خواتين مرد کے شانہ بشانہ بلکہ اُن سے بھي آگے
اسلام نے اُن مردوں کو جو اپنے قدرت مند جسم يا مالي توانائي کي وجہ سے مردوں اور خواتين کو اپنا نوکر بناتے ، اُن سے خدمت ليتے اور خواتين کو اذيت وآزار اور کبھي کبھي تحقير کا نشانہ بناتے تھے، مکمل طور پر خاموش کرديا ہے اور خواتين کو اُن کے حقيقي اور مناسب مقام تک پہنچايا ہے بلکہ خواتين کو بعض جہات سے مردوں کے شانہ بشانہ لاکھڑا کيا ہے۔ ’’اِنَّ المُومِنِينَ وَالمُومِنَاتِ وَالمُسلِمِينَ والمُسلِماتِ?‘‘ (قرآن بيان کررہا ہے کہ ) مسلمان مرد اورمسلمان عورت، عابد مرد اور عابدعورت اور نماز شب پڑنے والا مرد اور نماز شب ادا کرنے والي عورت ۔
پس اسلام نے انساني درجات اور روحاني مقامات کو مرد وعورت کے دميان برابر برابر تقسيم کيا ہے۔ (يعني ان مقامات تک رسائي ان دونوں ميں سے کسي ايک سے مخصوص نہيں ہے بلکہ دونوں ميں سے کوئي بھي يہ مقام حاصل کرسکتا ہے)۔ اس زاويے سے مرد وعورت ايک دوسرے کے مساوي اور برابر ہيں۔ جو بھي خدا کيلئے نيک عمل انجام دے گا ’’مِن ذَکَرٍ اَو اُنثيٰ‘‘، خواہ مرد ہو يا عورت، ’’فَلَنُحيِيَنَّہُ حَيَاۃً طَيِّبَۃً‘‘ ١ ، ہم اُسے حيات طيبہ عطا کريں گے۔
اسلام نے کچھ مقامات پر عورت کو مرد پر ترجيح دي ہے۔ مثلاً جہاں مرد و عورت ،ماں وباپ کي صورت ميں صاحب اولاد ہيں۔ اُن کي يہ اولاد اگرچہ کہ دونوں کي مشترکہ اولاد ہے ليکن اولاد کي اپني ماں کيلئے خدمت و ذمے داري باپ کي بہ نسبت زيادہ اور لازمي ہے۔ اولاد پر ماں کا حق باپ کي بہ نسبت زيادہ ہے اورماں کي نسبت اولاد کا وظيفہ بھي سنگين ہے۔
( رہبر معظم کے بیانات کااقتباس )