• صارفین کی تعداد :
  • 2431
  • 2/9/2008
  • تاريخ :

 مسجد کبود

مسجد جہانشاہ یا مسجد کبود ( گوی مسجد ) ابو مظفر جہانشاہ بن قرایوسف کے آثار میں سے ہے جس کا تعلق قراقویونلو کے ترکمانوں سے ہے اس کی تعمیرکا سلسلہ جہان شاہ بن قرا یوسف قراقویونلو کی بیوی جان بیگم خاتون کی کوشش اور نگرانی میں پایہ تکمیل تک پہنچا ہے

 

تاریخی کتب میں اس عمارت کو ( مظفریہ عمارت ) کے نام سے یاد کیا گیا ہے جو ابوالمظفر یعقوب بہادر خان کی خاص توجہ کا مرکز قرارپائی اس دور میں تبریز میں ترقی کی کافی چہل پہل او رونق تھی

 

گیارہویں صدی ہجری کے اوائل میں ترک عثمانی سیاحوں کاتب چلبی اور اولیا چلبی اور اسی صدی کے اواخر میں فرانسیسی سیاحوں تارونیہ اور شاردن نے اس مسجد کا قریب سے مشاہدہ کیا تھا کاتب چلبی جہان نما تاریخ میں تحریر کرتے ہیں کہ مسجد جہانشاہ کی درگاہ طاق کسری سے بہت بلند وبالا ہے یہ عمارت بڑی عالیشان ہے جس کو خوبصورت انداز میں تعمیر کیا گیا ہے اس کے گنبد بہت اونچے ہیں یہ ایک پرکشش مسجد ہےجو اس کے اندر داخل ہوگیا پھراس کا دل اس سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دیتا ہے

 

فرانسیسی سیاح میڈم ڈیولافوا  لکھتی ہیں:

تبریز میں زیادہ قدیمی عمارتیں نہیں ہیں لیکن جو کچھ باقی بچا ہے وہ قابل توجہ ہے اور مسجد کبود اس کا بہترین نمونہ ہے جس کو جہانشاہ قراقویونلو نے پندرہویں صدی عیسوی میں تعمیر کیا ہے لیکن افسوس ہے کہ زلزلے کی وجہ سے اس کا شاندار گنبد خراب ہوگیا ہے اور دیواروں کا بعض حصہ بھی گر گیا ہے صحن کے دروازے اور مسجد کبود سے ملحقہ عمارات، دبستان جہانشاہ اور آذر بائیجان میوزیم کی تعمیر 1337 میں ہوئی اور اس وقت یہ تبریز کے تاریخی اور ثقافتی مراکز میں شامل ہیں جو دیکھنے کے لائق ہیں آذربائجان کے میوزیم کا سب سے اہم حصہ مشروطیت میوزیم کا حصہ ہے

 

 

مسجد کبود
مسجد کبود
مسجد کبود
مسجد کبود
مسجد کبود
مسجد کبود
مسجد کبود
مسجد کبود
مسجد کبود
مسجد کبود
مسجد کبود
مسجد کبود
مسجد کبود
مسجد کبود
مسجد کبود
مسجد کبود
مسجد کبود
مسجد کبود
مسجد کبود
مسجد کبود
مسجد کبود
مسجد کبود