ترس رہے ، پھر ہمت کرکے کمانے کھانے کيلئے شہر بھر ميں بھاگے، مہينوں ٹھوکريں کھائيں، کہا چلو کلکتہ چلو، وہاں پہنچتے ہي اچھي سي نوکري مل جائے گي، اور سب پاپ کٹ جائيں گے، کلکتہ کے پچيس برس، افوہ کوئي کوشس نہيں رکھي۔رکشا تک چلائي، سيٹھ جي نے کہا کہ گاڑي ليان ہے تو جمانتي لائو، ميں کسے لاتا، جو وہاں کے رہنے والے تھے ايک دوسرے کو جانتے تھے، گھرانے کے گھرانے رھتے تھے، جمانتي لے آتے تھے، لچھمن بولا دو آنے روز کا تو کلوٹا مہا جن جامنتي ہوجائےگا، دو انے روز اسے دے، پھر بھي سالے سيٹہ نے ٹوٹي پھوٹي گاڑي دي، اسے دور ہي سے ديکھ کر لوگ دور ہٹ جاتے تھے، جب سيٹھ سے خوشامد کرو کہ ايک اچھي گاڑي دے دو تو وہ اکڑ کر کہتا ہے کچھ روپيہ جمع کراوانا، روپيہ بچتا تو کيسے بچتا؟

آمدني بھ رکا ت وکلوٹا کھا جاتا تھا، چار سال دوڑے مگر رہے وہي کے وہي موچي کے موچي، بخار جو آيا تو کسي ڈاکڑ صاحب نے کہا، اب خبردار رکشا نہ چلانا اور نہ زيادہ محنت کا کام کرنا پھر دو روپيہ قرض ادھار کرکے پان سگريٹ، ديا سلائي کا خونچہ لگايا،  اب جو آتا کہتا سيزر لائو، نيٹي کٹ لائو، يہ لا وھ لا،يہاں کيا تھا نہ بيٹھنے کو اچھي جگہ  نہ اچھا سامان تھا، اس پر جو کچھ بھي آيا حرام زادي بھنگوئي کھا گئي، نہ جانے مجھ سالے کو عورت رکھنے کي کيا پڑي تھي، لنگوٹي ميں پھاگ۔

گھسيٹے کو اپنے اوپر سخت غصہ آيا اور اپنےکو خوب گالياں دينےلگا، اتنے مين فقيرا سامنے سے آيا اور آتے ہي کڑے پن سے بولا۔۔۔۔پھر تم چرا کر دودھ بيچ ليا، اب ہمارا تمہارا گزارا نہيں ہوسکات، جہاں جانا ہے چلو جائوں۔

گھسيٹے نےجواب سنا، کيس چوري؟ کچھ پاگل ہوگيا ہے کيا؟ روز کا يہ ہي قصہ ہے روز کا يہ ہي قصہ بڑا آيا گھر سے نکالنے والا، جيسے گھر ميں ميرا حصہ ہي نہيں اور بکريوں ميں ميراحصہ نہيں۔گھر ميں حصہ، بکريوں ميں حصہ، تو حصہ بٹائےگا؟ کام کا نہ کاج کا دشمن اناج کا پچيس سال کلکتہ ميں گنوا کر ہماري جان کو آيا ہے گيا تھا روپيہ کمانے؟گھسيٹے گرم ہوکر بولا، کلکتہ ميں کمانا کچھ آسان ہے؟ تو خود تو زندگي بھر قصبہ سے باہر نہيں گيا اور چلا ہے کلکتہ کي کمائي کي باتيں کرنے، وہاں وہ کماتا ہے جس کے دس جاننے والے ہوں جو اس کيلئے تکڑام لگائيں، وہ کمانا ہے جس کےپاس روپيہ ہوکر کچھ کھو کر سيکھے، کام کچھ دنوں کے بعد آتا ہے کہ آپ ہي آپ؟

فقيرا نے طعن کہا ہاں جو يہاں سے جاے ہيں روپےکے ڈھير تولے کر جاتے ہيں، بلي جو اتنا روپيا لايا ہے تو کيسے لايا ہے؟

اب توگھسيٹے تلملا گيا، وہ سب کچھ سن سکتا تھا مگر يہ کہ اس نے کلکتہ ميں رہ کر کچھ نہيں کيا بالکل ہي نہيں کيا سن سکتا تھا، وہ چلا کر بولا۔

اور تو نے کيا کرليا ہے چوٹٹا کہيں کا،ان بکريوں ميں اس گھر ميرا حصہ نہيں ہے کيا؟ سب کاسب بيچ کر کھا گيا، لا ميرا حصہ دو دے،  ميں آج ہي اس منحوس گائوں سے جاتا ہوں، بے ايمان کہيں کا۔۔۔۔۔۔۔

گھسيٹے سے بن نہيں پڑتا تھا کہ اپنا سر پھوڑ ڈالے يا جان نکال کر رکھ دے، کيا کرے جو فقيرا کو يقين دلا دے کہ کلکتہ ميں نےکوئي کوشش اٹھا نہيں رکھي، کچھ يوں ہي تو تو ميں ميں ہوتي رھي، پھر فقيرا بڑا بڑاتا ہوا اندر چلا گيا، دير تک وہ اندر سے اور يہ يہ باہر سےبڑا بڑاتے رہے۔

يہ قصہ آج کچھ نيا نہيں تھا، بلکہ پورے چار مہينے سے ہورہا تھا، روز يہ ہي جھگڑا اٹھتا تھا، روز يہ ہي باتيں ہوتيں اور روز دنوں اسي طرح بڑ بڑ بڑا کر چپ ہوجاتے ۔

رات جب روکھي سوکھي روٹي کھا کر گھسيٹے بستر پر بيٹھ کر حقہ گڑ گڑانے لگا تو پھر ايک ٹھنڈي سانس کے ساتھ کلکتہ کي ياد آئي اور وہ سوچنے لگا کہ شايد اب ميں ہميشہ کيلئےاس اجاڑ گائوں ميں دفن ہوگيا، اب باقي زندگي اسي طرح بتانا ہے۔کاش ايک بار صرف ميرے پاس کچھ پيسہ آجاتا جو ميں کچھ دنوں ميں اپني تھکي ماندي آتما کو سکھ ديتا، چاليس برس کي تھکي ماندي آتما ميں يہ نہيں کہتا کہ بڑا سا گھر ہودروازے بھينس بندھي ہو، کھٹيوں ميں اناج بھرا ھوا۔

 گھر والي ہو جو ساري کے پلو سےتھالي صاف کرے، اس ميں دال بھات لاکر سامنے رکھ ديا، اس کے پائوں ميں موٹے موٹے کڑے پڑے ہوں کو بدھي کي طرح آڑے آڑے ايک طرف جھکے ہوں جيسے شرمائي سالي کا سر، بس مجھے تو بس اتنا مل جائے کہ اپنا ايک الگ چھپر ہو،  دونوں  وقت اپني روکھي سوکھي ہو، بس ارے ہاں اپنے پاس کچھ تو ہو، اب کہاں گھر والي کي خواہش اور کہاں بچوں کا ارمان، چاليس کا سن ہونے کو آيا۔

سن کا خيال آتے ہي دل ميں ايک تيز ہوک اٹھي کہ اب دو چار برس جواني اور ہے پھر اندھيرا پاکھ، جانے کب موت آجائے،ايک زبردست امنگ اٹھي کہ جيسے بنے ايک بار اور ہاتھ پائوں مارو تھوڑي دير تک سوچتا رہا، پھر اس نے فقيرا کو پکارا بھيا فقيرا۔

فقيرا پيار کي پکار سن کر فورا پاس آگيا، جب وہ آرام سے بيٹھ گيا اور حقہ پينے لگا تو گھسيٹے بولا، ميں يہ کہتا ہوں کہ ميں کچھ کروں گا بھي نہيں مگر کوئي کام بھي ايسا ہو کہ جس سے کچھ ملے، ارے بھيا تم کہتے ہو  کہ کلکتہ ميں نے پچيس سال بھاڑ جھونکا، مگر ميں کہتا ہوں کہ ميں کم سے کم اتنا تو سيکھ ہي گيا ہوں، کہ کون کام چل سکتا ہے اور کون نہيں، تم کہتے ہوں پھيري لگائيں يہ کيرں وہ کريں، سچ کہتا ہوں کہ ان ميں کچہ نہيں دھرا ہے پيسے والوں کے سامنے کون اپنا روزگار جما سکتا ہے؟گھسيٹے يہ کہہ کر اس طرح خاموش ہوگيا جيسے ابھي بات نہيں ہوئي پھر فقيرا کي طرف ديکھا کر بولا، اگر کچھ مل سکتا ہے تو اسي طرح جيسے ہم جو کہتے  ہيں، وہ تم مانتے نہيں ہوں، اس ميں تمہارا بھي  بھلا، ہمارا بھي بھلا، کون جانے گا، ہم کيسے کماتےہيں؟ اور جان بھي گيا تو کيا،جب ہمارے پاس پيسے ہوں گےتو سب ہماري برائي کو بھي اچھائي کہيں گے۔

 جوگيوں کو ديکھو ان کے گھر ہن برس رہا ہے ہن کہنے کو ہم شريفاور وہ رذيل، مگر ان کو کون کس کي خوشامد کرتا ہے؟ ہم ہي ہيں جو آئے دن دوڑے دوڑے جاتے ہيں، کہ اچھےمنگلو سير بھر آٹا ادھار دو، دو کنکڑياں دے دو، ذرا سي تمباکو دے دو، وہ ٹال مٹول بھي کرتے ہيں، دھتکار بھي ديتے ہيں، مگر ہم پھر بھي  جاتے ہيں نہ جائيں تو کيا کريں؟

فقيرا بيٹھا چپ چاپ سنتا رہا  گھسيٹے دم لے کر پھر کہنے لگا، اور ہم کہتے ہيں کہ سب ہم کو چھوڑ بھي ديں تو کيا؟ کيا کوئي لڑکا لڑکي سيانے کو بيٹھے ہيں ہم؟ دونوں چين سے الگ ہي رہ ليں گے۔

گھسيٹے نے ايک دم سے کچھ ياد کرکے فقيرا کي طرف معني خيز نظروں سے ديکھا اور پھر کہا۔

ہاں تمہارا سادي بياہ کرنا ہے روپيہ ديکھ کر سب ہي لڑکي دينے کو راضي ہوجاتےہيں، اور نہيں تو پھر اپني برادري ميں نہ سہي کسي اور ميں سہي، ارے ہاں، اس طرح تو کہيں بھي نہيں کرسکتے اور پھر يہ اماں کيلئے بھھي اچھا ہے، جيب پيسے ہوں گے تو ان کو بھي خوب کھانے کو ملےگا۔

فقيرا اب بھي کچھ نہيں بولا، اس سے پہلے بھي گھسيٹے کئي بار يہ ہي باتيں کرچکا تھا، مگر تب انہيں سن کر فقيراکو غصہ آگيا تھا، روپيہ کيلئے کہيں شرافت بيچي جاتے ہے کيا؟ روپيہ ہے کيا؟ ہاتھ کا ميل آج آيا تو کل گيا، اور شرافت وہ دھن ہے، جو بيڑھيوں چلتا ہے اور خرچ نہيں ہوتا ہے، شريف پھول کا برتن ہے جتنا بھي کيچٹ ميں سوند جائے۔جب بھي مانجھو چم چم کرنے لگتا ہے، اور جہاں شرافت گئي پھر آدمي مٹي ہوجاتا ہے، مانا جوگيوں کے پاس روپيہ ہے پيسہ ہے، گھر گرہتي ہے، ہم ہي ان کي خوشامد کرتےہيں، وہ نہيں کرتےہيں، ہم ان سے روٹي ادھار مانگتے ہيں وہ نہيں، مگر اس سےکيا ہاتھي لاکھ لٹ جائے پھر بھي سوا لاکھ ٹکے کا، ھم اور وہ نہيں ، مگر وھ مکھيا کے گھر جائيں تو ہم چبوترے پر بيٹھيں گے۔

 وہ زمين  پر،فقيرا پانچ برس کا تھا تو ہم جب گھسيٹے روپيہ کمانے شہر بھاگ گيا تھا، تب سے اس کے دل ميں بھي کمانے کي تمنا پيدا ہوگئي تھي ليکن جيسے جيسے دن بيتے گئے، اور گھسيٹے روپيہ کا گٹھرا لے کر نہيں آيا، اس کي خواہش مرتي گئي، غريبوں کو کہاں پيسہ ملتا ہے، پيسہ مل جاتا تو کوئي غريب ہي کيوں رہتا؟ اس جيون ميں بس يہ ہي ہےکہ اپنا دوزخ پاٹ لو اور موقع ملے تو کسي سے ہنسي، دل لگي کر لو، اور کيا دھرا ہے؟

 بھورے کا حشر تو ديکھ کر رہي سہي آس بھي گئي، گہري نيند ہوگئي، ليکن اب جو گھسيٹے روزانہ شام کو جب يہ دونوں کام کاج سے فارغ ہوکر بيٹھتے ہيں آس جگانے کا يہ منتر اسي موہني سے پڑھتا رہا تو رفتہ رفتہ فقيرا کي سوئي ہوئي آس چونکي، انگڑائي لے کر اٹھي اور پر پردے نکالنے لگي، وہ فقيرا جس جسے کل کي فکر نہ تھي آج جو مايا  کے مندر کي راہ سو جھائي دے تو لگا کچھ اور نہ سہي ديکھنے ذرا يہ چھپر بدل جاتا۔

 تھوڑي سے بکرياں اور ہوجاتيں اور ذرا چار پانچ روپے اکھٹے ہوجاتے تو پھر ہمارا گھر بس جاتا، ارے ہاں اب گھر نہ بسا تو پھر کب بسے گا، وہ رمضاني کي بيوہ، آنکھ ملائو تو کيس ہنستي ہے، اس سے آج کہو تو آج گھر بيٹھ جائے، کيسا گدريا بدن ہے، جيسے پکا آم، دھي وہ متہے، اکيلي جھوئوں پانس اٹھا اٹھا کر کھتيوں ميں وہ ڈالے، کيا عورت ہے، ميں نے دير کي تو کوئي پانے گھر بيٹھا لے گا۔پھر ميں منہ تکتا رہ جائوں گا۔ جس دن سے فقيرا کے دل ميں يہ خيالات گونجنے لگے، وہ رمضاني کي بيوہ سے کنائي کاٹنے لگے، ادھر وہ سامنے دکھائي ديتي اور يہ راک کتر کر نکل جاتا، پندرہ بيس روز يو ہي کٹ گئے، ايک دن يہلکڑي چير رہا تھا کہ وہ اکبارگي پيچھے سے آگئي، اسے بھاگتے نہ بني، کچھ باتيں ہوئيں، کچھ ہنسي دل لگي ہوئي، پھر وہ ہي جس کا فقيرا کو دھڑا کا تھا۔

 يعني اسي دن اس نے گھسيٹے کي بات مان لي،ابھي پہر رات باقي تھي، کہ گھسيٹے نے فقيرا کو جگايا، دونوں تارون کي مدہم روشني ميں اٹھے اور ايک ٹوکرے کو بانس سے لٹکا کر ياک ڈولي سي بنالي اور اس ميں خوب سا پيال بھر ديا اور پھر بڑھيا کے پاس گئے، گھسيٹے نے ايک ہاتھ گلے ميں اور ايک کمر ميں ڈالکر اس کو چھپکي کي طرح اٹھا ليا۔

  آنکھ  کا کھلنا تھا کہ وہ لگي باب باب کرکے اشارے سے کھانا مانگنے، گھسيٹے نے پہلي بار اسے چھوا تھا کہ اسے ايک عجيب اذيت ہوئي جس سے اس کا چہرہ عجب ہونق ہوگيا، ايک طرف تو آنکھوں ميں آنسو آرہے تھے، اور دوسري طرف بدن کے روئيں کھڑے ہو رہے تھے،گھسيٹے نے اسے جا کر آہستہ سے جيسے کوئي شيشے کا برتن ہو ٹوکرے ميں رکھ ديا اور پھر اسے چيتھڑوں ميں چھپا ديا۔

ايک طرف کا بانس فقيرا نے تھاما اور دوسري طرف کا گھسيٹے نے اور دونوں گھر کے باہر چلے، بکرياں ان لوگوں کو جاتا ديکھ کر بے کسي ميں ميں ميں کرنے لگيں، جيسے يہ لوگ ان کو ہميشہ کيلئے بے يارون مددگار چھوڑ کر جارہے ہيں۔جب يہ دونوں رات کے کالے کالے پردو کي اوٹ ميں منہ چھپائے ہوئے تھے گائوں کے نکڑ پر آگئے، تو پوپھٹ اور نسيم اٹھلا اٹھلا کے چلنے لگي، يہ خوش تھے کہ چلو ہم نظروں سے بچ کر نکل آئے اچانک ايک طرف سے ايک کسان کندھے پر ہل رکھےہوئے نکل پڑا، اور پہچان کر پوچھنےلگا کہاں چلے فقيرا؟

ہوا کا ٹھنڈا جھونکا فقيرا کے کليجے کو برمتا نکل گيا، اس کے کندھے کا بانس کانپا، کسي وجہ  سے گھسيٹے گبھراہٹ ميں فقيرا کي جگہ بول پڑا شبراتن کا حال خراب ہے، اماں کو لئے وہاں جارہے ہيں۔

اماں کو لئے ؟ کسان اتنا متاثر ہوا کہ بے اختيار کہہ اٹھا،شاباش تم لوگوں کو۔۔۔۔۔۔۔۔اپني مہتاري کي اتني سيوا کرتے ہو، شہر کي جامع مسجد ميں جمعہ کي نماز کا خطبہ شروع ہوچکا تھا، اس وقت فقيرا اور گھسيٹے نے مسجد مسے ذرا ہٹ کر ايک گلي ميں آکر ڈولي رکھي گھسيٹے نے بڑھيا کو جو کنڈلي مارے ٹوکرے ميں سو رہي تھي اٹھا کر ٹيک لگا کر بٹھا ديا، اور پھر اس کے کانپتے ہوئے ہاتھوں کو ٹوکرے ميں دو چھيتڑے باندھ کر اس پر رکھ ديا، يہ احتياط تھي۔

 اس بات کي کہ کہيں ايسا نہ ہو کہ باب باب کرتے وقت کہيں بجائے منہ کي طرف آنے کے کانپ کر کسي اور طرف نکل جائے، مگر احتياط فضول تھي، کيونکہ دس برس سے اس کا ہاتھ صرف يہ ہي کام  رہ گيا تھا،  کہ منہ  کي طرف جا جا کر اشارے  سے کھانا مانگے، اب سوائے ادھر کے اور کسي طرف جانے کي ہاتھ ميں سکت نہيں تھي۔

بڑھيا جاگ پڑي مگر وہ ہچکولے کھاتے کھاے اور رات رہے سے اس وقت تک باب باب کرتے کرتے اني تھک گئي تھي، کہ بلا چلائے اور کھانا مانگے جسيے بٹھائي گئي تھي، ويسي ہي بيٹھي رہي، يہ تو بري رہي۔

 ساري کرائي پرپاني پھراجاتا تھا، ضرورت ايجاد کي ماں ہے، فورا گھسيٹے نے لپک کر سامنے کي حلوائي کي دکان سے ايک پيسہ کا جليبيوں کا شيرا مانگا، اس نے تھال پر چمٹي ہئي بھڑوںاور بھنکتي ہوئي مکھيوں کو اڑا کر ايک طرف جھاڑا اور جتنا شيرا بہہ آيا اسے انگلي سے پونچھ پونچھ کر ايک پتہ پر ٹپکا کر گھيسٹے کو تہما ديا، اس نےلاکر شيرے کي ايک انگلي بڑھيا کو چٹا دي اس کا چٹانا تھا کہ وہ فورا باب باب کرکے اور مانگنے لگي۔چلو عمل کامياب رہا، بڑھيا کي کوک ہاتھ آگئي، گھيسٹے نے پتہ فقيرے کو پکڑا کرہدايت کي کہ موقع پر بڑھيا کو ايک انگلي چٹا دينا۔ فقيرا زندگي ميں تيسري بار شہر آيا تھا۔ يہاں کي گہما گہمي، بھيڑ بھاڑ اور بڑي بڑي دکانوں سے وہ بھونچکا ہوگيا تھا، عقل چندھيا گئي تھي۔ اس کے بر خلاف شہر کي ہوا لگتے ہي گھيسٹے کي ہر بات ميں خود اعتمادي آگئي تھي۔

 گھيسٹے مشاق پيراک کي طرح تھا جو دريا ميں اترتے ہي چہليں کرنے لگتا ہے اور فقيرا انوکھے کي طرح جو پاني ديکھ ديکھ کر سہما جاتا ہے، گھيستے فقيرے کو حکم دے رہا تھا ور وہ کل کي طرح اس کے اشاروں پر چل رہا تھا، دونوں ڈولي لے کر مسجد کے سامنے آئے۔ خدا کے گھر کے سامنے اسناني کورے کا ڈھير لگا تھا۔ کٹي انگلياں اور بيٹھي ناک والے کوڑھي منمنا کر ڈرائوني آواز ميں بولنے والي آتشکي بڑھياں چندے چپڑے بچے جن کے ھاتھ پائوں سوکھے اور پيٹ بڑھے ہوئے تھے۔

 جو نہ جانے کيوں مسمسل ريں ريں کر رہے تھے، پھيکے، بے حيا ديدوں والي جوان عورتيں جن کے سر پر جوڑوں کا جنگل اور بدن پر ميل کي کہگل چيتھڑے تھيکرے، ميل آجور، بلغم ناک پيپ مکھياں چراثيم فريب جھوٹ اور ان سب کو ڈھانک دينے والي لورياں دے دے کر تھپک تھپک کر سلاد دينے والي مہا پاپن بے حسي، اس سمندر میں گھيسٹے اور فقيرانے بھي ماں کي دولي لے کر غوطہ مارا۔

 ميل کچيل ہو چاہے ذلت ہو، حيوانيت ہو، چاہے انسانيت ہو ، مايا کے مہندر کو يہي راستہ جات اہے، اس وقت جب کہ سب دروازے بند ہو چکے ہيں۔ اکيلا يہ کھلا ہوا ہے۔ صاف سيدھا راستہ، تنہا راستہ ، پھوٹي آنکھ کا ديدہ۔ ڈولي رکھي ہي تھي کہ پاس کے ايک بڈھے فقير نے ماں کي گالي دے کر کہا ابے ادھر کہا آيا بھاگ يہاں سے۔ پھر تو آس پاس کے سب فقير گالياں دينے اور غل مچانے لگے، کيوں نہ کے ان کي ڈولي ديکھ کر ہر ايک کو اپني روزي کي پڑ گئي۔ فقيرا کي تو يہ ہنگامہ ديکھ کر جان ہي نکل گئي۔ اس نے جھٹ ڈولي کا ڈنڈا کاندھے پر رکھ وہاں سے ٹلنا چاہا مگر گھيسٹے نے ديکھا کہ ان گيرڈ بھپکيوں سے اگر دبا تو پھر اس برادري ميں گھس چکا۔ اس نے دو چار ماں بہن کي سنا کر کھا۔ تمھارے باپ کي زمين ہے۔ چپ رہو، ورنہ سب کے منہ پھوڑ دوں گا۔

 ڈانٹ سنتے ہي فقير تو زراز را بڑ بڑا کر چپ ہو گئے مگر بڑھياں اسي طرح کائيں کائيں کرتي رہيں ۔ آخر ايک نمازي نے جو جماعت کے لالچ ميں دوڑا جا رہا تھا، ان کو ڈانٹا چپ رہو بد نصيبوں نماز ہو رہي ہے۔ نماز کے خيال سے يا ڈانٹ کلے ڈر سے کسي نہ کسي وجہ سے خاموشي ہو گئي، اگر کوئي بات نہ ہوتي تو بھي خاموشي ہو جاتي۔ کيونکہ اس سے زيادہ احتجاج کرنے کا بوتا ان لوگو ں ميں تھا ہي نہيں اور دوسرے گھيسٹے بھي اب جگہ پر پورا قبضہ پا چکا تھا، ابھي نمازي نکلنا نہيں شروع ہوئے تھے۔

 ليکن وہاں کي فضا سے فقيرا ايسا متاثر ہوا کہ اس نے بے سمھجے بوجھے بڑھيا کو ايک انگلي شيرا چٹا ديا، شيرا لگتے ہي وہ گرامو فون کے ريکارڈ کي طرح وہ بجنے لگي اور مشين کي طرح اس کے جبڑے اور ہاتھ چلنے لگے، اسے ديکھ کر ايک دو برس کے بچے نے جسے ايک شخص پھونک ڈلوانے کو لايا تھا، گود ميں سہم کر روز سے چيخ ماري اور بسورنے لگا، ايک جوان اينگلوانڈ ين لڑکي ہاتھ ميں بٹوا لئے ادھر سے گزر ہي رہي تھي اس نے بڑھيا کو ديکھا تو ايک بار سر سے پائوں تک کانپ گئي۔ جيسے اسيا ہي بھيانک بڑھاپا اس کا پيچھا کر رہا ہو۔ اس نے بے تہاشا دو پيسے نکال کر بڑھيا کے آگے پھينک ديئے۔ بالکل اسي طرح جيسے کوئي بوڑھے کتے کے سامنے تر نوالہ پھينک ديتا ہے کہ وہ ہميں بھول کر اس ميں جٹ جائے۔ پيسے بڑھيا کے سامنے لگے ہوئے پھيپھڑوں کے انبار ميں ڈوب کر غائب ہو گئے۔ اب گھيسٹے کو اپني غلطي کا احساس ہوا۔ بھيک کوئي اس کے ہاتھ ميں تھوڑي دے گا دے گا بڑھيا کو۔ اس کے سامنے کوئي چادر ہوني چاہئے جس پر آکر پيسے گريں ۔

 گھيسٹے نے جلدي سے اپنا انگھوچہا بڑھيا کي گود ميں پھيلا ديا، نماز ختم ہوئي اور نمازي غول کے غول باہر نکلنے لگے، فقيروں نے شور مچانا شروع کرديا، بھوک ہوں بابا، بھوک ہوں بابا، ايک فقيرني گھگھانے لگي جيسے کوئي نئي نويلي بيوہ سسکياں بھرتي ہے، ايک تگڑا فقير حلق پھاڑ پھاڑ کر آوازيں لگانے لگا، جب دے گا اللہ ہي دے گا، فقيرا بھير بھاڑ دھکم دھکا اور شور ہنگامے سے ايسا بھونچک اھوا منہ پھيلا کر ايک طرف تکنے لگا، اور شيرا چتانا بھول گيا، گھيسٹے نے چلا چلا کر اسے کئي بار حکم ديا مگر جب ديکھا کہ اس کے حواس بالکل غائب ہيں۔

 تو جلدي سے پتہ چھين کر خود ہي چٹا ديا، شيرے کا لگنا تھا کہ مشين پھر تيزي سے چلنے لگي، مگر پھر بھي لوگ ادھر ادھر متوجہ نہيں ہوئے، گھيسٹے نے فورا محسوس کيا کيا کمي ہے، پہلے سے اس نے کئي صدا نہيں سوچي تھي، جلدي ميں اس کے منہ سے اللہ ہر آفت سے بچائے، اس صدا کو اس چرح دينے لگا۔

 جيسےکوئي والينٹر انقلاب زندہ کہئيے کيونکہ دوسري لے اسے ياد نہيں آئي، اس کي صدا ميں اگر تاثير تھي تو صرف اتني کہ لوگ ادھر ادھر ديکھ ليتے، ديکھتے ہي بڑھيا پر نظر پڑجاتي تھي، يہ درد انگيز نظارہ دل کو ويراني اور وحشت سے بھر ديتا تھا جس کي دوس صرف بھيک کے چند پيسے تھے، بڑھيا کے سامنے پيسوں کي بارش ہونے لگي.آس پاس کے فقير يا تو خالي ہاتھ ايک ايک دو دو پيسے لئے حسرت سے ان دونوں  خوش نصيبون کو تک رہے تھے، اور دل ہي دل ميں کڑہ رہے تھے، کہ ہمارے پاس بھي کوئي ايسي ہي بڑھيا چيز کيوں نہيں ہے، گھيسٹے اپني اتني کاميابي ديکھ کر خوش اور غرور سے متوالا تھا، اور خوب کڑک کر صدا لگانے لگا۔

 آج زندگي ميں پہلا دن تھا، جس پيشے ميں وہ گھسا تھا اس ميں چوٹي پر جگہ ملي تھي، حسرت رہي کہ کبھي ايسا ہوتا کہ جس پيشے ميں گھسوں  اس کا اچھا سامان، اس کا سب سے اونچ نيچ معلوم ہو مگر آخر آج دنوں تعميتن ميسر آہي گئيں، ميرے پاس جو سامنے ہے وہ کسي کے پاس نہيں اور ميں صدا بھي کيا خوب لگا رہا ہوں، سب خدا کي دين ہے، آخر وہ کب تک اپنےبندے کا امتحان ليتا ديکھو، پيسے کسيے برس رہے تھے۔

 تو ہي داتا اورتو ہي جيون کا کھيون ہارہے مالک، اماں زندگي بر کي کوشس کر ميں کچھ پيسہ جوڑ کر گھر کي حالت سدھار ليں، ايک ايک بات کے پيچھے جان دے مريں، مگر کچھ نہ ہوا اور اب ہوا ابھي ت وکيس آساني سے، يہ خدا کے کارخانے ہيں حيلے روزي بہانے موت، سہ پہر کي سنہري دھوپ ميں گھيسٹے اور فقيرا ڈولي لئے شہر کے باہر ايک شاھي کھنڈر کے پاس آئے، دونوں سارا دن ڈولي لادے لادے پھيري لگاتے رہے تھے۔

 تکان سے چور چور تھے، مگر پھر بھي آنکھوں ميں اطمينان اور خوشي موجيں ماررہي تھي مست تھے، گارہے تھے، اور زور زور سے ہنس رہے تھے، ايک کھنڈر کے سايہ ميں ڈولي اتاردي، گھيسٹے نے بھيک کے جھولي کھولي اس ميں پانچ چھ آدميوں کے کھانے بھر روٹيوں کے ٹکڑے، دال باھت اور ترکارياں ملي جلي بھري تھيں، ان پر ايک نظر ڈال کر ماں کي گالي دے کر ايک طرف پھينک ديا۔پھر ذرا اطميان سے بيٹھ کر ايک پوٹلي کھولي جس ميں تھيں بہت سي تيل کي پورياں کسي قسم کي ترکارياں، سير بھر پچ ميل مٹھائي، چٹ پٹے کباب مولياں اور بيڑي کا بنڈل، آج کے پھيرے ميں پونے دو روپئے ملے تھے، جس ميں سے ڈيڑھ کي  يہ سب خريداري تھي اور چار آنے ابھي گھسيٹے کي جيب ميں اچھل رہے تھے، گھسيٹے نے  سب نعمتيں نکال کر سامنے يہاں وہاں چن ديں، سب ملا کر چار آدميوں بھر کھانا تھا۔

 دونوں کي زندگي ميں يہ پہلا موقع تھا، کہ سامنے تعمتوں کا ڈھير تھا، جس طرح چاہے کھائو جو چاہے کھائو اور جو چاہے پھينکو، پہلے دونوں نے مٹھائي کي ايک ايک ڈلي منہ ميں ڈالي اور بد حواسي سے ان کو نگل گئے، پھر مربھکوں کي طرح مٹھائي پر ٹوٹ پڑے، گويا زندگي بھر بھوک، اسي ايک آن ميں بجھا ديں گے، پوريوں کي باري آئي، ايک ايک پوري کا ايک ايک نوالہ، کس کس  کر دو چار دانت مارتے اور پھر غپ سے دوزخ ميں اتار ليتے، اس شور شرابے سے بڑھيا جو سورھي تھي، جاگ پڑي اور جاگتے ہي کھانا مانگنے لگي، اب ان دونوں کو وہ بھي ياد آئي۔

 گھسيٹے اس کي طرف پيار سے ديکھ کر ہنسا اور اٹھا کر ٹيک لگا کر بيٹھا ديا،لو آج تم بھي مزرے دار چيزیں کھالو، کبھي کاہے کو کھائي ہوں گي،گھسيٹے نے کچھ نکيتاں اس کے منہ ميں ڈال ديں، وہ جلدي سے ان کو نگل گئي اور نگلتے ہي بد حواسي سے باب باب کرنے لگي۔

 حيرت کي بات يہ ہے کہ وہ کسي نہ کسي طرح ہاتھوں پر پيروں کو ہلا جلا کر آگے سرک آئي، گويا کہ چاہتي ہو کہ ايک جھپٹا مار کر سب کچھ ايک ہي دفعہ ميں اپنے منہ ميں بھر لے، فقيرا اور گھسيٹے کيلئے دشواري يہ تھي کہ خود کھائيں يا سے کھلائيں، ادھر اس کے منہ ميں کچھ ديتے ادھر وہ نگل جاتي اور مانگنے لگي۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گھسيٹے جھلا کر بولا تم کيا ياد کروں گي۔دانت کاٹ کر مولي کا ايک ٹکڑا بڑھيا کے منہ ميں دے ديا، بڑھيا فورا خوش ہوگي اسے چبانے لگي مگر چبتا کي اوہ بار بار منہ سے نکل آتا اور پھر کسي نہ کسي طرح کانپتے ہاتھوں سے اسے اندر ٹھيل ليتي دونوں پھر اپنا پيٹ پاٹنے ميں جٹ گئے، ذرا دير ميں بڑھيا کھانسي اس کے حلق ميں ٹکڑا پھنس گيا تھا۔

 آنکھيں چڑھ گئيں اور آگے پيچھےجھوم جھوم کر سوں سوں کرنے لگي، معلوم ہوتا تھا، کہ اب گئي تب گئي، گھسيٹے اسے مرتے ديکھ کر کھانا بھول گيا، اور جلدي سے انگلي ڈال کر اس کے حلق سے ٹکڑا نکال ليا، نلکتے ہي بڑھيا نے ايک چيخ ماري جيسے کسي نے اسکا خزانہ لوٹ ليا، ہو اور حلق پھاڑ پھاڑ اسے پھر مانگنے لگي، اب گھسيٹے نے اسے مشغول رکھنے کيلئے  اسکے ہاتھ ميں ايک رس گلہ دے ديا۔

کتاب

 بڑھيا نے اسے پاني مٹھي ميں زور سے دباليا، اور منہ کي طرف لے چلي، مگر ايک تو ہاتھ کانپ رہا تھا اور دوسرا رس گلے کي پکڑ تکي تھي، وہ کسي طرح منہ کے اندر نہ جاسکا، رس گلہ دب رہا تھا، اس کا شيرا ٹھنڈي باچوں سو ہوتا ہوا گلي پھر اور گلے سے چھاتيوں ميں بہتا رہا، بڑھيا ساري کي ساري ميٹھي ہوگئي، ماں اور بيٹے کھاتے چلے گئے نہ يہ تھکتي تھي اور نہ وہ، رفتہ رفتہ بيٹوں کا ہاتھ سست ہوگيا، مگر ماں کا باب باب تيز ہوگيا۔

 آخر گھسيٹے اور فقيرا ميں نگلنے کي بالکل سکت نہ رھي تو دونوں نے بچا کچا کھانا آگے سرکا ديا، اور وہيں پڑ کر بيڑياں پينے لگے، بڑھيا چلاتي رہي، آخر چلاتے چلاتے تھک کر وہ بھي ٹوکرے ميں گر پڑي، فقيرا بہت خوش تھا، اس کے دل ميں اب تو يہ خيال تک نہ تھا کہ اگر کہيں کسي کو معلوم ہو گيا تو کيا ہوگا؟ اب اسکے سامنے ايک دنيا تھي، جس ميں چھپر نيا ہوگيا، اس ميں ايک طرف لپتا پتا چولھا جسے رمضاني کي بيوہ جھکي ہوئي پھونک رہي تھي۔

 جب چراغ جلے تو بکريوں کا ايک بڑا سا گلہ سا لئے وہ واپس آتا تو رمضاني کي بيوہ جلدي جلدي گرم گرم و سرخا سرخ روٹياں پکا کر سامنے رکھ ديتي ہے، تھالي ميں گھر ميں ايک پھول کي تھالي بھي آگئي ہے، ايک طرف بکري کا مسکا بھي ہے، بہت خوش ھوا۔گھسيٹے کي طبعيت بھي زوروں پر تھي، زندگي ميں پہلي بار کاميابي ہوئي تھي، کاميابي سي کاميابي پونے دو روپے صرف ايک دن ميں  پچاس روپيہ ميہنہ افواہ اگر ہم کہيں کلکتہ ميں ہوتے تو وہاں کتني آمدني ہوتي، پھرجب روپيہ ھوتو کلکتہ کي زندگي ، سنگل چائے، بيڑياں، تاڑي خانہ، بھنا گوشت، وہ سالي نحريلي رنڈيا وہ ان کا مٹ مٹ کر چلنا ، گود ميں بل کھانا، گھسيٹے مسکرايا، کچھ دير وہ انہي خيالوں ميں ڈوبا رہا۔

 پھر ذرا سنجيدہ ہوگيا، سوچنے کي بات ہے فقيرا نے سارے گھر پر قبضہ کرليا ہے، سب بکرياں اپني کرلي ہيں، حصہ مانگا تو سسر بگڑتا ہے جي چاہتا سر پھڑدوں اسکا سالے کا، اب ماں ميں بھي حصہ بٹے گا، نہيں ايسا نہيں ہو سکتا ميں گھر دے دوں گا، بکرياں دے دوں گا، مگر اماں کو نہيں دے سکتا، آخر ميں بھي تو اسکا لڑکا ہوں، اور اب فقيرا کا حق کيا ہے؟

وہ سب کچھ تو  لے چکا ہے، اتنے دنوں تک اماں بھي اسکي رہي، آخر مجھے بھي تو کچھ ملے، اماں کو ميں نہيں دے سکتا، اگر وہ تکرار کرے گا تو ماروں گا، سر پھوڑ دوں گا، حرامي سالا فقيرا،گھسيٹے سوچ سوچ کر کھولنے لگا۔

 فقيرا اتني دير ميں اونگھ گيا تھا، گھسيٹے نے اس کو جھنجھوڑ کر جگايا اور کہا فقيرا سونا بند کرو حصہ بانٹ لو، آج يہ جھگڑا چک جانا چاھئيے،کاہے کا حصہ بانٹ؟ ہاں اب تو کہے گا  کاہے کا حصہ، ارے گھر کا، بکريوں اور جو کمايا ہو اس کا فقيرا تلملا کر اٹھ بيٹھا۔پھر وہ ہي گھر، پھر وھ ہي بکرياں، ہزار بار کہہ ديا کہ ابا کا بنايا ہوا چھپر پندرہ برس ہوئے جب ہي سڑ گل گيا تھا، ميں يہ بنوايا ہے، اور وہ بکرياں بھي مر کھپ گئيں، يہ سب ميري پالي ھوئي ہيں چلا ہے حصہ بانٹنے اور اتنے دنوں ج وتو ہماري روٹي توڑتا رہا ہے؟

فقيرا اب شہر والا فقيرا نہيں تھا، شہر سے نکلتے ہي پھر شير ہوگيا،گھسيٹے کو غصہ ميں مگر سمجھانے کے انداز ميں کہنے لگا اچھا چلو تم لے جائو بکريان اور گھر بھي تم لے لو، مگر لائو ہماري اماں ہم کو دے دوں، اتنے دنوں اگر تم نے کھلايا ہي تو اب ہم کھلائيں گے۔

ہاں اب تو کھلائے ہي گا؟ پندرہ برس پالتا رہا، گو موت صاف کيا، تب اماں کي ياد نہ آئي، اب جو کمائي کے قابل ہوگئي تو اماں تيري ہے، تجھے دے دوں؟ مجال ہے تيري تو لے جا؟

گھسيٹے پر تو بھوت سوار تھا اور وہ غصے ميں ماں کي طرف لپکا جيسے اس کو جيب ہي ميں تو رکھ لے گا، مگر فقيرا فورا کوہ سامنے آگيا، اور لگا گھسيٹے کوگالياں دينے، گھسيٹے کا پارہ حد سے زيادہ  اونچا ہوگيا، اس نے بڑھ کو فقيرا کو زور سے دھکا ديا، اور دوڑ کر بڑھيا کو اس طرح ہاتھوں ميں دبوچ ليا گويا وہ کوئي گھڑي ہے، جس طرح بلي چوہے پر جھپٹتي ہے فقيرا بھي بڑھيا  پر جھپٹا اور اس کے سر اور کمر ميں ہاتھ ڈال کر اپني طرف کھينچنے لگا۔

 بڑھيا اس بلي کي طرح جس کا بچہ مرگيا ہوں، عو عو کر کرے حلق پھاڑ پھاڑ کر تھوڑي دير چھينا جپپٹي ہوئي بڑھيا فقيرا کے ہاتھوں ميں آگئي، نہ جناے فقيرا نے زور کرکے چھين ليا يا گھسيٹے نے بڑھيا کے مرجانے کے ڈر سے اسے خود ہي چھوڑ ديا، مگر فقيرا جيسے ہي اس کو گالياں ديتا پيچھے ہٹا ہے گھسيٹے بھوکے بھڑئيے کي طرہ اسپر پھانڈ پڑا، وہ تڑے کھڑے قد ميچ گر پڑا، اور بڑھيا چيختي، قلابازي کھاتي ايک طرف جا پڑي۔گھيسٹے فقيرا پر چڑھ پڑا اور دنوں ہاتھوں سے اس کا گلا گھوٹنےلگا، فقيرا کا اور تو کوئي بس نہيں چلا وہ نيچے سے اس کے سينے اور منہ پر گھونسے جمانے لگا، گھسيٹے جيسے جيسے گھونسے کھاتا  ويسے ہي ويسے زور سے گلا دباتا، آخر فقيرا کے ہاتھ پائو ڈھيلے پڑ گئے۔

 گھسيٹے نے کس کس کر دو جھٹکے اور دئے، فقيرا کي آنکھوں کے ڈلے غلوں کي طرح باہر نکل آئے، منہ بھيانک ہو گيا، اور ہاتھ پائو بررگے، اب گھسيٹے کا غصہ اترا اور پتہ چلا کہ ميں نے کيا کيا ہے، وہ کانپ کر کھڑا ہو گيا، اور سکتے کي حالت ميں فقيرا کو گھورنے لگا، اس کا چہرہ رام ليلا کے بيچا کي طرح ہونق ہوگيا۔

تھوڑي ہي دير ميں گھسيٹے نے اپنے حواس درست کرليے، کلکتہ ميں ايسے ايسے کئي قصے يہ ديکھ چکا تھا، کئي بار ايسا ہوا کہ اس کے ساتھيوں ميں آپس ميں لڑائي ہوئي اور ايک دوسرے کو مار ڈالا، ڈر کس بات کا؟ فقيروں کےمرنے جينے کي کسي پرواہ ھوتي ہے، مرگيا۔۔۔۔مرگيا۔۔۔۔۔ہا۔۔۔۔فقيرا۔۔۔۔۔۔ناحق۔۔۔۔مرا، مان ليتا ميري بات ميں نے کيا برا کہا تھا کہ اتنے دنوں تک اماں تم نے رکھي ہے اب مجھے دے دوں، ارے ہاں، ميں بھي تو کچھ دنوں زندگي کي بہار ديکھ لو ميرے بھي تو جان ہے، مجھے ايٹ پتھر سمجھا جاتا تھا، جيسا کيا ويسا بھگتا۔

ہاں اب جلدي سے اماں کو لو اور بھاگو۔۔۔۔۔۔پياري اماں۔۔۔کلکتہ وہاں کي بھيک کا کيا کہنا، اب مزا ملے گا کلکتہ کا۔گھيسٹے جلدي سے بڑھيا کي طرف بڑا ديکھا تو وہ تو آدھي چت آدھي پٹ، مٹي کے چونتھ کي طرح ڈھير ہے، آنکھيں چڑھ گئيں ہيں، منہ کلھياں کي طرح کھلا ھوا ہے اور اس ميں اسے رہ رہ کر بلغم اور تھوک لتھڑي آدھي چبي آدھي پوري غذا نگل رہي ہے، نکتا گلاب جامن ، پوري کے بھيگے ہوئے ٹکڑے، لوندے کےلندے، زرد زرد پھن گھسيٹے نے بڑھ کر ہاتھ لگايا۔

 ۔۔۔۔۔۔بڑھيا ميں کچھ نہ تھا، سورج ڈوب گيا تھا، کھنڈر کا ہر کونا بلائوں کا بھٹ معلوم ہوتا تھا، پت جھاڑ ھوا کے جھکڑ سينکڑو ميل سے درختوں ک تاراج کرتے مردہ پتيوں کو اٹھا اٹھا کر ٹکپتے، وحشت ناک سروں ميں سائيں سائيں کرتے ايک طرف سے آرہے تھے اور دوسري طرف بھاگے جارہے تھے۔

 معلوم تھا کہ ہر چيز کو اڑا کر جائيں گے، گھسيٹے ہک بکا کھڑا تھا، اسکے ايک طرف بھائي  کي لاش تھي اور دوسري طرف ماں کي دونوں کے پہلو ميں اس کي آخري کوشش کي بھي لاش تھي، جب تک ماں زندہ تھي، بھيک کي ٹھيکدار تھي، مگر وہ مر گئي اس کے دل ميں سچ مچ ماں بن گئي، يہ وہ ہي ماں تھي جو اس کے ہر دکھ پر بيتاب ہوجاتي تھي۔

 اس کي ہر خوشي پر اپني خوشي قربان کرديتي تھي، فقيرا بھي آخر بھائي بھائي تھا، زندگي کا سہارا، اسکي ياد کلکتہ کي بے کسي ميں بھٹکے  مسافر کا ديا تھي، ان دنوں کے مرتے ہي جو رہا سہا دنيا کا رشتہ تھا وہ بھي ٹوٹ گيا، سمجھتا تھا کہ اب تو کشتي کنارے لگ گئي،، پيشہ مل گيا اور اس کا بہتر سے بہتر سامان آئے گا، اب کچھ مل گيا۔

 مگر ابھي خود اس کے قابل نہيں بنا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔اميد کي آخري کرن ڈوب گئي، اب زندگي کي مصبتيں طوفاني سمندر کي طرح آگے پيچھے، دائيں بائيں، اوپر نيچے ہر طرف تھيں، اسکے بھيانک بھنور منہ پھاڑ بڑھ رہے تھے اور پاس تنکے کا سہارا نہ تھا، گھسيٹے سر جھکائے افق کي طرف چل کھڑا ہوا۔