• صارفین کی تعداد :
  • 3215
  • 2/17/2008
  • تاريخ :

پاکستان ایٹمی اثاثے، مغرب کی تشویش 

ڈاکٹر عبد القدیر خان

یہ محسوس ہوتا ہے کہ لوگ ابھی بھی پاکستان کو نیوکلیائی پاور سمجھنے کو تیار نہیں: نعیم سالک

 

پاکستان کا سیاسی بحران کئی سوالات  اٹھاتا  ہے جن میں کیا  یہ ریاست  ٹوٹ سکتی  ہے، کیا انتہا پسند غالب ہو جائیں گے، کیا ملک کے ایٹمی اثاثے غلط لوگوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں ۔

پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے بارے میں مغرب میں تشویش پائی جاتی ہے۔ یہ موضوع امریکی  صدارتی انتخابات  میں بھی زیر بحث ہے ۔ صدارتی امیدوار ہلری کلنٹن  کا کہنا  ہے کہ پاکستان کو اپنے ایٹمی اثاثوں کا تحفظ  امریکہ  کے ساتھ مل کر کرنا چاہئے۔

لیکن کیا یہ تشویش جائز ہے یا میڈیا کی  اچھالی ہوئی ہے؟

پاکستان کی  نیشنل اور کمانڈ اتھارٹی  کے ساتھ منسلک رہنے والے بریگیڈیر ریٹائرڈ نعیم سالک  کا کہنا ہے کہ یہ تشویش بےاعتمادی زیادہ ہے اور خطرہ کم ۔  یہ محسوس ہوتا ہے کہ لوگ  ابھی بھی پاکستان کو  نیوکلیائی پاور سمجھنے کو تیار نہیں۔

لیکن دوسروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کی ایٹمی تاریخ  نے اس تشویش کو بڑھاوا  دیا ہے۔

ستمبر گیارہ کے بعد امریکہ میں  انتہا پسندوں کے ہاتھ ایٹمی ہتھیار لگنے کی تشویش ہے۔  اس خطرے میں مزید اضافہ ہوا جب پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے منسلک دو عہدیداروں نے افغانستان میں اسامہ بن لادن سے ملاقات کی۔

اس تشویش میں اور اضافہ ہوا جب پاکستان کے ایٹمی پروگرام  کے بانی  ڈاکٹر عبد القدیر خان  کے بارے میں دو ہزار چار میں انکشاف ہوا کہ انہوں نے خفیہ ایٹمی معلومات ایران، لیبیا اور شمالی کوریا کو بیچیں۔

 

میزائل پاکستان

ایٹمی پروگرام کے بانی ڈاکٹر قدیر پر الزام ہے کہ انہوں نے ایٹمی معلومات دوسرے ملکوں کو بیچی ہیں

لیکن حالیہ بدامنی نے سب سے زیادہ تحفظات کو جنم دیا ہے۔

تین دہائیوں سے پاکستان پر کام کرنے والے امریکی سی آئی اے کے اہلکار بروس ریڈل کا کہنا ہے ’ایک ممکنہ صورتحال یہ ہے کہ القاعدہ سے تعلق رکھنے والے عناصر پاک فوج میں جگہ بنا لیں اور  ایک یا دو بم  چوری کر لیں۔‘

لیکن دیگر مبصرین اس سے اتفاق نہیں کرتے اور اس کی بڑی وجہ پاکستان کی طرف سے ایٹمی اثاثوں کے تحفظ کے لیے کیے گئے اقدامات  ہیں ۔

پاکستان کیے گئے کچھ اقدامات کو منظر عام پر لایا ہے۔ ان میں ایٹمی بموں کے مختلف حصوں کو مختلف جگہوں پر رکھنا ہے، ان جگہوں کو خفیہ رکھا گیا ہے اور یہ بم صرف خفیہ ہندسوں ہی سے استعمال کیے جا سکتے ہیں ۔

اس قسم کے خفیہ ہندسے امریکہ بھی استعمال کرتا ہے ۔

بریگیڈیر ریٹائرڈ نعیم سالک کا کہنا ہے ’اگر یہ ہتھیار کسی کے ہاتھ چڑھ بھی جاتے ہیں تو خفیہ ہندسوں کے بغیر استعمال نہیں کیے جا سکتے ۔  اس کے علاوہ یہ خفیہ ہندسوں کی دو افراد تصدیق کرتے ہیں۔‘

لیکن اگر انتہا پسند حکومت میں آجاتے ہیں یا  ریاست  ٹوٹ جاتی ہے تو امریکہ کیا کر سکتا ہے ۔

بروکنگ انسٹیٹیوٹ کے مائک کا کہنا ہے کہ امریکہ صرف  اس وقت  ایٹمی اثاثوں کا کنٹرول حاصل کرسکتا ہے اگر بچی ہوئی ریاست کی منظوری ہو ۔

بروس ریڈل کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں کوئی بھی اچھی آپشن موجود نہیں ہے ۔ ’اگر ایٹمی بم چوری بھی ہو جاتے ہیں تو ہم کو بہت دیر میں معلوم ہو گا ۔‘

 

گارڈن کوریرا

بی بی سی نیوز