ولادت و رضاعت
شادی کے بعد جو بچہ متولد ہووہ انہی ماں باپ کا ہو گا خدانخواستہ زناکاشائبہ ہو تب بھی بچہ باپ کا ہی سمجھاجائے گا ۔ان امھاتھم الّا لایٴ ولدنھمان کی مائیں وہی ہیں جنہوں نے انہیں جنا ہے اور باپ وہی ہے جو شوہر ہے الولد للفراش ولد ماھر الحجر بچہ شوہر کاہوتا ہے زانی کے لئے پتھراوٴ کی سزا ہے ۔ استقرار نطفہ کے بعد سقط کرانا ناجائز او ر حرام ہے۔سقط کرانا قتل سمجھا جائے گا۔ ارشاد رب العزت ہے: وَلَا تَقْتُلُوْا أَوْلَادَکُمْ خَشْیَةَ إِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُہُمْ وَإِیَّاکُمْ إِنَّ قَتْلَہُمْ کَانَ خِطْئًا کَبِیْرًا او رتم اپنی اولاد کو تنگ دستی کے خوف سے قتل نہ کرو ہم انہیں رزق دیں گے او رتم کو بھی ان کا قتل یقینا بہت بڑا گناہ ہے ۔ ( سورہ بنی اسرائیل: ۳۱) عورت بیما رہو معاملہ دائر ہو بچہ بچ جائے یا بچے کی ماں سقط نہ کرانے کی صورت میں ماں کی زندگی کو خطرہ ہے توسقط میں حرج نہیں ارشاد رب العزت ہے لَاتُضَارَّ وَالِدَةٌ م بِوَلَدِہَا وَلَامَوْلُوْدٌ لَّہ بِوَلَدِہ ۔ ماں کو بچہ کی وجہ سے تکلیف میں نہ ڈالا جائے او ر نہ باپ کو اس بچہ کی وجہ سے ضرر پہنچایا جائے ( سورہ بقرہ :۲۳۳) خرچ اخراجات کے معاملہ میں بھی او رزندگی کے معاملہ میں بھی ۔شادی کے چھ ماہ بعد بچہ پیدا ہو توباپ ہی کا ہو گا کسی او ر کا نہیں ! ارشادِ رب العزت ہے : وَوَصَّیْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ إِحْسَانًا حَمَلَتْہُ أُمُّہ کُرْہًا وَّوَضَعَتْہُ کُرْہًا وَحَمْلُہ وَفِصَالُہ ثَلاَثُوْنَ شَہْرًا ۔ ہم نے انسان کو اپنے ما ں باپ پر احسان کرنے کا حکم دیا اسکی ما ں نے تکلیف سہ کراسے پیٹ میں اٹھائے رکھا او رتکلیف اٹھا کر اسے جنا اور اسکے حمل او ردودھ چھڑانے میں تیس ماہ لگ جاتے ہیں دودھ پلانا دوسال حمل چھ ماہ ہو جائیں گے۔ ۳۰ ماہ رضاعت دودھ پلائے۔( سورہ احقاف : ۱۵) بچہ کا حق ہے کہ اسے دو سال دودھ پلایا جائے ۔ ارشاد رب العزت ہے : وَالْوَالِدَاتُ یُرْضِعْنَ أَوْلَادَہُنَّ حَوْلَیْنِ کَامِلَیْنِ لِمَنْ أَرَادَ أَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَةَ وَعَلَی الْمَوْلُوْدِ لَہ رِزْقُہُنَّ وَکِسْوَتُہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ لاَتُکَلَّفُ نَفْسٌ إِلاَّ وُسْعَہَا لَاتُضَارَّ وَالِدَةٌم بِوَلَدِہَا وَلَامَوْلُودٌ لَہ بِوَلَدِہ وَعَلَی الْوَارِثِ مِثْلُ ذٰلِکَ فَإِنْ أَرَادَا فِصَالًا عَنْ تَرَاضٍ مِّنْہُمَا وَتَشَاوُرٍ فَلَاجُنَاحَ عَلَیْہِمَا وَإِنْ أَرَدْتُّمْ أَنْ تَسْتَرْضِعُوْا أَوْلَادَکُمْ فَلَاجُنَاحَ عَلَیْکُمْ إِذَا سَلَّمْتُمْ مَّا آتَیْتُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَاتَّقُوا اللہ وَاعْلَمُوْا أَنَّ اللہ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ ۔ او رمائیں اپنے بچوں کو پو رے دوسال دودھ پلائیں ( یہ حکم )ان لوگوں کے لئے ہے جو پوری مدت دودھ پلوانا چاہتے ہیں او ر بچے والے کے ذمے دودھ پلانے والی ماؤں کی روٹی کپڑا معمول کے مطابق ہو گا کسی پر اسکی گنجائش سے زیادہ بوجھ نہ ڈالا جائے نہ ماں کو بچہ کی وجہ سے تکلیف میں ڈالا جائے او رنہ باپ کو اس بچہ کی وجہ سے کوئی ضرر پہنچایا جائے اور اس طرح کی ذمہ داری وارث پر بھی ہے ۔ پھر اگر طرفین باہمی رضا مندی او رمشورے سے بچے کا دودھ چھڑانا چاہتے ہیں تو کوئی مضائقہ نہیں ۔ نیز اگر تم اپنی اولاد کو ( کسی اور سے ) دودھ پلوانا چاہوتوتم پر کوئی مضائقہ نہیں بشرطیکہ تم عورتوں کو معمول کے مطابق طے شدہ معاوضہ ادا کرو او راللہ کا خوف کرواو رجان لو کہ تمہارے اعمال پر اللہ کی خوب نظر ہے ۔ ( سورہ بقرہ :۲۳۳) کسی عورت سے دودھ پلوایا جائے تووہ رضا عی ماں کہلوائے گی ۔ ارشادِ رب العزت ہے: وَأُمَّہَاتُکُمُ اللاَّ تِیْ أَرْضَعْنَکُمْ وَأَخْوَاتُکُمْ مِنَ الرَّضَاعَةِ ۔ او روہ مائیں جو تمہیں دودھ پلوا چکی ہیں اور تمہاری دودھ شریک بہنیں۔ ( سورہ نساء :۲۳) رضاعی ماں ، ماں ہے اور رضاعت کا سلسلہ خاندان میں جاری رہے گا۔ دودھ پلانے کے لیے اجرت بھی دینی چاہیے ارشاد رب العزت ہے : فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَکُمْ فَآتُوْہُنَّ أُجُوْرَہُنَّ ۔ اگر وہ تمہارے کہنے پردودھ پلائیں تو انہیں اس کی اجرت دے دیا کرو۔ (سورہ طلاق : ۶) خواہ چپقلش کے بعد ما ں دودھ پلا رہی ہو او راجرت کی طلبگا رہو یا او رکو ئی عورت دودھ پلا نے والی ہو ۔ماں کی طرح دودھ پلانے والی بھی (رضاعی ) ماں کہلائے گی۔