کل ہم نے بزمِ یار میں کیا کیا شراب پی
کل ہم نے بزمِ یار میں کیا کیا شراب پی |
صحرا کی تشنگی تھی سو دریا شراب پی |
اپنوں نے تج دیا ہے تو غیروں میں جا کے بیٹھ |
اے خانماں خراب! نہ تنہا شراب پی |
تو ہم سفر نہیں ہے تو کیا سیرِ گلستاں |
تو ہم سبو نہیں ہے تو پھر کیا شراب پی |
اے دل گرفتۂ غم جاناں سبو اٹھا |
اے کشتۂ جفائے زمانہ شراب پی |
دو صورتیں ہیں یارو دردِ فراق کی |
دو صورتیں ہیں یارو دردِ فراق کی |
دو صورتیں ہیں یارو دردِ فراق کی |
اک مہرباں بزرگ نے یہ مشورہ دیا |
دکھ کا کوئی علاج نہیں ، جا شراب پی |
بادل گرج رہا تھا ادھر محتسب ادھر |
پھر جب تلک یہ غقدہ نہ سلجھا شراب پی |
اے تو کہ تیرے در پہ ہیں رندوں کے جمگھٹے |
اک روز اس فقیر کے گھر آ ، شراب پی |
|
|
دو جام ان کے نام بھی اے پیر میکدہ | جن رفتگاں کے ساتھ ہمیشہ شراب پی | کل ہم سے اپنا یار خفا ہوگیا فراز | شاید کہ ہم نے حد سے زیادہ شراب پی | |
شاعر کا نام : احمد فراز
پیشکش : شعبہ تحریر و پیشکش تبیان