• صارفین کی تعداد :
  • 3820
  • 1/30/2008
  • تاريخ :

خاندان ميں عورت کا حق

 

گل لاله

اس سلسلے ميں بہت زيادہ روايات نقل کي گئي ہيں۔پيغمبر اکرم۰ سے کسي نے سوال کيا: ’’من عبر؟‘‘ (ميں کس سے نيکي کروں)۔ آپ۰ نے جواب ميں فرمايا ’’اُمَّکَ‘‘۔ يعني اپني ماں سے۔ آپ۰ نے اس کے دوسرے سوال کے جواب ميں بھي يہ فرمايا اوراس کے تيسرے سوال کا يہي جواب ديا ليکن چوتھي مرتبہ جواب ميں فرمايا ’’اَبَاکَ‘‘ (اپنے باپ سے نيکي کرو)۔ پس خاندان کي چار ديواري ميں عورت کا اولاد پر حق بہت سنگين ہے۔ البتہ اِس وجہ سے نہيں ہے کہ خداوند عالم يہ چاہتا ہے کہ ايک طبقے کو اکثريت پر ترجيح دے بلکہ يہ اِس جہت سے ہے کہ خواتين زيادہ زحمتيں برداشت کرتي ہيں۔

 

يہ بھي عدل الٰہي ہے کہ خواتين کي زحمتيں زيادہ ہيں تو اُن کا حق بھي زيادہ ہے اور خواتين زيادہ مشکلات کا سامنا کرتي ہيں لہٰذا اُن کي قدر و قيمت بھي زيادہ ہے۔ يہ سب عدالتِ الٰہي کي وجہ سے ہے۔ مالي مسائل ميںمثلاً خاندان اور اُس کي سرپرستي کا حق اوراُس کے مقابل خاندان کو چلانے کي ذمہ داري ميں اسلامي روش ايک متوازن متعادل روش ہے۔ اسلامي قانون نے اِس بارے ميں اتني سي بھي اجازت نہيں دي ہے کہ مرد يا عورت پر

 سورئہ نحل / ٩٧

 

ذرہ برابر ظلم ہو۔ اسلام نے مرد وعورت دونوں کا حق الگ الگ بيان کياہے اور اُس نے مرد کے پلڑے ميں ايک وزن اور عورت کے پلڑے ميں دوسرا وزن رکھا ہے۔ اگر اِن موارد ميں اہل فکر توجہ کريں تو وہ ان چيزوں کو ملاحظہ کريں گے۔ يہ وہ چيزيں ہيں کہ جنہيں کتابوں ميں بھي لکھا گيا ہے۔ آج ہماري فاضل اور مفکر خواتين الحمدللہ ان تمام مسائل کو دوسروں اور مردوں سے بہتر طور پر جانتي ہيں اوران کي تبليغ بھي کرتي ہيں۔يہ تھا مرد و عورت کے حقوق کا بيان۔

( رہبر معظم کے بیانات کااقتباس )