• صارفین کی تعداد :
  • 5998
  • 6/25/2008
  • تاريخ :

حضرت خديجہ تاريخ کے آئينہ ميں

حضرت خدیجه کا گهر

   خاندان و نام ونسب

    تجارت

   ازدواج

   آيا حضرت  خديجہ (ع)  رسول سے قبل شادي شدہ تھيں ؟

   تجزيہ وتحليل

  رسول کي بعثت اورحضرت خديجہ کاايمان لانا

آنحضرت کي حضرت خديجہ(ع) سے محبت وعقيدت

 

 حضرت خديجہ کا شمار تاريخ  انسانيت کي ان عظيم خواتين ميں ھوتا ھے جنھوں نے انسانيت کي بقاء اور انسانوں کي فلاح  و بھبود کے لئے اپني زندگي قربان کر دي ـ

 تاريخ بشريت گواہ ھے کہ جب سے اس زمين پر آثار حيات مرتب ھونا شروع  ھوئے اور وجود  اپني حيات کے مراحل سے گزر تا ھوا انسان کي صورت ميں ظھور  پذير ھوا اور ابوالبشر حضرت آدم عليہ السلام اولين نمونہ انسانيت اور خلافت الھيہ کے عھدہ دار بن کر  روئے زمين پر  وارد ھوئے اور پھر آپ کے بعد سے ھر مصلح بشريت جس نے انسانيت کے عروج اور انسانوں کي فلاح و  بھبود کے لئے اس کو اس کے خالق حقيقي سے متعارف کرانے کي کوشش کي، کسي  نہ کسي صورت ميں اپنے دور کے خود پرست افراد کي سر کشي اور انانيت کا سامنا کرتے ھوئے مصائب و آلام سے دوچار ھوتا رھا دوسري طرف تاريخ کے صفحات پر ان مصلحين بشريت کے کچہ ھمدردوں اور جانثاروں کے  نام  بھي نظر آتے ھيں جو  ھر  قدم  پر انسانيت کے سينہ سپر ھوگئے اور در حقيقت ان سرکش افراد کے مقابلے ميں ان ھمدرد اور مخلص افراد کي جانفشانيوں ھي کے نتيجے ميں آج  بشريت کا  وجود  برقرار  ھے  ورنہ  ايک  مصلح  قوم  يا  ايک  نبي  يا ايک رسول کس طرح اتني بڑي جمعيت کا مقابلہ کر سکتا تھا جو ھر آن اس کے در پئے آزارھو يھي مٹھي بھر دوست اور فداکار  تھے جن کے وجود سے مصلحين کے حوصلے پست نھيں ھونے پاتے تھےـ

 مرور ايام کے ساتھ  پرچم اسلام آدم (ع) و نوح (ع) و عيسيٰ و ابراھيم عليھم السلام کے ھاتھوں سربلندي وعروج حاصل کرتا ھوا ھمارے  رسول کے  دست مبارک  تک  پھونچا اور عرب کے ريگزار  ميں آفتاب رسالت نے طلوع ھو کر ھر ذرہ کو رشک قمر بنا ديا،ھر طرف توحيد کے شاديانے  بجنے لگے از زمين تا آسمان لا الھٰ الا اللهکي صدائيں  باطل کے قلوب کو  مرتعش  کرنے  لگيں، محمد رسول الله کا شور دونوں عالم  پر  محيط  ھوگيا اور تبليغ الٰھي کا آخري ذريعہ اور ھدايت بشري کے لئے آخري رسول رحمت بنکر عرب کے خشک  صحرا  پر  چھاتا  ھوا  سارے  عالم  پر  محيط  ھو گيا دوسري طرف باطل کا پرچم شيطان و نمرود ، فرعون و شداد کے ھاتھوں سے گذرتا ھوا  ابولھب ، ابو جھل اور ابوسفيان کے ناپاک ھاتھوں  بلند  ھونے کي ناپاک کاوشوں ميں مصروف ھوگيا ـ رسول کے کلمہ توحيد کے جواب ميں ايذا رساني شروع ھوگئي اور حق و باطل کي طرح برسر پيکار ھوگئے ايسے عالم ميں کہ ايک طرف مکہ کے خاص و عام تھے اور دوسري طرف بظاھر ايک تنگ دست اور کم سن جوان جس کے اپنے اس کے مخالف ھو چکے تھے ـ ليکن پيغام الٰھي کي عظمت، مصائب کي کثرت پر غالب تھي اور ھر اذيت کے جواب ميں رسول الله  کا جوش تبليغ اور زيادہ ھوتا جاتا تھا ـ

ايسے کسمپر سي کے عالم ميں جھاں ايک طرف آپ کے چچا ابوطالب نے آپ کي ھر ممکنہ مدد کي وھيں دوسري طرف آپ کي پاک دامن زوجہ حضرت خديجہ نے آپ کي دلجوئي اور مدارات کے ذريعہ آپ کو کفار مکہ سے  پھچنے  والي تمام تکاليف کو  يکسرہ  فراموش کرنے پر مجبور کر ديا ـ حضرت خديجہ نے آپ کي زبان سے خبر بعثت سنتے ھي اٰمنا وصدقنا کھہ کر آپ کي رسالت کي پھلے ھي مرحلے ميں تائيد کردي ـ جناب خديجہ کا يہ اقدام رسول اکرم کے لئے  بھت حوصلہ افزاء ثابت ھوا ـ آپ کي اسي تائيد و تعاون کو رسول اکرم  آپ کي وفات کے بعد بھي ياد فرماتے رھتے تھے اور اکثر و بيشتر  آپ کي زبان اقدس پر حضرت خديجہ کا تذکرہ رھتا تھا (1)

عائشہ نے جب آپ کے  اس فعل پر  اعتراض کرتے ھوئے  کھا  کہ خديجہ ايک ضعيفہ کے سوا  کچہ  نھيں  تھي اور خدا نے  آپ  کو  اس  سے  بھتر  عطا  کر دي  ھے (عائشہ کا اشارہ اپني طرف تھا ) تو حضور  ناراض ھو گئے  (2 )ـ

اور غضب کے عالم  ميں فرمايا کہ خدا کي قسم خدا نے مجھ کو  اس سے  بھتر  عطا  نھيں کي  وللٰہ لقد اٰمنت  بي اذکفر الناس واٰوتيني اذرفضني الناس و صدقتني اذکذبني الناس (3) خدا کي قسم وہ (خديجہ ) اس وقت مجھ پر ايمان لائي جب لوگ کفر اختيار  کئے ھو ئے  تھے اس نے مجھے اس وقت پنا ہ دي جب لوگوں نے مجھے ترک کرديا تھا اور اس نے ميري اس وقت تصديق و تائيد کي جب لوگ مجھے جھٹلا رھے تھےـ

خاندان و نام ونسب

شجر اسلام کي ابتدائي مراحل ميں آبياري کرنے  والي اور  وسطي مراحل ميں اس کي شاخوں کو  نمو  بخشنے  والي يہ خاتون قريش کے اصيل و شريف گھرانے ميں پيد ا ھوئي ـ روايات ميں آپ کي ولادت عام الفيل سے پندرہ سال قبل ذکر ھوئي اور بعض لوگوں نے اس سے کم  بيان کيا ھے ـ آپ کے والد خويلد ابن اسد بن عبد العزي بن قصي کا شمار عرب کے دانشمندوں ميں ھوتا تھا ـ اور آپ کي والدہ فاطمہ بنت زائدہ بن رواحہ ھيں (4) آپ کا خاندان ايسے روحاني اور فداکار افراد پر مشتمل تھا جو خانہ کعبہ کي محفاظت کے عھد يدار تھے ـ جس وقت بادشاہ يمن ”تبع “نے حجر اسود کو مسجد الحرام سے يمن منتقل کرنے کا ارادہ کيا تو حضرت خديجہ کے والد ذات تھي جنھوں نے اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کي جس کے نتيجہ ميں مجبور ھوکر ”تبع “کو اپنے ارادہ سے منصرف ھو نا پڑا ـ(5)

حضرت خديجہ کے جد اسد بن عبد العزي پيمان حلف الفضول کے ايک سرگرم رکن تھے  يہ پيمان عرب کے بعض با صفا وعدالت خواہ افراد  کے  درميان ھو ا تھا جس ميں متفقہ طور  پر  يہ عھد کيا گيا تھا  کہ مظلومين کي طرف سے دفاع کيا جائے گا اور  خود  رسول اکرم  بھي اس پيمان ميں شريک تھے (6) ”ورقہ بن نوفل “ (حضرت خديجہ کے چچا زاد بھائي )عرب کے دانشمند ترين افراد ميں سے تھے اور ان کا شمار ايسے افراد ميں ھوتا تھا جو بت پرستي کو  نا پسند کرتے تھے  (7) اور حضرت خديجہ کو چندين بار اپنے مطالعہ کتب عھدين کي بنا پر خبر دار کرچکے تھے کہ محمد  اس امت کے نبي ھيں ـ(8) خلاصہ يہ کہ اس عظيم المرتبت خاتون کے خاندان کے افراد، متفکر ، دانشمند اور دين ابراھيم  کے  پيرو تھے ـ

تجارت

 ايسے با عظمت افراد کي آغوش عاطفت کي پروردہ خاتون کي طبيعت ميں اپنے  آبا و اجداد کي طرح رفق ودانشمندي کي آميزش تھي جس کے سبب آپ نے اپنے  والد  کے  قتل  کے  بعد ان کي تجارت کو  بطريقہ احسن  سنبھال ليا اور اپنے متفکر  اور  زيرک  ذھن کي بنا پر اپنے سرمايہ کو روز افزوں کرنا شروع کرديا ـ آپ کي تجارت با تجربہ اور با کردار افراد کے توسط سے عرب کے گوشہ وکنار تک پھيلي ھوئي تھي روايت کي گئي ھے  کہ  ”ھزاروں اونٹ آپ کے کار کنان تجارت کے قبضہ مين تھے جو مصر ،شام اور حبشہ جيسے ممالک کے اطراف ميں مصروف تجارت تھے“ (9) جن کے ذريعہ آپ نے ثروت سرشار حاصل کر لي تھي ـ

آپ کي تجارت ايسے افراد پر موقوف تھي جو بيرون مکہ جاکر اجرت پر تجارت کے فرائض انجام دے سکيں چنانچہ حضرت ختمي مرتبت  کي ايمانداري ، شرافت ، او رديانت کے زير اثر حضرت خديجہ نے آپ کو اپني تجارت ميں شريک کر ليا اور باھم قرار داد ھوئي اس تجارت ميں ھو نے والے نفع اور ضرر ميں  دونوں برابر شريک ھوں گے ـ(10) اور بعض مورخين کے مطابق حضرت خديجہ نے آپ کو اجرت پر کاروان تجارت کا سربراہ مقرر کيا تھا ـ (11)ليکن اس کے مقابل دوسري روايت ھے جس کے مطابق رسول الله اپني حيات ميں کسي کے اجير نھيں ھوئے ـ (12) بھر کيف حضرت کاروان تجارت کے ھمراہ روانہ شام ھوئے حضرت خديجہ کا غلام ميرہ  بھي آپ کے ساتھ تھا ـ(13) بين راہ آپ سے کرامات سرزد ھوئيں اور راھب نے آپ ميں علائم نبوت کا مشاھدہ کيا اور ”ميسرہ“کوآپ کے نبي ھونے کي خبر دي ـ (14)تمام تاجروں کو اس سفر ميں ھر مرتبہ سے زيادہ نفع  ھوا جب يہ قافلہ مکہ واپس ھوا تو سب سے زيادہ نفع  حاصل کرنے  والي شخصيت خود پيام اکرم  کي تھي جس نے خديجہ کو خوش حال کرديا اس کے علاوہ ميسرہ (غلام خديجہ ) نے راستے ميں پيش آنے والے واقعات بيان کئے جس سے حضرت خديجہ آن حضرت  کي عظمت و شرافت سے متاثر ھوگئيں ـ

ازدواج

حضرت خديجہ کي زندگي ميں  برجستہ و  درخشندہ ترين  پھلو  آپ  کي حضرت رسالت مآب  کے  ساتھ  ازدواج کي داستان ھے ـ جيسا کہ سابقہ ذکر ھوا  کہ ” حضرت خديجہ کي تجارت عرب کے ا طراف و اکناف ميں پھيلي ھوئي تھي اور آپ کي دولت کا شھرہ  تھا  چنانچہ اس بنا  پر  قريش  کے  دولت مند  طبقہ سے  تعلق  رکھنے  والے  افراد  چندين  بار پيغام  ازدواج  پيش  کر چکے  تھے ، ليکن جن کو زمانہ جاھليت ميں ”طاھره“  کھا جاتا تھا (15) اپني پاکدامني اور عفت کي بنا پر سب کو جواب دے  چکي تھيں ـ حضرت جعفر مرتضيٰ عاملي تحرير فرماتے ھيں ”ولقد کانت خديجہ عليھا السلام من خيرة النساء القريش شرفا واکثر ھن مالا واحسنھن جمالا ويقال لھا سيدةالقريش وکل قومھا کان حريصا ًعلي الاقتران بھا لو يقدر عليھا (16)الصحيح من سيرة النبي الاعظم ج2/ص107)

”حضرت خديجہ قريش کي عورتوں ميں شرف و فضيلت ، دولت و  ثروت اور حسن و جمال کے اعتبار سے  سب  سے  بلند و بالا تھيں اور آپ کو سيدہ قريش کھا جاتا تھا اور آپ کي قوم کا ھر افراد آپ سے رشتئہ ازدواج قائم کرنے  کا  خواھاں  تھا“

حضرت خديجہ کو حبالئہ عقد ميں لانے کے متمني افراد ميں ”عقبہ ابن ابي معيط “” صلت ابن ابي يعاب “”ابوجھل “اور ”ابو سفيان “جيسے افراد تھے جن کوعرب کے دولتمند اور با حيثيت لوگوں ميں شمار کيا جاتا تھا(17) ليکن حضرت خديجہ با وجود يکہ اپني خانداني اصالت ونجابت اور ذاتي مال و ثروت کي بن اپر  بے شمار  ايسے  افراد  سے  گھري ھوئي تھيں جو آپ سے ازدواج کے متمني اور بڑے بڑے مھر دے کر اس رشتے کے قيام کو ممکن بنانے کے لئے ھمہ وقت آمادہ تھے ھميشہ ازدواج سے کنارہ کشي کرتي رھتي تھيں ـ کسي شريف اورصاحب کردار شخص کي تلاش ميں آپ کا وجود صحراء حيات ميں حيران وسرگرداں تھاـ ايسے عالم ميں جب عرب اقوام ميں شرافت و ديانت کاخاتمہ ھو چکا تھا، خرافات و انحرافات لوگوں کے دلوں ميں رسوخ کر کے عقيدہ و مذھب کي شکل اختيار کر چکے  تھے  خود  باعظمت زندگي گذارنا اور اپنے لئے کسي اپنے ھي جيسے صاحب عز و شرف شوھر کا انتخاب کرن اايک اھم اور مشکل مرحلہ تھا ، ايسے ماحول ميں جب صدق و صفا کا فقدان تھا آپ کي نگاہ انتخاب رسول اکرم صلي الله عليہ وآلہ وسلم پر آکر ٹھھر گئي جن کي صداقت و ديانت کا شھرہ  تھا، حضرت خديجہ نے کم ظرف صاحبان دولت و اقتتدار کے مقابلے ميں اعلي ظرف ، مجسمہ شرافت و ديانت اورعظيم کردار کے حامل رسول کو جو بظاھر تنگ دست ، يتيم اور بے سھارا  تھے  ترجيح دے کر قيامت تک آنے والے جوانوں کو درس عمل دے ديا کہ دولت و شھرت اور اقتدار کي شرافت ، عزت اور کردار  کے سامنے کوئي حيثيت نھيں ھےـ  المختصر  برسر  اقتدار افراد کو مايوس کرنے والي ”خديجہ “ نے باکمال شوق و علاقہ ازطرف خود پيغام پيش کر ديا (18) اور مھر  بھي  اپنے  مال  ميں  قرار ديا جس پر حضرت ابوطالب نے خطبئہ نکاح پڑھنے کے بعد فرمايا ”لوگوں گواہ رھنا“”خديجہ “ نے خود کو محمدصلي الله عليہ وآلہ وسلم سے منسوب کيا اور مھر  بھي اپنے مال ميں قرار ديا ھے اس پر بعض لوگوں نے ابوطالب عليہ السلام پر طنز  کرتے  ھوئے  کھا  ياعجباھ!ا لمھر علي النساء للرجل (تعجب ھے مرد عورت کے مال سے مھر کي ادائيگي کرے )جس پرحضرت ابوطالب نے ناراضگي کا اظھار کرتے ھوئے غضب کے عالم ميں فرمايا، ”اذاکانوا مثل ابن اخي ھذاطلبت الرجل باغلي الاثمان وان کانوا امثالکم لم يزوجوا الابالمھر الفالي“ (19)(اگرکوئي مردميرے اس بھتيجے کے مانند ھوگا توعورت اس کوبڑے بھاري مھر دے کرحاصل کرينگي ليکن اگر وہ تمھاري طرح ھوا تواسکو خود گراںو بھاري مھر ديکر شادي کرناھوگي )ايک دوسري روايت کے مطابق حضرت نے اپنامھر (جو بيس بکرہ نقل ھواھے) خود ادا کيا تھا (20) اور ايک روايت کے مطابق آپ کے مھر کي ذمہ داري حضرت علي نے قبول کر لي تھي ، حضرت کي عمر کے سلسلے ميں تمام مورخين کا اس پر اتفاق ھے کہ حضرت خديجہ سے آپ نے پھلي شادي 25/سال کي عمر ميں کي ليکن خود حضرت خديجہ کي عمر کے بارے ميں کثير اختلاف وارد ھوا ھے چنانچہ 25،28،30اور 40 سال تک بھت کثرت سے  روايات  وارد ھوئي  ھيں (21) ليکن معروف ترين قول يہ ھے کہ آپ کي عمر شادي کے وقت 40 سال تھيـں (22)

آياحضرت خديجہ (ع) رسول سے قبل شادي شدہ تھيں ؟

اس مسئلہ ميں کہ آيا رسول صلي الله عليہ وآلہ وسلم کے حبالہ عقد ميں آنے سے قبل حضرت خديجہ دوسرے افراد کے ساتھ بھي رشتہ مناکحت سے منسلک رھ چکي تھيں يا نھيں تاريخ کے مختلف اوراق پر متعدد  راويوں  کے  اقوال ميں کثير اختلاف  واقع  ھوا ھے  چنانچہ بعض راويوں کے نزديک رسول صلي الله عليہ وآلہ وسلم سے شادي کرنے سے قبل حضرت خديجہ شادي شدہ  تھيں اور سابقہ شوھروں  سے  آپ  کي  اولاد يں بھي ھوئيں تھيں ـ

 تاريخ کے مطابق آپ کے سابق شوھروں کے نام بالترتيب ”عتيق بن عايذبن عبد اللهفخروي “ اور ”ابوھالہ تميمي“ ھيں   (23) اس کے علاوہ خود آنحضرت کے  بارے  ميں روايت وارد ھوئي ھے  کہ  ”عائشه“ کے علاوہ آپ نے کسي کنواري خاتون سے شادي نھيں کي تھي (24) ليکن يہ تمام روايات جو يہ ثابت کرتي ھيں کہ حضرت خديجہ شادي شدہ تھيں اور رسول سے قبل بھي دوسرے کي شريک حيات رہ چکي تھيں ،دلائل اور دوسري روايات معتبرہ  کي روشني ميں صحيح نظر نھيں  آتيں ، بلکہ  تمام  تاريخ کو سياست کے ھاتھوں مسخ کئے جانے کي ناکام کوششوں ميں سے ايک کانتيجہ ھيں ـ

حضرت خدیجه کا گهر

تجزيہ وتحليل

1)ـ ابن شھر آشوب کا بيان ھے کہ ”مرتضيٰ شامي ميں اور ابوجعفر تلخيص ميں رقم طراز ھيں کھ ”ان النبي تزوج وکانت عذراء“ (25) نبي نے آپ سے شادي کي درحاليکہ آپ کنواري تھيں“ـ

اس کے علاوہ اسي مطلب کي تائيد اس روايت سے بھي ھوئي ھے جو ثابت کرتي ھے”ان رقيہ و زينب کانتا ابتي ھالة اخت خديجہ (26)رقيہ اور زينب خديجہ کي بھن ھالہ کي بيٹياں تھيں (نہ کہ خديجہ کي)ـ

2)ابوالقاسم کوفي ک ابيان ھے کہ ”خاص و عام اس بات پر متفق ھيں کہ تمام اشراف سر بر آوردہ  افراد  حضرت خديجہ سے ازدواج  کے  آرزومند  تھے  ليکن خديجہ کے  بلند  معيار  کے  سامنے  ان  کي  دولت  کي  فراواني  اور شان  و شوکت ھيچ نظر آتي تھي يھي وجہ تھي کہ حضرت خديجہ نے سب  کے  رشتوں  کو ٹھکرا دیا تھا ليکن  زمانے  کي حيرت کي اس وقت کوئي انتھا نہ رھي جب اسي خديجہ نے عرب کے صاحبان مال و زر اور فرزندان دولت و اقتدار کو ٹھکرا کر حضرت رسالت مآب سے رشتہ ازدواج قائم کر ليا جن کے پاس مال دنيا ميں سے  کچہ نہ تھا اسي لئے  قريش کي عورتيں خديجہ سے تحير آميز  ناراضگي کا اظھار کرتے ھوئے سوال کر بيٹھيں کہ اے خديجہ ! تو نے شرفا و امراء قريش کو جواب دے ديا اور کسي کو بھي خاطر ميں نہ لائي ليکن يتيم ابوطالب کو جو  تنگ دست و بے روزگار ھے انتخاب کرليا اس روايت سے  يہ بات واضح ھو جاتي ھے کہ حضرت خديجہ نے مکہ کے صاحبان دولت و ثروت کو  رد کر دي اتھا اور کسي سے بھي شادي کرنے  پر  آمادہ نھيں تھيں ، دوسري طرف اس روايت کي رد سے جو سابقا ذکر ھوئي آپ کے ايک شوھر ک انام ”ابوھالہ تميمي “ ھے جو بني تميم کا ايک اعرابي تھا، عقل انساني اس بات پر متحير  ھوجاتي  ھے  کہ کس طرح  ممکن  ھے  کہ  کوئي اشراف کے پيغام کو ٹھکرا دے اور ايک اعرابي کو اپنے شريک حيات کے طور پر انتخاب کرلے ،علاوہ بر ايں اس سے بھي زيادہ تعجب کا مقام  يہ ھے کہ خديجہ کے اشراف کو نظر انداز کرکے رسول اکرم صلي الله عليہ وآلہ وسلم کو (جو خانداني اعتبار سے  بلند  مقام کے حامل تھے ) انتخاب کرنے پر تو قريش کي عورتيں انگشت نمائي کرتي نظر آئيں ليکن ايک اعرابي سے شادي کے خلاف عقل فعل پر، سخن زمانہ ساکت رہ جائے (الصحيح من سيرة النبي الاعظم ج/2ص/123)اس دليل کي روشني ميں يہ واضح ھو جاتا ھے کہ حضرت خديجہ نے  رسول  سے  قبل کوئي شادي  نھيں کي تھي اور اگر کي ھوتي تو زمانے کے اعتراضات تاريخ ميں محفوظ ھوتے ـ

3)بعض لوگوں نے حضرت خديجہ کے شادي شدہ ھونے پر ا س روايت سے استدلال کياھے کھ”راہ اسلام کا اولين شھيد حارث بن ابي ھالہ فرزند حضرت خديجہ ھے (27)

مذکورہ بالا روايت کے مقابلے ميں دوسري روايات جن کي سند يں معتبر ھيں ”ابو عمار اور ام عمار“کو اسلام کے پھلے شھيد کي صورت ميں پيش کرتے ھيں ”ان اول شھيد في الاسلام سميہ والدہ عمار “ (28)         

(اسلام کي راہ ميں پھلي شھيد ھونے والي سميہ والدہ عمار ھيں )اورابن عباس اورمجاھد کي روايت کے مطابق ”قتل ابوعماروام عماراول قتيلين قتلا من المسلمين“ (29)

اسلام کي راہ ميں شھيد ھونے والے پھلے افراد ابوعمار اور ام عمار ھيں ـ

ان روايات سے کاملاً رد ھوتي ھے کہ يہ شخص جس کو حضرت خديجہ کے بيٹے کي حيثيت سے تاريخ  کے صفحات پر مرقوم کر ديا گيا ھے  اسلام  کي  راہ  ميں  قربان ھونے والا پھلا شھيد  تھا، لھذا معلوم  نھيں ھے کہ اس شخص کا وجود خارجي تھا  بھي يا نھيں چہ جائيکہ حضرت خديجہ کا فرزند ھونا پائے ثبوت کو پھنچےـ

4)،روايات سے معلوم ھوتا ھے کہ حضرت خديجہ کي ايک بھن تھيں جن ک انام ’ھالۂ تھا اس ھالہ کي شادي ايک فخروي شخص کے ساتھ ھوئي  جس سے ايک بيٹي پيدا ھوئي جس کانام ”ھالھ“ تھا ، پھر اس ھالہ اولي (خواھرخديجہ  (ع))سے ايک بني تميم سے  تعلق رکھنے والے شخص نے شادي کرلي جو ابوھند  کے  نام سے معروف ھےـ اس تميمي سے ھالہ کے ايک بيٹ اپيدا ھوا جس ک انام ھند تھا اوراس شخص ابوھند تميمي(شوھر خواھرخديجہ ) کي ايک اور بيوي تھي جس کي دو بيٹياں تھيں ’رقيہ ٔ اور ”زينب“ کچہ عرصے کے بعد ابو ھند کي پھلي بيوي جو رقيہ اورزينب کي ماں تھي فوت ھو گئي اور پھر کچہ ھي مدت کے بعد ”ابوھند “بھي دنيا سے رخصت ھوگيا اور اس کابيٹ ا”ھند “ جوھالہ سے تھا اور دو بيٹياں جو اس کي پھلي بيوي سے تھيں جن کا نام تاريخ ،رقيہ اور زينب ذکر کرتي ھے ”خديجہ “کي بھن کے پاس باقي رہ گئے جن ميں سے ھند اپنے باپ کي موت کے بعد اپني قوم بني تميم سے ملحق ھوگيا اور”ھالہ “(حضرت خديجہ کي بھن )اور اس کے شوھر کي دونوں بيٹياں حضرت خديجہ کے زير کفالت آگئے ،اور آنحضرت سے آپ کي شادي کے بعد بھي آپ ھي کے ساتھ  رھيں اورآپ ھي کے  گھر ميں ديکھا گيا تھا اس لئے عرب خيال کرنے لگے کہ يہ خديجہ ھي کي بيٹياں ھيں اور پھر ان کو حضرت سے منسوب کر ديا گيا  ليکن حقيقت امر يہ تھي کہ رقيہ اورزينب حضرت خديجہ کي بھن ”ھالہ “کے شوھر کي بيٹياں تھيں ـ (الصحيح من سيرة النبي الاعظم ج/2ص/126)

مذکورہ بالا دلائل کي روشني ميں يہ بات پائے ثبوت کو پھنچي ھے کہ حضرت خديجہ رسول کے حبالئہ عقد ميں آنے سے قبل غير شادي شدہ  تھيں اور آپ کے شوھروں اورفرزندوں کے نام جو تاريخ ميں نظر آتے ھيں يا تو کسي غلط فھمي کا نتيجہ ھيں يا سياست کے ھاتھوں عظمت رسول کو  کم  کرنے کي ايک ناکام کوشش ، مذکورہ دلائل کے علاوہ بھي حلّي اور نقضي جوابات دئے گئے ھيں جو تاريخ کي اس حقيقت سے پردہ اٹھانے والے ھيں ليکن يہ مختصر مضمون ان تمام دلائل اور روايات کا متحمل نھيں ھو سکتا ھے، آپ کي اولاد ميں حضرت فاطمہ زھرا کے علاوہ کوئي فرزند زندہ نھيں رھاـ

رسول کي بعثت اورحضرت خديجہ کاايمان لانا

حضرت رسول اکرم صلي الله عليہ وآلہ وسلم کے مبعوث بہ رسالت ھونے کے بعد  عورتوں ميں جس شخصيت  نے  سب سے پھلے آپ کي تصديق کي اور آپ پر ايمان لائي وہ حضرت خديجہ کي ذات گرامي ھے (30) طبري نے واقدي سے روايت کي ھے کہ  ”اجتمع اصحابنا علي  ان اول اھل القبلة استجاب لرسول الله خديجہ بنت خويلد (31) علماء کا اس بات پر اتفاق ھے کہ رسول اکرم صلي الله عليہ وآلہ وسلم کي آواز  پر  سب  سے  پھلے  لبيک  کھنے  والي  حضرت خديجہ کي ذات گرامي ھے ) خود رسول اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کا ارشاد ھے ”و الله لقد امنت بي اذ کفر الناس و اويتني اذ  رفضني الناس و صدقتني اذ کذبني الناس (32)خداکي قسم وہ (خديجہ )مجھ پر اس وقت ايمان لائي جب لوگ کفر اختيار کئے ھوئے تھے اس نے مجھے اس وقت پناہ دي جب لوگوں نے مجھے  ترک کر ديا تھا اور اس نے ايسے موقع پر ميري تصديق کي جب لوگ مجھے جھٹلا رھے  تھے)

حضرت علي عليہ السلام فرماتے ھيں ـ لم يجمع بيت واحد يومئيذ في الاسلام غير رسول الله وخديجہ وا نا ثالثھا (33)وہ ايسا وقت تھاجب روئے زمين پر کوئي مسلمان نہ تھابجز اس خاندان کے جو رسول اور خديجہ پر مشتمل تھا اور ميں ان ميںکي تيسري فرد تھا )ابن اثير کابيان ھے :ـاول امراء ةتزوجھا واول خلق اللہ اسلم بالاجماع المسلمين لم يتقد مھاوجل ولاامراء ة“ (34)حضرت خديجہ پھلي خاتون ھيں جن سے آنحضرت نے رشتئہ ازدواج قائم کيااوراس امر پر بھي مسلمانوں کا اجماع ھے کہ آپ سے پھلے نہ کوئي مرد ايمان لايا اورنہ کسي عورت نے اسلام قبول کيا)ـ

آنحضرت کي حضرت خديجہ(ع) سے محبت وعقيدت

حضرت خديجہ کي آنحضرت کي نگاہ ميں محبت و عقيدت اورقدر و منزلت کا اندازہ اس بات سے لگايا جا سکتا ھے  کہ آپ کي زندگي ميں آنحضرت نے کسي بھي خاتون کو اپني شريک حيات بنانا گوارہ  نھيں کيا (35) آپ کے بارے ميں حضرت کاارشاد ھے کہ  ”خديجہ اس امت کي بھترين عورتوں ميں سے ايک ھے

(36)آپ کي وفات کے بعد بھي ھميشہ آپ کو  ياد فرماتے رھے (37) عائشہ کا بيان ھے کہ مجھے رسول صلي اللہ عليہ وآل و سلم کي کسي زوجہ سے اتنا حسد  نھيں ھوا جتنا خديجہ سے ھوا حالانکہ خديجہ کي وفات مجھ سے قبل ھو چکي تھي اور اس حسد کا سبب  يہ  تھا کہ آنحضرت آپ کا تذکرہ بھت زيادہ فرماتے تھے (38) چنانچہ يھي سبب ھے کہ دوسر ي جگہ عائشہ سے روايت نقل ھوئي ھے کہ ”ايک روز رسول اکرم صلي الله عليہ وآلہ و سلم خديجہ کي تعريف فرما رھے تھے مجھے حسد  پيدا ھوا اور ميں  نے  عرض کي  يا  رسول اللہ خديجہ ايک ضعيفہ کے علاوہ کچہ بھي نھيں تھي جو  مرگئي اور خدا نے آپ کو اس سے بھتر عطا کردي ھے (عائشہ کااشارہ اپني طرف تھا) رسول صلي الله عليہ وآلہ و سلم يہ سن کر ناراض ھو گئے(39) اورغضب کے عالم ميں فرمايا ”لاوالله ماابد لني اللھ خير امنھااٰمنت بي اذکفر الناس وصدقتني اذکذبني الناس وواستني بھالھااذحرمني الناس ورزقني منھاالله ولدادون غيرھامن النساء“(40)خدا کي قسم خدانے مجھکو اس سے بھتر عطانھيں کي وہ مجھ پر اس وقت ايمان لائي جب لوگ کفر اختيار کئے ھوئے تھے اس نے ميري اس وقت تصديق کي جب لوگ مجھکو جھٹلارھے تھے اوراس نے اپنے مال کے ذريعہ ميري اس وقت مدد کي جب لوگوں نے مجھے ھر چيز سے محروم کردياتھا اورخدانے صرف اسي کے ذريعہ مجھے اولاد عطافرمائي اورميري کسي دوسري بيوي کے ذريعہ مجھے صاحب اولاد نھيں کيارسول اکرم صلي الله عليہ وآلہ وسلم کے اس جواب سے آنحضرت کي حضرت خديجہ کيلئے محبت اورعقيدت واحترام کااندازہ ھوتاھے ـخديجہ کااسلام کيلئے اپنااورسب کچہ قربان کرکے بھي اسلام کي نشرواشاعت کاجذبہ ھي تھاجس نے اسلام کودنياکے گوشہ وکنار تک پھنچنے کے مواقع فراھم کئے اوريھي سبب تھاکہ ”حضرت نے آپ کوخداکے حکم سے جنت کي بشارت ديدي تھي “عائشہ سے مسلم نے روايت نقل کي ھے کہ ”بشر رسول الله صلي الله عليہ وآلہ وسلم بنت خويلد ببيت في الجنة “(حضرت رسول اکرم صلي الله عليہ وآلہ وسلم نے خديجہ سلام الله عليھاکو جنت کي بشارت دي تھي ) (41) حضرت خديجہ اور ابوطالب رسول کے دو ايسے مدافع  تھے جن کي زندگي ميں کفار قريش کي طرف سے آپ کو  کوئي  گزند  نھيں  پھنچا ليکن رسول کے  يہ دونوں جانثار ايک ھي سال بھت مختصر  وقفہ سے  يکے  بعد  ديگرے  دنيا سے رخصت ھو گئے  اور روايات کے مطابق رسول پر دونوں مصيبتيں ھجرت سے تين سال قبل اور شعب ابي طالب سے باھر آنے کے کچہ روز بعد واقع ھوئيں (42)رسول اکرم صلي الله عليہ وآلہ وسلم نے اس سال کو عام الحزن قرار دیا(43) اور يہ  مصيبت  رسول  کے لئے اتني سخت تھي کہ رسول خانہ نشين ھو گئے اور آپ نے حضرت خديجہ اور ابوطالب کي وفات کے بعد باھر نکلنا بھت کم کرديا تھا(44)ايک روز کسي کافر  نے آپ کے سر  پر خاک ڈال دي رسول اکرم صلي الله عليہ وآلہ وسلم اسي حالت ميں گھر ميں داخل ھوئے آپ کي زبان پر يہ کلمات تھے ”مانالت مني قريش شيا اکرھہ حتي مات ابوطالب“(45) قريش ابوطالب کي زندگي ميں مجھکوکوئي گزند نھيں پھنچا سکے) آپ حضرت ابوطالب اورخديجہ کي زندگي ميں اطمينان سے تبليغ ميں مصروف رھتے تھے ـ خديجہ گھر کي چھار ديواري ميں اور ابوطالب مکہ کي گليوں ميں آپ کے مدافع تھے ۔

حضرت خديجہ جب تک زندہ رھيں رسول الله صلي الله عليہ وآلہ وسلم کے اطمينان و سکون کا سبب بني رھيں دن بھر کي تبليغ کے بعد تھک کر چور اور کفار  کي  ايذا رسانيوں سے شکستہ دل ھوجانے والا رسول جب بجھے ھوئے دل اور پژمردہ چھرے کے ساتھ  گھر ميں قدم رکھتا تو  خديجہ کي ايک محبت آميز مسکراھٹ رسول کے مرجھائے ھوئے چھرے کو پھر سے ماہ تمام بنا ديا کرتي  تھي ، خديجہ کي محبتوں کے زير سايہ کشتي اسلام کا ناخدا عالمين کے لئے رحمت بن کر دنيا کي ايذا رسانيوں کو  بھلاکر  ايک  نئے جوش و جذبے اور ولولے کے ساتھ  ڈوبتے ھوئے ستاروں کا الوداعي سلام اورمشرق سے سر ابھارتے ھوئے سورج سے خراج ليتا ھوا ايک بار پھر خانہ عصمت وطھارت سے  باھر آتا اور باطل کو لرزہ بر اندام کرنے والي لاالہ الاالله کي بلند بانگ صداؤں سے مکہ کے در و ديوار ھل کر رہ جاتے کفارجمع ھوتے رسول پر اذيتوں کي يلغار کر ديتے ليکن انسانيت کي نجات اور انسانوں کي اصلاح کا خواب دل ميں سجائے رسول اکرم صلي الله عليہ وآلہ وسلم خوشاآيند مستقبل کے تصور ميں ھر مصيبت کا خندہ پيشاني سے مقابلہ کرتے رھے اورآپ کے اسي صبر  و  تحمل اورآپ کي پاکدامن زوجہ کے تعاون اور جانثاري سے آج ھم مسلمانان جھان پرچم توحيد کے علمبردار رسول کے اس خواب اصلاح کو شرمندہ  تعبير کرنے کے لئے آپ کے اس آخري جانشين کے انتظار ميں سرگرداں ھيں جو زمين کو عدل و انصاف سے پر کردے گا ـ

--------------------------------------------------------------------------------

1ـ صحيح مسلم /44/76/2435، ترمذي کتاب مناقب حديث /3901، کنز العمال ح/ 13/ص/693

2ـ اسد الغابہ ج/5 ص / 438 ، مسلم فضائل صحابہ / 3437 ، البدايہ و النھايہ ج/ 3 ص / 158

3ـ بحار ج/ 16 ص/ 12 ، اسد الغابہ ج/ 5 ص / 439

4ـ طبقات ابن سعد ج/ 1 ص /88

5ـسيرة ھشام ج/ 4 ص / 281 ،  الاصابہ ج / 4 ص / 281،طبري ج / 3 ص / 33

6ـالبدايہ و النھايہ ج / 2 ص / 262

7ـ سيرة حليہ ج / 1 ص / 131 ، طبقات ابن سعد ج/ 1 ص / 86 ، حيات النبي و سيرتہ ج / 1 ص / 60

8ـ سيرة ھشام ج/ 1 ص / 259

9ـ البدايہ و النھايہ ج/ 2 ص / 362 ، سيرة ھشام ج / 1 ص / 338

10ـ بحار ج / 16 ص / 22

11ـ البدايہ و النھايہ ج / 2 ص / 258

12ـ البدء و التاريخ ج / 2 ص / 47

13ـ تاريخ يعقوبي ج / 1 ص / 376

14ـ بدايہ و النھايہ ج / 2 ص / 358 ، طبري ج / 2 ص / 204

15ـ الکامل في التاريخ ج/ 1 ص / 472 ، دلائل النبوة ج / 2 ص / 66

16ـ سيرة حلبيہ ج / 1 ص / 135 ، البدايہ و النھايہ ج / 2 ص / 358 ، الکامل في التاريخ ج / 1 ص / 472

17ـ السيرة النبويہ (دحلان ) ج / 1 ص/ 92

18ـبدايہ والنھايہ ج/ 2 ص / 358، بحار الانوار ج/ 16 ص / 22

19ـبحار الانوار ج/ 16 ص / 22

20ـ سيرة حلبيہ ج / 1 ص /140 ، طبري ج/ 2 ص / 205

21ـ  الصحيح من سيرة النبي ج / 2 ص / 112 ـ113 ، بحار الانوار ج / 16 ص / 14

22ـسيرہ ھشام ج / 1 ص 227

23ـالبدايہ و النھايہ ج / 2 ص / 360 ، البدء و التاريخ ج/ 2 ص / 48

24ـسيرہ حلبيہ ج / 1 ص /140، الصحيح من سيرة النبي الاعظم ج/ 2 ص / 115

25ـفروغ ابديت ج/ 1 ص / 198

26ـ  سيرہ حلبيہ ج / 1 ص/ 140

27ـ طبري ج / 3 ص / 36

28ـمناقب آل ابيطالب ج / 1 ص / 206 ، الصحيح من سيرة النبي الاعظم ج / 2 ص / 122

29ـمناقب آل ابيطالب ج / 1 ص / 26

30ـ  الاصابہ ج / 1 ص / 293

31ـ الاصابہ ج / 4ص /335 ، اسد الغابہ ج / 5 ص / 481 ، حياة النبي ج /1 ص / 121

32ـ  الصحيح من سيرة النبي الاعظم ج/ 2 ص 125

33ـ الانساب الاشراف ج / 2 ص / 23 ، الاصابہ ج / 8 ص /99 ، سيرة ھشام ج / 1 ص / 277، طبري ج/ 2 ص / 232 ـ 221

34ـ تاريخ طبري ج / 2 ص / 232

35ـبحار الانوار ج / 16 ص / 12 ، اسد الگابہ ج / 2 ص / 439

36ـ نھج البلاغہ ( خطبہ قاصعہ )

37ـ اسد الغابہ ج / 5 ص / 434

38ـ البدء و التاريخ ج / 2 ص / 48 ، اسد الغابہ ج/ 5 ص / 360

39ـ الاصابہ ج / 8 ص /101 ، اسد الغابہ ج/ 5 ص / 431 ، سنن ترمذي کتاب مناقب / 3886ـ