نہ منزلوں کو نہ ہم رہ گزر کو دیکھتے ہیں
نہ منزلوں کو نہ ہم رہ گزر کو دیکھتے ہیں |
عجب سفر ہے کہ بس ہمسفر کو دیکھتے ہیں |
نہ پوچھ جب وہ گزرتا ہے بے نیازی سے |
تو کس ملال سے ہم نامہ بر کو دیکھتے ہیں |
ترے جمال سے ہٹ کر بھی ایک دنیا ہے |
یہ سیر چشم مگر کب ادھر کو دیکھتے ہیں |
عجب فسونِ خریدار کا اثر ہے کہ ہم |
اسی کی آنکھ سے اپنے ہنر کو دیکھتے ہیں |
کوئی مکاں کوئی زنداں سمجھ کے رہتا ہے |
طلسم خانۂ دیوار و در کو دیکھتے ہیں |
فراز در خورِ سجدہ ہر آستانہ نہیں |
ہم اپنے دل کے حوالے سے در کو دیکھتے ہیں |
وہ بے خبر مری آنکھوں کا صبر بھی دیکھیں |
جو طنز سے مرے دامانِ تر کو دیکھتے ہیں |
یہ جاں کنی کی گھڑی کیا ٹھہر گئی ہے کہ ہم |
کبھی قضا کو کبھی چارہ گر کو دیکھتے ہیں |
ہماری در بدری کا یہ ماجرا ہے کہ ہم |
مسافروں کی طرح اپنے گھر کو دیکھتے ہیں |
فراز ہم سے سخن دوست ، فال کیلئے بھی |
کلامِ غالب آشفتہ سر کو دیکھتے ہیں |
شاعر کا نام : احمد فراز
پیشکش : شعبہ تحریر و پیشکش تبیان