جو بھی قاصد تھا وہ غیروں کے گھروں تک پہنچا
جو بھی قاصد تھا وہ غیروں کے گھروں تک پہنچا |
کوئی نامہ نہ ترے در بدروں تک پہنچا |
مجھ کو مٹی کیا تو نے تو یہ احسان بھی کر |
کہ مری اک کو اب کوزہ گروں تک پہنچا |
اے خدا! ساری مسافت تھی رفاقت کیلئے |
مجھ کو منزل کی جاہ ہمسفروں تک پہنچا |
تو مہ و مہر لئے ہے مگر اے دستِ کریم |
کوئی جگنو بھی نہ تاریک گھروں تک پہنچا |
دل بڑی چیز تھا بازارِ محبت میں کبھی |
اب یہ سودا بھی مری جان ، سروں تک پہنچا |
وقت قاروں کو بھی محتاج بنا دیتا ہے |
وہ شہِ حسن دریوزہ گروں تک پہنچا |
اتنے ناصح ملے رستے میں کہ توبہ توبہ |
بڑی مشکل سے میں شوریدہ سروں تک پہنچا |
اہلِ دنیا نے تجھی کو نہیں لوٹا ہے فراز |
جو بھی تھا صاحبِ دل ، مفت بروں تک پہنچا |
شاعر کا نام : احمد فراز
پیشکش : شعبہ تحریرو پیشکش تبیان