• صارفین کی تعداد :
  • 2950
  • 6/30/2008
  • تاريخ :

آپا

ممتاز مفتی کی کوئی کتاب

 

جب کبھي بيٹھے بٹھائے مجھے آپا کي ياد آتي ہے تو ميري آنکھوں کے آگے ايک چھوٹا سا بلوريں ديا آجاتا ہے جو مدھم ہوا سے جل رہا ہو۔

مجھے ياد ہے کہ ايک رات ہم سب چپ چاپ باورچي خانے ميں بيٹھے تھے، ميں آپا اور امي جان کہ چھوٹا بدو بھاگتا ہوا آيا ان دنوں بدو يہي چھ سات سال کا ہوگا، کہنے لگا امي جان ميں بھي بياہ کروں گا۔

اوہ ابھي سے اماں نے مسکراتے ہوئے کہا، پھر کہنے لگيں۔

اچھا بدو تمہارا بياہ آپا سے کرديں؟

انہوں نے بدو سے سر ہلاتےہوئے کہا۔

اماں کہنے لگيں، کيوں آپا کو کيا ہے؟

ہم تو چھا جو باجي سے بياہ کريں گے بدو نے آنکھيں چمکاتے ہوئے کہا۔

اماں نے آپا کي طرف مسکراتے ہوئے ديکھا اور کہنے لگيں کيوں ديکھو تو آپا کيسي اچھي ہيں۔

ميں بتائوں کيسي ہيں؟ وہ چلايا

ہاں بتائوں تو بلا ماں نے پوچھا بدو نے آنکھيں اٹھا کر چاروں طرف ديکھا جيسے کچھ ڈھونڈ رہا ہو، پھر اس کي نگاہ چولہے پر آکر رکي، چولہے پر اپلے کا ايک جلا ہوا ٹکڑا تھا، بدو نے اس کي طرف اشارہ کيا اور بولا ايسي پھر بجلي کے روشن بلب کي طرف اشارہ کيا اور چیخنے لگا، اور چھا جو باجي ايسي اس بات پر ہم سب دير تک ہنستے رہے اتنے ميں تصديق بھائي آگئے اماں کہنے لگي تصديق بدو سے پوچھ تو آپا کيسي ہي، آپا نے تصديق بھائي کو آتے ديکھا تو منہ موڑ کر يوں بيٹھ گئي جيسے ہنڈيا پکانے ميں منہمک ہو۔

ہاں تو کيسي ہے آپا بدو وہ بولے بتائو، بدو چلابيا اور اس نے اپنے کا ٹکڑا اٹھانے کيلئے ہاتھ بڑھايا غالبا وہ اسے ہاتھ ميں لے کر ہميں ديکھانا چاہتا تھا مگر آپا نے جھٹ اس کا ہاتھ پکڑ ليا اور انگلي ہلاتے ہوئے بولي اونہہ بدو رونے لگا تو اماں کہنے لگيں، پگلے اس ہاتھ ميں نہيں اٹھاتے اس ميں چنگاري ہے، وہ تو جلا ہوا ہے بدو بسورتنے ہوئے کہا، اماں نے جواب ديا ميرے لال تمہيں معلوم نہيں اس کے اندر آگ ہے، اوپر نہيں دکھائي ديتي بدو نے بھولے پن سے پوچھا کيوں آپا اس ميں آگ ہے اس وقت آپا کے منہ پر ہلکي سي سرخي دوڑ گئي، ميں کيا جانوں وہ بھرائي ہوئي آواز ميں بولي اور پھنکني اٹھا کر جلتي ہوئي آگ میں بے مصرت پھونکيں مانے لگيں۔

ممتاز مفتی کی کوئی کتاب

اب ميں سمجھي ہوں کہ آپا کي گہرائيوں ميں جتيں تھيں اور وہ گہرائياں اتني عميق تھي کہ بات ابھرتي بھي تو نکل نہ سکتي، اس روز بدو نے کيسے پتے کي بات کہي تھي مگر ميں کہا کرتي تھي، آپا تم تو بس بيٹھي رہتي ہو اور وہ مسکراکر کہتي، پگلي اور اپنے کام ميں لگ جاتي، ويسے تو وہ سارا دن کام ميں لگي رہتي تھي ہر کوئي اسے کسي نہ کسي کام کو کہہ ديتا اور ايک ہي وقت ميں اس اسے کئي کام کرنے پڑتے، ادھر بدو چيختا آپا ميرا دليا ادھر بار گھورتے سجاد ابھي تک چائے کيوں نہيں بني، بيچ ميں اماں بولي اٹھتيں بيٹا دھوبي کب سے باہر کھڑا ہے اور آپا جپ چاپ سارے کاموں سے نپٹ ليتي، يہ تو ميں خوب جانتي تھي مگر اس کے باوجود جانے کيوں اسے کام کرتے ہوئے ديکھ کر يہ محسوس نہيں ہوتا تھا کہ وہ کام کر رہي ہے يا وہ اتنا کام کرتي ہے، مجھے تو بس يہي معلوم ہوتا ہے کہ بيٹھي ہي رہتي ہے اور اسے ادھر ادھر گردن موڑنے بھي اتني دير لگتي ہے اور چلتي ہے تو چلتي ہوئي معلوم نہيں ہوتي اس کے علاوہ ميں نے آپا کو کبھي قہقہ مار کر ہنستے نہيں ديکھا تھا، زيادہ سے زيادہ مسکراديا کرتي تھي اور بس البتہ وہ مسکرايا کرتي ، جب وہ مسکراتي تو اس کے ہونٹ بھيگ جاتيں، ہاں ميں تو سمجھتي تھي کہ آپا چپکي ہي بيٹھي رہتي ہے، ذرا نہيں ہلتي اور بن چلے لڑھک کر يہاں سے وہاں پہنچ جاتي ہے، جيسے کسي نے اسے دھکيل ديا ہو، اس کے برعکس ساحرہ کتنے مزے سے چلتي تھي جيسے دادرے کي تال پر ناچ رہی ہو، اپني خالہ زاد بہن ساجو باجي کو چلتے ديکھ تو ميں کبھي نہ اکتاتي جي چاہتا تھا کہ باجي ہميشہ ميرے پاس رہے اور چلتي چلتي اس طرح گردن موڑ کر مدہم آواز ميں کہے ہيں کيوں جي اور اس کي کالي کالي آنکھوں کے گوشے مسکرانے لگے، باجي کي بات بات مجھے کتني پياري تھي۔

ساحرہ اور ثريا ہمارے پڑوس ميں رہتي تھي، دن بھر اس کا مکان ان کے قہقہوں سے گونجتا رہتا تھا، جيسے مندر ميں گھنٹياں بج رہي ہوں، بس ميرا جي چاہتا کہ انہيں کے گھر جاؤں، ہمارے گھر ميں رکھا ہي کيا تھا ايک بيٹھ رہنے والي آپي ايک کرودو کرو والي اماں اور دن بھر حقے ميں گڑگڑانے والے ابا، سارے گھر ميں لے دے کہ صرف تصديق بھائي ہي ہنستے جو دلچسپ باتيں کرتے تھے اور جب ابا گھر پر نہ ہوتے تو وہ بھاري آواز ميں گايا بھي کرتے جانے وہ کون سا شعر تھا۔۔۔۔ہاں۔۔۔۔۔

چپ چاپ سے وہ بيٹھے ہيں آنکھوں ميں نمي سي ہے

نازک سي نگاہوں ميں نازک سا فسانہ ہے

آپا انہيں گانا سنا کر کسي نہ کسي بات پر مسکرا ديتي اور کوئي بات نہ ہوتي تو بدو کو ہلکا سا تھپڑ مار کر کہتي بدو رونا اور پھر آپ ہي آپ بيٹھي مسکرا ديتي۔

تصديق بھائي ميرے پھوپھا کے لڑکے تھے انہيں ہمارے گھر آئے يہي دو ماہ ہوئے ہوں گےکالج ميں پڑھتے تھے پہلےتو وہ بورڈنگ ميں رہا کرتے تھے پھر ايک دن جب پھوپھي آئي ہوئي تھيں تو باتوں باتوں ميں انکا ذکر چھڑ گيا، پھوپھو بھي کہنے لگي کہ بورڈنگ ميں کھانےکا انتظام ٹھيک نہيں ہے لڑکا آئے دن بيمار رہتا ہے، اماں اس بات پر خوب لڑيں کہنے لگيں کہ اپنا گھر موجود ہوتو بورڈنگ ميں پڑے رہنے کا مطلب؟ پھر ان دونوں ميں بہت سے باتيں ہوئيں، اماں کي تو يہ عادت ہے کہ اگلي پچھلي تمام باتيں لے بيٹھتي ہيں غرض کہ نتيجہ یہ ہوا کہ ايک ہفتہ کے بعد تصديق بھائي بورڈنگ چھوڑ کر ہمارے ہاں ٹھہر گئے۔

تصديق بھائي مجھ سے اور بدو سے بڑي گپيں ہانکا کرتے تھے، ان کي باتيں بے دلچسپ ہوتيں، بدو سے تو وہ دن بھر نہ اکتاتے البتہ آپا سے وہ زيادہ باتيں نہ کرتے، کرتے بھي کيسے، جب کبھي وہ آپا کے سامنے جاتے تو آپا کے دوپٹےکا پلو آپ ہي آپ سرک کر نيم گھونگھٹ سا بن جاتا اور آپا کي بھيگي بھيگي آنکھيں جھک جاتيں اور وہ کسي نہ کسی کام ميں شدت سے مصروف دکھائي ديتيں اب مجھے خيال آتا ہے کہ آپا ان کي باتين غور سے سنا کرتي تھي گو کہتي کچھ نہ تھي بھائي صاحب بھي بدو سے آپا کے متعلق پوچھتے رہتے ليکن صرف اسي وقت جب دونوں اکيلے ہوتے۔

بدو يہ تمہاري آپا کيا کر رہي ہے؟

آپا۔۔۔۔بدو لاپروئي سے دہراتا۔۔۔بيٹھي ہے۔۔۔۔بلائوں؟

بھائي صاحب گھبرا کر کہتے نہيں نہيں اچھا بدو آج تمہيں يہ ديکھو اس طرف تمہيں دکھائيں۔

اور جب بدو کا دھيان ادھر ادھر ہوجاتا تو وہ مدہم آواز ميں کہتے ارے يار تم تو مفت کے ڈھنڈوا ہوں، بدو چيخ اٹھتا کيا ہوں ميں؟ اس پر وہ ميز بجانے لگتے۔

جيسے ڈھول بھي کہتے ہيں ڈگمگ ڈگمگ اور آپا اکثر چلتے چلتے انکے دووازے پر ٹہر جاتي ان کے باتيں سنتي رہتي اور پھر چولہے کے پاس بيٹھ کر آپ ہي مسکراتي،اس وقت اس کے سر سے دوپٹہ سرک جاتا، بالوں کي لٹ پھسل کر گال پر آکر گرتي اور وہ بھيگي بھيگي آنکھوں ميں چولہے ناچتے ہوئے شعلوں کي طرح جھومتي، آپا کے ہونٹ يوں ہلتے گويا گارہي ہو مگر الفاط سنائي نے ديتے ایسے ميں اگر اماں يا ابا جان باورچي خانے ميں آجاتے تو وہ ٹھٹھک کر يوں اپنا دوپٹہ بال اور آنکھيں سنبھالتي گويا کسي بے تکلف محفل ميں کوئي بے گانہ آگھسا ہو۔

ايک دن ميں آپا اور اماں باہر صحن ميں بيٹھي تھي، اس وقت بھائي صاحب اندر اپنے کمرے ميں بدو سے باتيں کر رہے تھے ميرا خيال ہے کہ بھائي صاحب کو يہ معلوم نہيں تھا کہ ہم باہر بيٹھے ہوئے ہيں ان کي باتيں سن رہے ہيں، بھائي صاحب بدو سے کہہ رہے تھے ميرے يار ہم تو اس سے بياہ کريں گے جو ہم سے انگريزي ميں باتيں کرسکے کتابيں پڑھ سکيں، شطرنج، کيرم اور چڑيا کھيل سکے اور سب سے ضروري بات يہ ہے کہ ہميں مزے دار کھانے پکا کرکھلا سکے سمجھے؟

بدو بولا ہم تو چھا جوباجي سے بياہ کريں گے۔

اونہ بھائي صاحب نے کہا۔

بدو چيخنے لگا ميں جانتا ہو تم آپا سے بياہ کرو گے، ہاں اس وقت اماں نے مسکرا کر آپا کي طرف ديکھا مگر آپا نے اپنے پاؤں کے انگوٹھے کا ناخن توڑنے ميں اس قدر مصروف تھي جيسے کچھ خبر نہ ہو، اندر بھائي صاحب کہہ رہے تھے، وہ تمہاري آپا فيرني پکاتي ہے تو اس ميں پوري طرح شکر نہيں ڈالتي، بالکل پيکي، آخ تھو۔

بدو نے کہا ابا جو کہتے فرني ميں کم ميٹھا ہونا چاہئيے۔

تو وہ اپنے ابا کيلئے پکاتي ہيں نا ہمارے لئے تو نہيں

ميں کہوں آپا سے؟ بدو چيخا۔

بھائي چلائے وہ پگلا ڈھنڈورا نہيں لو تمہيں، ڈھنڈ وار پيٹ کر دکھائيں، يہ ديکھو اس طرح ڈگمگ ڈگمگ ميں جانتا ہوں تم ميز بجارہے ہو نا؟

ہاں ہاں اسي طرح ڈھنڈورا پيٹتا ہے نا بھائي صاحب کہہ رہے تھے۔

کشتيوں ميں اچھا بدو تم نے کبھي کشتي لڑي ہے آؤ ہم تم کشتي لڑيں ميں ہوا گاما اور تم ہوئے بدو پہلوان، لو آؤ۔۔۔۔۔ٹھہرو۔۔۔۔جب ميں تين کہوں اور اسکے ساتھ ہي انہوں نے مدہم آواز ميں کہا ارے يار تمہاري دوستي تو مجھے مہنگي پڑتي ہے۔

ميرا خيال ہے آپا، ہنسي نہ روک سکيں ، اسلئے وہ اٹھ کر باورچي خانے ميں چلي گئي ميرا تو ہنسي کے مارے دم نکلا جارہا تھا اور اماں نے اپنے منہ ميں دوپٹہ ٹھونس ليا تھا کہ آواز باہر نے نکلے۔

ميں اور آپا دونوں اپنے کمرے ميں بيٹھے ہوئے تھے کہ بھائي صاحب آگئے کہنے لگے کيا پڑھ رہي ہو جہينا؟ ان کے منہ سے جہينا سن کر مجھے خوشي ہوئي، مگر بھائي صاحب کو نام بگاڑ کر سنوارنے ميں کمال حاصل تھا، ان کے منہ سے جہينا سن کر مجھے اپنے نام سے کوئي شکايت نہ رہتي اور محسوس کرتي گويا ايران کي شہزادي ہوں، آپا کو وہ سجادہ سے سجدے کہا کرتے تھے مگر وہ تو پراني بات تھي، اب تو بھائي جان اسے سجدے نہ کہتے بلکہ انکا پورا نام تک لينے سے گھبراتے تھے۔

خير ميں نے جواب دے ديا ميں اسکول کا کام کرہي ہوں۔

پوچھنے لگے تم نے کوئي برنارڈشا کي کتاب پڑھي ہےکيا؟

ميں نے کہا نہيں۔

تمہاري آپا نے ہارٹ بريک ہاؤس پڑھي ہوگي وہ کنکھيوں سے آپا کي طرف ديکھ رہے تھے۔

آپا نے آنکھيں اٹھائے بغير سر ہلاديا اور مدہم آواز ميں کہا نہيں اور سوئٹر بننے لگي رہي۔

بھائ جان بولے کيا بتائو جہينا کہ وہ کيا چيز ہے نشہ ہے نشہ، خالص شہد، تم اسے ضرور پڑھو بالکل آسان ہے، يعني امتحان کے بعد ضرور پڑھنا ميرے پاس پڑي ہے، ميں نے کہا ضرور پڑھوں گي۔

پھر پوچھنے لگے ميں کہتا ہوں آپا نے ميٹرک کے بعد پڑھنا کيوں چھوڑ ديا۔

 

ممتاز مفتی کی کوئی کتاب

ميں نے چڑ کر کہا مجھے کيا معلوم آپ خود ہي پوچھ ليجئے، حالانکہ مجھے اچھي طرح معلوم تھا کہ آپا نے کالج ميں جانےسے کيوں انکار کيا تھا کہتي تھي ميرا تو کالج جانے کو جي نہيں چاہتا وہاں لڑکيوں کو ديکھ کر ايسا معلوم ہوتا ہے گويا کوئي نمائش گاہ ہو، درس گاہ تو معلوم ہي نہيں ہوتي، اس کے علاوہ جب کبھي بھائي جان آپا کي بات کرتے تو ميں خواہ مخواہ چڑ جاتي، آپا تو بات کا جواب تک نہيں ديتي اور يہ آپا آپا کررہے ہيں اور پھر آپا کي بات مجھ سے پوچھنےکا کيا مطلب ہے؟ ميں کيا ٹيليفون تھي؟ خود آپا سے پوچھ ليتے آپا بيٹھي ہوئي گم سم آپا، بھيگي بلي۔

شام کو ابا کھانے پر بيٹھے ہوئے چلا اٹھے آج فرني ميں تني شکر کيوں ہے، قند سے ہونٹ چپکےجاتے ہيں، سجادہ سجادہ بيٹي کيا کھانڈ اتني سستي ہوگئي ہے ايک لقمہ نگلنا بھي مشکل ہے۔

آپا کي بھيگي بھيگ آنکھيں جھوم رہي تھي حالانکہ جب کبھي ابا جان خفا ہوتے تو آپا کا رنگ زرد پڑجاتا، مگراس وقت اسکے گال تمتارہے تھے کہنے لگي شايد زيادہ پڑگئي ہو، يہ کہ کر وہ باورچي خانے ميں چلي گئي اور ميں دانت پيس رہي تھي شايد کيا خوب۔۔۔۔شايد۔۔۔۔۔

ادھر ابا بڑ بڑا رہے تھے، چار پانچ دن سے ديکھ رہا ہوں فرني ميں شکر بڑھتي جارہي ہے صحن سے اماں دوڑي آئيں اور آتے ہي ابا پر برس پڑي جيسے ان کي عادت ہے آپ تو ناحق بگڑتے ہيں آپ کا ہلکا ميٹھا کھاتےہيں تو باقي لوگ بھي کم کھائيں اللہ رکھے جوان لڑکا ہے اس تو خيال رکھنا چاہيے، ابا جان کو چھراني مشکل ہوگئي کہنےلگے، وہيہ بات ہے تو بتاديگا ميں کہتا سجادہ کي ماں۔۔۔۔اور وہ دونوں کھسر پھسر کرنے لگے۔

آپا ساحرہ کے گھر جانے کو تيار ہوئي تو ميں بڑي حيران ہوئي کہ کيا بات ہے آپا تو پہلے ساحرہ کے گھر جانے ميں ناک بھنویں چڑھاتي تھي ميں نے خيال کيا کوئي بھيد ہے خير اس وقت تو ميں چپ چاپ بيٹھي رہي مگر جب آپا لوٹ چکي تو ميں کچھ دير بعد گئي اور باتوں باتوں ميں ساحرہ سے ذکر چھيڑ ديا آج آپا آئي تھي؟

ساحرہ نے ناخن پر پالش لگاتے ہوئےکہا ہاں کوئي کتاب منگوانے کو کہہ گئي ہے نہ جانے کيا نام ہے اس کا ہاں۔۔۔ہارت بريک ہائوس۔

آپا اس کتاب کو مجھ سے چھپا کر دراز ميں مقفل رکھتي تھي، مجھے کيا معلوم تھا رات کو وہ بار بار کبھي ميري طرف اور کبھي گھڑي کي طرف ديکھتي رہتي اسے يوں مضطرب ديکھ کر ميں ايک جھوٹي انگڑائياں ليتي اور پھر کتاب بند کرکے رضائي ميں يوں پڑ جاتي جيسے مدت سے گہري نيند ميں ڈوب چکي ہوں، جب اسے يقين ہوجاتا ہے کہ ميں سوچکي ہوں تو وہ دراز کھول کر کتاب نکالتي اور اسے پڑھنا شروع کرديتي، آخر ايک دن مجھ سے رہا نہ گيا

رضائي سے اپنا منہ نکال کر پوچھ ہي ليا يہ ہارٹ بريک ہاؤس کا کيا مطلب ہے؟ دل توڑنے والا گھر؟ اس کے کيا معني ہوئے آپا پہلے تو ٹھٹھک گئي پھر وہ سنبھل کر اٹھي اور بيٹھ گئي، مگر اس ميري بات جواب نہ ديا ميں نے اس کي خاموشي سے جل کر کہا، اس لحاظ سے تو ہمارا گھر بھي ہارٹ بريک ہے۔

کہنے لگي ميں کيا جانوں؟

ميں نے اسے جلانے کو کہا ہاں ہماري آپا بھلا کيا جانے؟ ميرا خيال ہے يہ بات ضرور اسے بري لگي، کيوں کہ اس نے کتاب رکھ دي اور بتي بجھا کر سوگئي۔

ايک دن يونہي پھرتے پھرتے ميں بھائي جان کے کمرے ميں جانکلي پہلے بھائي جان ادھر ادھر کي باتيں کرتے رہے، پھر پوچھنے لگے جہينا تمہاري آپا کو فروٹ سلاد بنانا آتا ہے، ميں نے کہا ميں کيا جانو جاکے آپا سے پوچھ ليجيے، ہنس کر کہنے لگے، کيا کسي سے لڑ کرآئي ہو؟ کيوں ميں لڑاکا ہوں۔

میں نے کہا۔

بولے نہيں ابھي تو لڑکي ہو کسي دن لڑکا ہو جاؤ،

اس پر ميري ہنسي نکل گئي وہ کہنے لگے ديکھو جہينا مجھے لڑنا بے حد نے پسند ہے ميں تو ايسي لڑکي سے بياہ کروں گا گا جو باقاعدہ صبح شام لڑ سکے، زرانہ اکتائے جانے کیوں ميں شرما گئي اور بات بدلنے کي خاطر پوچھا فروٹ سلاد کيا ہوتا ہے بھائي جان؟

بولے وہ بھي کچھ ہوتا ہے، سفيد، لال لال، کالا کالا، نيلا نيلا سا۔

ميں ان کي بات سن کر ہنسي پھر کہنے لگي وہ مجھے بہت پسند ہے يہاں تو جہينا ہم فيرني کھا کر کراسکتا گئے، ميرا خيال ہے يہ بات آپا نے ضرور سن لي ہوگي، کيون کہ اس شام کو وہ باورچي خانے ميں بيٹھي نعمت خانہ پڑھ رہي تھي اس دن کے بعد روز بلا ناغہ کھانے پکانے سے فارغ ہو کر فروٹ سلاد بنانے کي مشق کيا کرتي اور ہم ميں سے کوئي اس کے پاس چلا جاتا تو جھٹ فروٹ سلاد کي کشتي چھپا ليتي ايک روز آپا کو چھيڑنے کي خاطر ميں نے بدو سے کہا بدو بھلا بوجھو تو وہ کشتي جو آپا کے پيچھے پڑي ہے اس ميں کيا ہے؟

وہ ہاتھ دھو کر آپا کے پيچھے پڑ گيا يہاں تک کہ وہ کشتي آپا کو بدو کو ديني پڑ گئي پھر ميں نے بدو کو اور بھي چمکا ديا ميں نےکہا بدو جاؤ تو بھائي جان سے پوچھو اس کھانے کا کيا نام ہے، بدو بھائي جان کے کمرے کي طرف اٹھ کر جانے لگاتو آپا نے اٹھ کر وہ کشتي اس سے چھين لي اور ميري طرف گھور کر ديکھا، اس روز پہلي مرتبہ آپانے مجھے کيوں گھورا تھا اور اس رات کو آپا شام ہي سے ليٹ گئي مجھے صاف دکھائي ديتا تھا، کہ وہ رضائي ميں پڑي رو رہي ہے، اس وقت مجھے اپني بات پر افسوس ہوا، ميرا جي چاہتا کہ اٹھ کر آپا کے پائو پڑ جائو اور اسے خوب پيار کروں مگر ميں وسيے ہي چپ چاپ بيٹھي رہي اور کتاب کا ايک لفط پڑھ نہ سکي۔

انہي دنوں ميري خالہ زاد بہن ساجدہ ہم سے ساجو باجي کہتے تھے ميڑک کا امتحان دينےکيلئے ہمارے گھر آٹھہري ساجو باچي کے آنے پر ہمارے گھر ميں رونق ہوگئي، ہمارا گھر بھي قہقہوں سے گونج اٹھا، ساحرہ اور ثريا چار پائيوں پر کھڑي ہو کر باجي سے باتيں کرتي رہتيں، بدو چھا جو چھا جو باجي چيختا اور کہتا ہم تو چھاجو باجي سے باہ کريں گے۔

باجي کہتي شکل تو ديکھ اپني پہلے منہ دھو کر آئو پھر وہ بھائي صاحب کي طرف يوں گردن موڑتي کہ کالي کالي آنکھوں کےگوشے مسکرانے لگے اور وہ پہنچم تان ميں پوچھتي ہے نا بھي جان آن کيو جي؟

باجي کے منہ سے بھئي جا آن کچھ ايسا بھلا سنائي ديا کہ ميں خوشي سے پھولي نہ سماتي، اس کے برعک جب کبھي آپا بھائي صاحب کہتي تو کيسا بھدا معلوم ہوتا گويا وہ باجي صاحب کي جگہ آن کر اس سادے سے لفظ ميں جان ڈالتي تھي، جا آن، کي گونج ميں بھائي دب جاتا اور يہ محسوس ہي نہ ہوتا کہ وہ انہيں بھائي کہہ رہاي ہيں اس کے علاوہ بھائي جا آن کہہ کر اپني کالي کالي چمک دار آنکھوں سے ديکھتي اور آنکھوں ہي آنکھوں ميں مسکراتي تو سننے والوں کو قطعي يہ محسوس نہ ہوتا کہ اسے بھائي کہا گيا ہے آپا کے بھائي صاحب اور باجي کے بھئي جا آن ميں کتنا فرق تھا۔

باجي کے آنے پر آکا بيٹھا بيٹھ رہنا ہي رہ گيا تھا، بدو نے بھائي جان سے کھيلنا چھوڑ ديا وہ باجي کي گرد طواف کرتا رہتا اور باجي بھائي جان سے کبھي شطرنج کبھي کيرم کھيتلي۔

باجي کہتي بھي جا آن ايک بوڑلے گا، يہ بھائي جان باجي کي موجودگي ميں بدو سے کيوں مياں بدو کوئي ہے جو ہم سے شطرنج ميں کپٹنا چاہتا ہو؟ باجي بول اٹھي آپا سے پوچھئے بھائي جان کہتے اور تم باجي جھوٹ موٹ کي سوچ ميں پڑجاتي، چہرے پر سنجدگي پيدا کرليت اور کہتي مجھ آپ سے تو آپ پٹ جائيں گے بھائي جان کھلکھلا کر ہنس پڑتے اور کہتے کل جو پٹي تھي بھول گئي کيا، وہ جواب ديتي ميں نے کہا چلو بھئي جا آن کا لحاظ کرو ورنہ۔

دنيا کہے گي مجھ سے ہار گئے اور پھر يوں ہنستي جيسے گھونگر و بج رہے ہوں۔

رات کو بھائي جان باورچي خانے ميں ہي کھانا کھانے بيٹھ گئے آپا چپ چاپ چولہے کے سامنے بيٹھي تھي بدو چھا جو باجي چھا جو باجي کہتا ہوا دوپٹے کا پلو پکڑے اس کے پاس گھوم رہا تھا، باجي بھائي جان کو چھيڑ رہي تھي کہتي تھي بھئي جا آن تو صرف ساڑے چھ پھلکے کھاتےہيں اس کے علاوہ فرني کي پليٹ مل جائےتو قطعي مضائقہ نہيں کريں بھي کيا نہ کھائيں تو مماني ناراض ہو جائيں، انہيں جو خوش رکھنا ہے، بھئي جا آن ہم نے سب اس پر خوب ہنستے پھر باجي ادھر ادھر ٹہلنے لگي اور آپا پيچھے جاکھڑي ہوئي آپا کے پيچھے فروٹ سلاد کي کشتي پڑي تھي باجي نے ڈھکنا سرکا کر ديکھا اور کشتي کو اٹھا ليا پيشتر اس کے کہ آپا کچھ کہہ سکے باجي وہ کشتي بھائي جان کي طرف لے آئي ليجئے بھئي جا آن اس نے آنکھوں ميں ہنستے ہوئے کہا آپ بھي کيا ياد کرينگے ساجو باجي نے کچھ کھلايا ہي نہيں۔

بھائي جان نے دو تين چمچے منہ ميں ٹھونس کر کہا خدا کي قسم اچھا بنا ہے کس نے بنايا ہے؟ ساجو باجي نے آپ کي طرف کنکھيوں سے ديکھا اور ہنستے ہوئے کہا ساجو باجي نے اور کس نے بھئي جا آن بدو چلايا ميں بتاؤ بھائي جان آپا نے بڑھ کر بدو کے منہ پر ہاتھ رکھ ديا اور اسے گود ميں اٹھا کر باہر چلي گئي باجي کے قہقہوں سے کمرہ گونج اٹھا اور بدو کي بات آئي گئي رہ گئي بھائي جان نے باجي کي طرف ديکھا اور جانے انہيں کيا ہوا منہ کھلا کھلا رہ گيا، آنکھيں باجي کے چہرے پر گر گئيں جانے کيوں ميں نے محسوس کيا جيسے کوئي زبردستي مجھے کمرے سے باہر گھسيٹ رہا ہو ميں باہر چلي آئي باہر آپا الگني کے قريب کھڑي اندر بھائي صاحب نے مدہم آواز ميں کچھ کہا آپا نے کان سے دوپٹہ سرکا ديا پھر باجي کي آواز آئي چھوڑئيے، چھوڑئيے، پھر خاموشي چھاگئي۔

ممتاز مفتی کی کوئی کتاب

اگلے دن ہم صحن ميں بيٹھے تھے اس وقت بھائي جان اپنے کمرے ميں پڑھ رہے تھے بدو بھي کہيں ادھر ہي کھيل رہا تھا، باجي حسب معمول بھائي کے کمرے ميں چلي گئي کہنے لگي آج ايک دھند ناتابوڑ کر دکھاؤں کيا رائے ہے، آپ کي؟ بھائي جان بولے واہ يہاں سے کک لگاؤ تو جانے کہا جا پڑو، غالبا انہوں نے باجي کي طرف زور سے پير چلايا ہوگا، وہ بناوٹي غصے ميں چلائي وہ آپ تو ہميشہ پيري سے چھيڑتے ہيں، بھائي جان بول اٹھے تو کيا ہاتھ سے۔۔۔چپ خاموش ۔۔باجي چيخي اس کے بھاگنے کي آواز آئي۔۔۔۔ايک منٹ تک تو پکڑ دھکڑ سنائي دي پھر خاموشي چھا گئي اتنے ميں کہيں سے بدو بھاگتا ہوا آيا کہنے لگا آپا اندر بھائي جان باجي سے کشتي لڑ رہے ہيں چلو دکھائو تمہيں، چلو بھي وہ آپا کا بازو پکڑ کر گھسيٹنے لگا آپا کا رنگ زرد ہدلي کي طرح ہوگيا، اور وہ بت بني کھڑي تھي،بدو نے آپا کو چھوڑا اور کہنے لگا اماں کہاں ہے؟ اور وہ اماں کے پاس جانے کيلئے دوڑا۔

آپا نے لپک کر اسے گود ميں اٹھاليا، آئو تمہيں مٹھائي دو، ديکھو تو کيس اچھي مٹھائي ہے ميرے پاس اور اسے باورچي خانے ميں لے گئي۔

اسي شام کتابوں کي الماري کھولي تو آپ کي ہارٹ بريک ہاؤس پڑي تھي شايد آپا نے اسے وہاں رکھ ديا ہو ميں حيران ہوئي کيا بات ہے مگر آپا باورچي خانے ميں چپ چاپ بيٹھي تھي جيسے کچھ ہوا ہي نہيں ہے، اس کے پيچھے فروٹ کي کشتي خالي پڑي تھي البتہ آپا کے ہونٹ بھينچے ہوئے تھے، بھائي تصديق اور باجي کي شادي کے دو سال بعد ہميں پہلي بار ان کي گھر جانے کا اتفاق ہوا، اب باجي وہ باجي نہ تھي اس کے وہ قہقہے تھے اس کا رنگ زرد تھا اور ماتھے پر شکن چڑھي تھي، بھائي صاحب بھي چپ چاپ رہتے تھے ايک

شام اماں کے علاوہ ہم سب باورچي خانے ميں بيٹھے تھے بھائي کہنے بدو ساجو باجي سے بياہ کرو گے؟

اونہہ بدو نےکہا ہم بياہ کريں گے نہيں۔

بھائي جان نے کہا بدو کہتا تھا کہ آپا چولہے ميں جلے ہوئے اپلے کي طرح ہيں اور چھاجو باجي روشن بلب کي طرح عين اس وقت بجلي چلي گئي باجي کسي کام سے باہر گئي تو بھائي جان نے پھر کہا نہ جانے اب بجلي کو کيا ہوا ہے جلتي بھجتي ہے آپا جپ چاپ بيٹھي چولہے ميں راکھ سے دبي ہوئي چنگاريوں کو کريد رہي تھي، بھائي جان نے مغموم سي آواز ميں کہا اف کتني سردي ہے، پھر اٹھ کر آپا کے قريب چولہے کے سامنے جا بيٹھے اور ان سلگتے ہوئے اپلوں ميں ہاتھ سينکنے لگے بولے مماني سچ کہتي تھي ان جلے ہوئے اپلوں ميں آگ دبي ہوئي ہے، اوپر سے دکھائي نہيں ديتي، کيوں سجدے؟

آپا پرے سر کنے لگا تو چھن سي آواز آئي جيسے کسي دبي ہوئي چنگاري پر پاني کي بونديں پڑي ہوں، بھائي جان منت بھري آواز ميں کہنے لگے اب تو چنگاري کو نہ بجھاؤ سجدے ديکھو تو کتني ٹھنڈ ہے۔

 

ممتاز مفتی نے نفسیات اور جنس کو موضوع بنایا ۔ا ن تمام موضوعات میں مفتی کی اپنی زندگی موجود ہے۔ کیونکہ اُس نے اپنے باپ کے روےے کو دیکھا جو ایک جنسی مریضیت کی حیثیت رکھتا ہے سب کچھ دیکھنے کے بعد اُس کے ہاں تین باتیں در آئیں ایک جنسی دوسرا عورت کے وجود سے نفرت عورت کا جسمانی تصور کرکے اُسے دیوی کی طرح پوجنے کا عمل اور تیسرا حوالہ بڑی عمر کے عورتوں میں دلچسپی ، یہ ساری چیزیں ان کے افسانوں میں موجود ہیں ۔ ان کا ایک خطرناک افسانہ ”تھرڈ مین “ ہے جس میں محبت میں تیسر ے شخص کے وجود کو موضوع بنایا گیا ہے۔ ”غلط ملط“ میں مفتی نے نفسیات اور طوائف کی زندگی کوبیان کیا ہے۔”’پردہ سیمی “ میں کردار فلم دیکھنے کے بعد اپنے گھر میں بھی اپنی بیوی کے ساتھ وہی رشتہ استوار کرتا ہے جو کہ اُس نے فلم میں دیکھا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اُن کا شہر ہ آفاق افسانہ ”آپا“ ایک متوسط طبقے کے گھرانے کی لڑکی کی کہانی ہے جو کہ اپنے اندر بہت سے خواہشات اور جذبات رکھتی ہے لیکن اُس کا اظہار اُس کے لیے ممکن نہیں ہے۔