• صارفین کی تعداد :
  • 1881
  • 3/11/2008
  • تاريخ :

خوابوں کو باتيں کرنے دو

دریا

آنکھوں ميں جو خواب ہيں ان کو باتيں کرنے دو

ہونٹوں سے وہ لفظ کہو جو کاجل کہتا ہے

 

موسم جو سنديسہ لايا اس کو پڑھ تو لو

سن تو لو وہ راز جو پياسا ساحل کہتا ہے

 

آتي جاتي لہروں سے کيا پوچھ رہي ہے ريت؟

بادل کي دہليز پہ تارے کيونکر بيٹھے ہيں

 

جھرنوں نے اس گيت کا مکھڑا کيسے ياد کيا

جس کے ہر اک بول ميں ہم تم باتيں کرتے ہيں

 

راہ گزر کا، موسم کا، نہ بارش کا محتاج

وہ دريا جو ہر اک دل کے اندر رہتا ہے

 

کھا جاتا ہے ہر اک شعلے وقت کا آتش دن

بس اک نقش محبت ہے جو باقي رہتا ہے

 

آنکھوں ميں جو خواب ہيں ان کو باتيں کرنے دو

ہونٹوں سے وہ لفظ کہو جو کاجل کہتا ہے

 

فراز احمد فراز

 

متعلقہ تحریریں:

اب کے ہم بچھڑے 

اک سنگ     

اس سے پہلے   

ديکھو جيسے ميري آنکھيں   

برسوں کے بعد    

رنجش ہي    

اب کے ہم بچھڑے تو شايد کبھي خوابوں ميں مليں   

امامت  

يہ عالم شوق   

کٹھن ہے راہ  

عقل و دل (نظم)