• صارفین کی تعداد :
  • 4026
  • 1/6/2008
  • تاريخ :

تاریخ اسلام

پرانا دروازه

اسلام سے قبل جزیرہ نما عرب کی حالت

جزیرہ نما عرب ایشیاء کے جنوب میں واقع ہے۔ اس کے شمال میں عراق، اردن، مشرق میں خلیج فارس، جنوب میں بحر عمان اور مغرب میں بحر احمر اور خلیج عقبہ واقع ہے۔

اس جزیرہ نما کا رقبہ تیس لاکھ مربع کلومیٹر سے زیادہ ہے اور جغرافیائی اعتبار سے تین منطقوں میں تقسیم ہوتا ہے:

         

مرکزی حصہ صحرائے عرب کے نام سے مشہور ہے اور اس جزیرہ کا وسیع ترین علاقہ ہے۔

          شمالی علاقے کا نام حجاز ہے۔ حجاز حجز سے مشتق ہے جس کے معنی حائل اور مانع ہیں۔ چونکہ یہ سرزمین نجد اور تہامہ کے درمیان واقع اور مانع ہے اسی لیے اس منطقے کو حجاز کہا جاتا ہے۔

          اس جزیرہ نما کا جنوبی حصہ بحر ہند اور بحر احمر کے ساحل پر واقع ہے جس میں یمن اور ”حضر موت“ کے علاقے شامل ہیں۔

جنوبی منطقے کے علاوہ جزیرہ نما کا پورا علاقہ خشک اور بے آب صحراء ہے، مگر بعض جگہوں پر اس میں نخلستان بھی پائے جاتے ہیں۔

سیاسی حالت

عہد جاہلیت میں سیاسی اعتبار سے کسی خاص طاقت کے مطیع اور فرمانبردار نہ تھے۔ وہ صرف اپنے ہی قبیلے کی طاقت کے بارے میں سوچتے تھے۔ دوسروں کے ساتھ ان کا وہی سلوک تھا جو شدت پسند وطن دوست اور نسل پرست روا رکھتے ہیں۔

جغرافیائی اور سیاسی اعتبار سے جزیرہ نما عرب ایسی جگہ واقع ہے کہ جنوبی منطقے کے علاوہ اس کا باقی حصہ اس قابل نہ تھا کہ ایرانی یا رومی جیسے فاتحین اس کی جانب رخ کرتے۔ چنانچہ اس زمانے میں ان فاتحین نے اس کی طرف کم ہی توجہ دی، کیونکہ اس کے خشک و بے آب اور تپتے ریگستان ان کے لیے قطعی بے مصرف تھے۔ اس کے علاوہ عہد جاہلیت کے عربوں کو قابو میں لانا اور ان کی زندگی کو کسی نظام کے تحت منظم کرنا انتہائی سخت اور دشوار کام تھا۔

قبیلہ

عرب انفرادی اور طبعی طور پر استبداد پسند اور خود خواہ تھے، چنانچہ انہوں نے جب بیابانوں میں زندگی کی مشکلات کا مقابلہ کیا تو ان کی سمجھ میں یہ بات آئی کہ وہ تنہا رہ کر زندگی بسر نہیں کرسکتے۔ اس بنا پر انہوں نے فیصلہ کیا کہ جن افراد کے ساتھ ان کا خونی رشتہ ہے یا حسب و نسب میں ان کے شریک ہیں ان سے اپنے گروہ کی تشکیل کریں، جن کا نام انہوں نے ”قبیلہ“ رکھا۔ قبیلہ ایسا مستقل و متحد دستہ تھا جس کے ذریعے عہد جاہلیت میں عرب قومیت کی اساس و بنیاد شکل پذیر ہوتی تھی۔ چنانچہ ہر اعتبار سے وہ خود کفیل تھے۔

دورِ جاہلیت میں عربوں کے اقتدار کا معیار قبائلی اقدار پر منحصر تھا۔ ہر فرد کی قدر و منزلت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاتا تھا کہ قبیلے میں اس کی کیا حیثیت ہے اور اہل قبیلہ میں اس کا کس حد تک اثر و رسوخ ہے۔ یہی وجہ تھی کہ قدر و منزلت کے اعتبار سے قبائل کو بالاترین مقام و مرتبہ حاصل تھا۔ اس کے مقابل کنیزوں اور غلاموں کو قبائل کے ادنیٰ ترین اور انتہائی پست ترین افراد میں شمار کیا جاتا تھا۔

دیگر قبائل کے مقابل جس قبیلے کے افراد کی تعداد جتنی زیادہ ہوتی وہ قبیلہ اتنا ہی زیادہ فخر محسوس کرتا اور خود کو قابل قدر و منزلت سمجھتا۔ اپنے قبیلے کی قدر و منزلت کو بلند کرنے اور قبائل کے افراد کی تعداد کو زیادہ دکھانے کی غرض سے وہ اپنے قبیلے کے مردوں کی قبروں کو شامل کرنے سے دریغ نہ کرتے۔ چنانچہ قرآن نے اس امر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بیان کیا ہے:

الھکم التکاثر حتی زرتم المقابر

”ایک دوسرے پر فخر جتانے کی فکر نے تمہیں قبروں تک پہنچا دیا۔“

اسلامی فن

اجتماعی حالات

جزیرہ نما عرب کے اکثر لوگ اپنے مشاغل اور اقتصادی تقاضوں کے باعث صحراء نشینی کی زندگی اختیار کئے ہوئے تھے۔ کل آبادی کا چھٹا حصہ ایسا تھا جو شہروں میں آباد تھا۔ شہروں میں جمع ہونے کی وجہ یا تو ان کا تقدس تھا یا ان میں تجارت ہوتی تھی، چنانچہ مکہ کو دونوں ہی اعتبار سے اہمیت حاصل تھی۔ اس کے علاوہ شہروں میں آباد ہونے کی وجہ یہ بھی تھی کہ وہاں کی زمینیں سرسبز و شاداب تھیں اور ضرورت پوری کرنے کے لیے پانی نیز عمدہ چراگاہیں بھی موجود تھیں۔ یثرب، طائف، یمن، حیرہ، حضر موت اور عسان کا شمار ایسے ہی شہروں میں ہوتا تھا۔

عرب اپنے لب و لہجہ اور قومی عادت و خصلت کے اعتبار سے شہر نشین عربوں کی بہ نسبت اچھے سمجھے جاتے تھے۔ اسی لیے عرب کے اہل شہر اپنے بچوں کو صحراؤں میں بھیجتے۔ جہاں وہ کئی سال تک رہتے تاکہ ان کی پرورش اسی ماحول اور اسی تہذیب و تمدن کے گہوارے میں ہوسکے۔

جو لوگ شہروں میں آباد تھے ان کی سطح فکر زیادہ وسیع و بلند تھی اور ایسے مسائل کے بارے میں ان کی واقفیت بھی زیادہ تھی جن کا قبیلے کے مسائل سے کوئی تعلق نہ تھا۔

صحراء نشین لوگوں کو شہری لوگوں کی بہ نسبت زیادہ آزادی حاصل تھی۔ اپنے قبیلے کے مفادات کی حدود میں رہ کر ہر شخص کو یہ حق حاصل تھا کہ عمومی طور پر وہ جو چاہے کرے۔ اس معاملے میں اہل قبیلہ بھی اس کی مدد کرتے تھے۔ اسی لیے ان کے درمیان باہمی جنگ و جدال اور مال و دولت کی غارتگری ایک معمولی چیز بن گئی تھی۔ چنانچہ عربوں میں جنہوں نے شجاعت و بہادری کے کارنارمے انجام دیئے ہیں ان میں اکثر صحراء نشین تھے۔

دینی حالت

عہد جاہلیت کے دوران ملک عرب میں بت پرستی کا عام رواج تھا اور لوگ مختلف انداز میں اپنے بتوں کی پوجا کرتے تھے۔ اس زمانہ میں کعبہ مکمل بت خانہ میں بدل چکا تھا جس میں تین سو ساٹھ سے زیادہ اقسام اور مختلف شکل و صورت کے بت رکھے ہوئے تھے اور کوئی قبیلہ ایسا نہ تھا جس کا بت وہاں موجود نہ ہو۔ حج کے زمانے میں ہر قبیلے کے لوگ اپنے بت کے سامنے کھڑے ہوتے، اس کی پوجا کرتے اور اس کو اچھے ناموں سے پکارتے تھے۔

ظہورِ اسلام سے قبل یہود و نصاریٰ بھی جو کہ اقلیت میں تھے، جزیرہ نما عرب میں آباد تھے۔ یہودی اکثر شمال عرب کے گرد و نواح کے علاقوں، مثلاً یثرب، وادی القریٰ، تیما، خیبر اور فدک میں رہا کرتے تھے، جب کہ عیسائی نواح جنوب میں یمن اور نجران جیسی جگہوں پر بسے ہوئے تھے۔

انہی میں چند لوگ ایسے بھی تھے جو وحدانیت کے قائل اور خدا پرست تھے اور وہ خود کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین کے پیروکار سمجھتے تھے، مورخین نے ان لوگوں کو حنفاء کے نام سے یاد کیا ہے۔

جب حضرت محمد مصطفی پر وحی نازل ہوئی، اس وقت عرب میں مذہب کی جو حالت و کیفیت تھی اسے حضرت علی علیہ السلام نے اس طرح بیان کیا ہے:

…واھل الارض یومئذ ملل متفرقةواھواء منتشرة وطرایق متشتة بین مشبہ للہ بخلقہ او ملحد فی اسمہ او مشیر الی غیرہ فھداھم بہ من الضللة وانقذھم بمکانہ من الجہالة

ترجمہ:

”اس زمانے میں لوگ مختلف مذاہب کے ماننے والے تھے، ان کے افکار ایک دوسرے کی ضد اور طریقے مختلف تھے۔ بعض لوگ خدا کو مخلوق سے مشابہ کرتے تھے۔ (ان کا خیال تھا کہ خدا کے بھی ہاتھ پیر ہیں، اس کے رہنے کی بھی جگہ ہے اور اس کے بچے بھی ہیں) وہ خدا کے نام میں تصرف بھی کرتے۔ اپنے بتوں کو خدا کے مختلف ناموں سے یاد کرتے تھے۔ مثلاً لات کو اللہ، عزیٰ کو عزیز اور منات کو منان کے ناموں سے یاد کرتے۔“

بعض لوگ خدا کے علاوہ دوسری اشیاء کو بھی پوجتے تھے، بعض لوگ دہریئے تھے اور صرف فطرت حرکات فلکیہ اور گردش زمان ہی کو خود پر موثر سمجھتے تھے۔

خداوند تعالیٰ نے پیغمبر کے ذریعہ انہیں گمراہی سے نجات دلائی اور آپ کے وجود کی برکت سے انہیں جہالت کے اندھیرے سے باہر نکالا۔

جب ہم بت پرستوں کے گوناگوں عقائد کا مطالعہ کرتے اور ان کا جائزہ لیتے ہیں تو اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ انہیں اپنے بتوں سے ایسی زبردست عقیدت تھی کہ وہ ان کے خلاف ذرا سی بھی توہین برداشت نہیں کرسکتے تھے، اسی لیے وہ حضرت ابوطالب کے پاس جاتے اور پیغمبر کی شکایت کرتے اور کہتے کہ وہ ہمارے خداؤں کو برا بھلا کہہ رہے ہیں اور ہمارے دین و مذہب میں برائیاں نکال رہے ہیں ۔  وہ وجود خدائے مطلق و خالق اور پروردگار کے معتقد و قائل تو تھے اور اللہ کے نام سے اسے یاد کرتے تھے مگر اس کے ساتھ ہی وہ بتوں کو تقدس و پاکیزگی کا مظہر اور انہیں قابل پرستش سمجھتے تھے، وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ یہ بت ان کے معبود تو ہیں مگر ان کے خالق نہیں چنانچہ یہی وجہ تھی کہ جب رسول خدا ان سے گفتگو فرماتے تو یہ ثابت نہیں کرتے تھے کہ خداوند تعالیٰ ان کا خالق ہے بلکہ ثبوت و دلائل کے ساتھ یہ فرماتے کہ خدائے مطلق واحد ہے اور ان کے بنائے ہوئے معبودوں کی حیثیت و حقیقت کچھ بھی نہیں۔

قرآن مجید نے مختلف آیات میں اس امر کی جانب اشارہ کیا ہے یہاں اس کے چند نمونے پیش کیے جاتے ہیں:

لئن سالتھم من خلق السموات والارض لیقولن اللہ

”ان لوگوں سے اگر تم پوچھو کہ زمین اور آسمان کو کس نے پیدا کیا ہے تو یہ خود کہیں گے اللہ نے۔“

مانعبد ھم الا لیقربونا الی اللہ زلفی

”ہم تو ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ وہ اللہ تک ہماری رسائی کرا دیں۔“

اس کے علاوہ وہ بت پرستی کی یہ بھی تعبیر پیش کرتے تھے:

ھوٴلاء شفائنا عنداللہ

”یہ اللہ کے یہاں ہمارے سفارشی ہیں۔“

 

تعلیمی و تمدنی حالت

عہد جاہلیت کے عرب ناخواندہ اور علم کی روشنی سے قطعی بے بہرہ تھے۔ ان کے اس جہل و ناخواندگی کے باعث توہمات و خرافات نے پورے معاشرے پر اپنا سایہ پھیلا رکھا تھا۔ ان کی کثیر آبادی میں گنتی کے لوگ ہی ایسے تھے جو لکھنا اور پڑھنا جانتے تھے۔

دورِ جاہلیت میں عرب تمدن کے نمایاں ترین مظہر حسب و نسب کی پہچان، شعر گوئی اور تقاریر میں خوش بیانی جیسے اوصاف تھے۔ چنانچہ عیش و عشرت کی محفل ہو، خواہ میدان کارزار وہ جہاں بھی جاتے اس میں شعر گوئی یا جادو بیان تقاریر کے ذریعے اپنے قبیلے کی قابل افتخار باتیں ضرور بیان کرتے تھے۔

اس میں شک نہیں کہ اسلام سے قبل عربوں میں شجاعت، شیریں بیانی، مہمان نوازی لوگوں کی مدد کرنا اور حریت پسندی جیسی عمدہ خصوصیات و صفات بھی موجود تھیں مگر ان قابل مذمت عادت و اطوار کے مقابل جو ان کے رگ و پے میں سرایت کرچکی تھیں، ان کی یہ تمام خوبیاں بے حقیقت بن کر رہ گئی تھیں، اس کے علاوہ ان تمام خوبیوں اور ذاتی اوصاف کے محرک انسانی اقدار اور قابل تحسین و ستائش باتیں نہ تھیں۔

زمانہٴ جاہلیت کے عرب طمع پروری اور مادی چیزوں پر فریفتگی کا کامل نمونہ تھے۔ وہ ہر چیز کو مادی مفاد کے زاویئے سے دیکھتے تھے۔ ان کی اجتماعی تہذیب بے راہ روی، بدکرداری اور قتل و غارتگری جیسے برے افعال پر مبنی تھی اور یہی حیوانی پست صفات ان کی سرشت اور عادت و جبلت کا جز بن گئے تھے۔

دورِ جاہلیت میں عربوں کے درمیان جو تمدن رائج تھی اس میں اخلاق کی توجیہ و تعبیر دوسرے انداز میں کی جاتی تھی۔ مثال کے طور پر غیرت، مروت، شجاعت کی سب ہی تعریف کرتے تھے مگر شجاعت سے ان کی مراد سفاکی اور دوسروں کا قتل و خون کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ طاقت ہوتی تھی۔ غیرت کا مفہوم ان کے تمدن میں لڑکیوں کو زندہ دفن کر دینا تھا، اور اپنے اس طریقہٴ کار سے اپنی غیرت کی نمایاں ترین مثال پیش کرتے تھے۔ عہد وفا وہ اسی بات کو سمجھتے تھے کہ ان کے قبیلے کے فرد نے جو بھی عہد و پیمان کیا ہے وہ چاہے غلط ہو یا صحیح وہ اس کی حمایت و پاسداری کریں۔

 

توہم پرستی اور خرافات کی پیروی

طلوعِ اسلام کے وقت دنیا کی تمام اقوام کے عقائد میں کم و بیش خرفات اور جن و پری وغیرہ کے قصے شامل تھے۔ اس زمانے یونانی اور ساسانی اقوام کا شمار دنیا کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ اقوام میں ہوتا تھا۔ چنانچہ انہی کے قصوں اور کہانیوں کا ان پر غلبہ تھا یہ بھی ناقابل انکار حقیقت ہے کہ جو معاشرہ تہذیب و تمدن اور علم کے اعتبار سے جس قدر پسماندہ ہوگا، اس میں توہمات و خرافات کا اتنا ہی زیادہ رواج ہوگا۔ جزیرہ نما عرب میں توہمات کا عام رواج تھا۔ ان میں سے بہت سے تاریخ نے اپنے سینے میں محفوظ کر رکھے ہیں یہاں بطور مثال چند پیش کیے جاتے ہیں:

          ایسی ڈوریوں کو جنہیں کمانوں کی زہ بنانے کے کام میں لایا جاتا تھا لوگ اونٹوں اور گھوڑوں کی گردنوں نیز سروں پر لٹکا دیا کرتے تھے۔ ان کا یہ عقیدہ تھا کہ ایسے ٹوٹکوں سے ان کے جانور بھوت پریت کے اثر سے بچے رہتے ہیں۔ اور انہیں کسی کی بری نظر بھی نہیں لگتی۔ اسی طرح جب دشمن حملہ کرنے کے بعد لوٹ مار کرتا ہے تو ایسے ٹوٹکوں کی وجہ سے ان جانوروں پر ذرا بھی آنچ نہیں آتی۔

          خشک سالی کے زمانے میں بارش لانے کی غرض سے جزیرہ نما عرب کے بوڑھے اور کاہن لوگ ”سلع“ درخت جس کا پھل مزے میں کڑوا ہوتا ہے اور ”عشر“ نامی پیڑ (جس کی لکڑی جلدی جل جاتی ہے) گایوں کی دموں اور پیروں میں باندھ دیتے اور انہیں پہاڑوں کی چوٹیوں تک ہانک کر لے جاتے۔ اس کے بعد وہ ان لکڑیوں میں آگ لگا دیتے، آگ کے شعلوں کی تاب نہ لاکر ان کی گائیں ادھر ادھر بھاگنے لگتیں اور سرمار مار کر ڈنکارنا شروع کر دیتیں۔ ان کے خیال میں ان گائیوں کے ڈنکارنے اور سرمارنے سے پانی برسنے لگتا تھا۔ ان کا یہ بھی گمان تھا کہ جب ورشا کی دیوی یا جل دیوتا ان گائیوں کو تڑپتا ہوا دیکھیں گے تو ان کی پاکیزگی اور پوترنا کو دھیان میں رکھ کر بادلوں کو جلد برسنے کے لیے بھیج دیں گے۔

تاریخ اسلام

  وہ مردوں کی قبر کے پاس اونٹ قربان کرتے اور اسے ایک گڑھے میں ڈال دیتے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ ان کا یہ اقدام ہے کہ صاحب قبر عزت و احترام کے ساتھ اونٹ پر سوار میدان حشر میں نمایاں ہوگا۔

 

عہدِ جاہلیت میں عورتوں کا مرتبہ

دورِ جاہلیت کے عرب عورتوں کی قدر و منزلت کے ذرہ برابر بھی قائل نہ تھے، وہ ہر قسم کے انفرادی و اجتماعی حقوق سے محروم تھیں۔ اس عہدِ جاہلیت کے نظام میں عورت صرف ورثے ہی سے محروم نہیں رکھی جاتی تھی، بلکہ اس کا شمار اپنے باپ، شوہر یا بیٹے کی جائیداد میں ہوتا تھا۔ چنانچہ مال و جائیداد کی طرح اسے بھی ورثے اور ترکے میں تقسیم کر دیا جاتا تھا۔

عرب قحط سالی کے خوف یا اس خیال سے کہ لڑکیوں کا وجود ان کی ذات کے لیے باعث ننگ و عار ہے انہیں پیدا ہوتے ہی زمین میں گاڑ دیتے تھے۔

اپنی معصوم لڑکیوں سے انہوں نے جو ناشائستہ و ناروا سلوک اختیار کر رکھا تھا اس کی مذمت کرتے ہوئے قرآن مجید فرماتا ہے:

واذا بشر احدھم بالانثی ظل وجھہ مسودا وھو کظیم یتواری من القوم من سوء مابشر بہ ایمسکہ علی ھون ام یدسہ فی التراب

”جب ان میں سے کسی کو بیٹی کے پیدا ہونے کی خوشخبری دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا ہے اور وہ بس خون کا سا گھونٹ پی کر رہ جاتا ہے۔ لوگوں سے منہ چھپاتا پھرتا ہے کہ بری خبر کے بعد کیا کسی کو منہ دکھائے۔ سوچتا ہے کہ ذلت کے ساتھ بیٹی کو لیے رہے یا مٹی میں دبا دے۔“

دوسری آیت میں بھی کلام اللہ انہیں اس ناشائستہ فعل اور انسانیت سوز حرکت کے بدلے خداوند تعالیٰ کی بارگاہ میں جواب دہ قرار دیتا، چنانچہ ارشاد ہے:

واذا الموٴدة سئلت بای ذنب قتلت

”اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس قصور میں ماری گئی۔“

سب سے زیادہ افسوسناک بات یہ تھی کہ ان کے درمیان شادی بیاہ کی ایسی رسومات رائج تھیں کہ جن کی کوئی محکم اصل و بنیاد نہ تھی۔ وہ اپنی زوجہ کے لیے کسی معین حد کے قائل نہ تھے۔ مہر کی رقم ادا کرنے کی ذمہ داری سے سبکدوش ہونے کے لیے وہ انہیں آزاد کر دیتے۔ کبھی وہ اپنی زوجہ پر بے عصمت ہونے کا الزام لگاتے تاکہ یہ بہانہ بنا کر مہر کی رقم ادا کرنے سے بچ جائیں۔ ان کا باپ اگر کسی بیوی کو طلاق دے دیتا، یا خود مر جاتا تو اس کی بیویوں سے شادی کرلینا ان کے لیے عار نہ تھا۔

 

حرمت کے مہینے

عہدِ جاہلیت کے تمدن میں ذی القعدہ، ذی الحجہ، محرم اور رجب چار مہینے ایسے تھے جنہیں ماہ حرام سے تعبیر کیا جاتا تھا۔ ان چار ماہ کے دوران ہر قسم کی جنگ و خونریزی ممنوع تھی۔ البتہ اس کے بدلے تجارت، میل ملاقات، مقامات مقدسہ کی زیارت اور رسومات کی ادائیگی کا بازار گرم رہتا تھا۔

قمری مہینوں کے حساب سے سال کے موسم چونکہ آہستہ آہستہ بدلتے رہتے تھے اور یہ موسم ان کے لیے سازگار اور مناسب نہ ہوتے اسی لیے وہ قابل احترام مہینوں میں تبدیل کر دیتے۔ قرآن مجید نے انہیں ”النسی“ کے عنوان سے یاد کیا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے:

انما النسی زیادة فی الکفر

”نسی تو کفر میں ایک اضافہ ہے۔“


متعلقہ تحریریں:

 شجرہ ممنوعہ كونسا درخت تھا؟

  ايك بے نظير معجزہ(اس گھر كا ايك مالك ہے)