• صارفین کی تعداد :
  • 3759
  • 1/30/2008
  • تاريخ :

قرآن مجید میں بعض عورتوں کا تذکرہ

 

کودک

ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام کی زوجہ محترمہ،ام البشر جناب حوا ، آدم علیہ السلام کی(تخلیق سے) بچی ہوئی مٹی سے پیدا ہوئیں۔جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے: وَخَلَقَ مِنْھَا زَوْجُھَا ۔ اوراس کا جوڑا اسی کی جنس سے پیدا کیا۔ (نساء:۱) وَمِنْ آیَاتِہ أَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ أَنفُسِکُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْکُنُوْا إِلَیْہَا ۔ اس کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ اس نے تمہارا جوڑا تمہیں سے پیدا کیا تاکہ تمہیں اس سے سکون حاصل ہو۔ (روم:۲۱) وَاللہ جَعَلَ لَکُمْ مِّنْ أَنفُسِکُمْ أَزْوَاجًا۔ اللہ نے تمہارے لئے تمہاری جنس سے بیویاں بنائیں۔ (نحل:۷۲) تمہاری ہی مٹی سے پیدا ہونے والی عورت تمہاری طرح کی انسان ہے، جب ماں باپ ایک ہیں تو پھر خیالی اور وہمی امتیاز و افتخار کیوں؟ اکثر آیات میں آدم اور حوا اکٹھے مذکور ہوئے ہیں ،پریشانی کے اسباب کے تذکرہ میں بھی دونوں کا ذکر باہم ہوا ہے۔دو آیات میں صرف آدم کا ذکر کر کے واضح کیا گیا ہے کہ اے انسان کسی معاملہ میں حوا کو مورد الزام نہ ٹھہرانا ،وہ تو شریک سفر اور شریک زوج تھی۔ وَلَقَدْ عَہِدْنَا إِلٰی آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِیَ وَلَمْ نَجِدْ لَہ عَزْمًا ۔ اور ہم نے پہلے ہی آدم سے عہد لے لیا تھا لیکن وہ اس میں پر عزم نہ رہے۔ (طہ:۱۱۵) قَالَ یَاآدَمُ ہَلْ أَدُلُّکَ عَلٰی شَجَرَةِ الْخُلْدِ وَمُلْکٍ لَّا یَبْلٰی ۔ ابلیس نے کہا اے آدم! کیا میں تمہیں اس ہمیشگی کے درخت اور لازوال سلطنت کے بارے میں نہ بتاؤں۔ (طہٰ:۱۲۵) آپ لوگوں نے ملاحظہ کیا کہ ان آیات میں حضرت حوا شریک نہیں ہیں اور تمام امور کی نسبت حضرت آدم ہی کی طرف ہے۔ (۲)زوجہ حضرت نوح علیہ السلام حضرت نوح علیہ السلام پہلے نبی ہیں جو شریعت لے کر آئے جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے: شَرَعَ لَکُمْ مِّنْ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہ نُوْحًا وَّالَّذِیْ أَوْحَیْنَا إِلَیْکَ۔ اللہ نے تمہارے دین کا دستور معین کیا جس کا نوح کو حکم دیا گیا اور جس کی آپ کی طرف وحی کی ۔(شوریٰ :۱۳) حضرت نوح علیہ السلام نے ۹۵۰سال تبلیغ کی ۔ارشاد رب العزت ہے: وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوْحًا إِلٰی قَوْمِہ فَلَبِثَ فِیْہِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلاَّ خَمْسِیْنَ عَامًا بتحقیق ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا وہ ان کے درمیان ۵۰سال کم ایک ہزار سال رہے۔ (عنکبوت:۱۴) حضرت نوح کو کشتی بنانے کا حکم ہوا ۔ وَاصْنَع الْفُلْکَ بِأَعْیُنِنَا وَوَحْیِنَا ۔ اور ہماری نگرانی میں اور ہمارے حکم سے کشتی بنائیں اور حکم ہوا کہ اللہ کے حکم سے کشتی کو بناؤ۔(ہود:۳۷) وَقَالَ ارْکَبُوْا فِیْہَا بِاِسْمِ اللہ مَجْرَاًہَا وَمُرْسَاہَاط إِنَّ رَبِّیْ لَغَفُوْرٌ رَحِیْمٌ وَہِیَ تَجْرِیْ بِہِمْ فِیْ مَوْجٍ کَالْجِبَالِ ۔ اور نوح نے کہا کہ کشتی میں سوار ہو جاوٴ اللہ کے نام سے اس کا چلنا اور ٹھہرنا ہے بتحقیق میرا رب بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے اور کشتی انہیں لے کر پہاڑ جیسی موجوں میں چلنے لگی ۔ (ہود:۴۲۔۴۱) حضرت نوح نے اپنے بیٹے سے کشتی میں سوار ہونے کیلئے کہا اس نے (اور زوجہ نوح نے ) انکار کیا اور کہا میں پہاڑ پر چڑھ جاوٴں گا اور محفوظ رہوں گا۔جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے: یَابُنَیَّ ارْکَبْ مَّعَنَا وَلاَتَکُنْ مَّعَ الْکَافِرِیْنَ قَالَ سَآوِیْ إِلٰی جَبَلٍ یَّعْصِمُنِیْ مِنَ الْمَاءِ ط قَالَ لَاعَاصِمَ الْیَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللہ إِلاَّ مَنْ رَّحِمَ وَحَالَ بَیْنَہُمَا الْمَوْجُ فَکَانَ مِنَ الْمُغْرَقِیْنَ۔ نوح نے اپنے بیٹے سے کہا ہمارے ساتھ سوار ہو جاؤ اور کافروں کے ساتھ نہ رہو اس نے کہا میں پہاڑ کی پناہ لوں گا وہ مجھے پانی سے بچالے گا ۔ نوح ۔ نے کہا آج اللہ کے عذاب سے بچانے والا کوئی نہیں مگر جس پر اللہ رحم کرے پھر دونوں کے درمیان موج حائل ہو گئی اور وہ ڈوبنے والوں میں سے ہو گیا ۔ (ہود:۴۳۔۴۲) اور کشتی کوہ جودی پر پہنچ کر ٹہر گئی ۔جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے:وَقِیْلَ یَاأَرْضُ ابْلَعِیْ مَائَکِ وَیَاسَمَاءُ أَقْلِعِیْ وَغِیْضَ الْمَاءُ وَقُضِیَ الْأَمْرُ وَاسْتَوَتْ عَلَی الْجُوْدِیِّ وَقِیْلَ بُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظَّالِمِیْنَ ۔ اور کہا گیا اے زمین اپنا پانی نگل لے اور اے آسمان تھم جا ۔ اور پانی خشک کر ہو گیا اور کام تمام ہوگیا اور کشتی کوہ جودی پر ٹھہر گئی اور ظالموں پر نفرین ہو گئی ۔ (ہود :۴۴) کشتی ہی بچاؤ کا واحد کا ذریعہ تھی۔ قرآن مجید نے حضرت نوح ۔کی زوجہ کو خیانت کار قرا دیا ہے نبی کی بیوی ہونے کے با وجود جہنم کی مستحق بن گئی ۔ ارشاد رب العزت ہے : ضَرَبَ اللہ مَثَلاً لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوا امْرَأَةَ نُوْحٍ وَّامْرَأَةَ لُوْطٍ کَانَتَا تَحْتَ عَبْدَیْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَیْنِ فَخَانَتَاہُمَا فَلَمْ یُغْنِیَا عَنْہُمَا مِنَ اللہ شَیْئًا وَّقِیْلَ ادْخُلاَالنَّارَ مَعَ الدَّاخِلِیْنَ خدا نے کفر اختیا رکرنے والوں کیلئے زوجہ نوح اور زوجہ لوط کی مثال دی ہے یہ دونوں ہمارے نیک بندوں کی زوجیت میں تھیں لیکن ان سے خیانت کی تو اس زوجیت نے خدا کی بارگاہ ان کو میں کوئی فائدہ نہ پہنچایا اور ان کیلئے کہہ دیا گیا کہ جہنم میں داخل ہونے والوں کے ساتھ تم دونوں بھی داخل ہو جاؤ۔(تحریم :۱۰) اپنا عمل ہی کامیابی کا ضامن ہے رشتہ داری حتی نبی کا بیٹا ہونا کچھ بھی فائدہ نہیں دے گا ۔ (۳)زوجہ حضرت لوط حضرت لوط ،حضرت ابراہیم کے بھتیجے تھے ان کی قوم سب کے سامنے کھلم کھلا برائی میں مشغول رہتی ۔ لواطت ان کا محبوب مشغلہ تھا ۔ پتھروں کی بارش سے انہیں تباہ کر دیا گیا ۔حضرت لوط۔کی زوجہ بھی تباہ ہونے والوں میں سے تھی جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے : وَلُوْطًا إِذْ قَالَ لِقَوْمِہ أَتَأْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ وَأَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ أَئِنَّکُمْ لَتَأْ تُوْنَ الرِّجَالَ شَہْوَةً مِّنْ دُونِ النِّسَاءِ بَلْ أَنْتُمْ قَوْمٌ تَجْہَلُوْنَ فَمَا کَانَ جَوَابَ قَوْمِہ إِلاَّ أَنْ قَالُوْا أَخْرِجُوْا آلَ لُوْطٍ مِّنْ قَرْیَتِکُمْ إِنَّہُمْ أُنَاسٌ یَّتَطَہَّرُوْنَ فَأَنْجَیْنَاہُ وَأَہْلَہ إِلاَّ امْرَأَتَہ قَدَّرْنَاہَا مِنَ الْغَابِرِیْنَ وَأَمْطَرْنَا عَلَیْہِمْ مَّطَرًا فَسَاءَ مَطَرُ الْمُنْذَرِیْنَ اور لوط کو یاد کرو جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا تم آنکھیں رکھتے ہوئے بدکاری کا ارتکاب کر رہے ہو کیا تم لوگ شہوت کی وجہ سے مردوں سے تعلق پیدا کر رہے ہو اور عورتوں کو چھوڑے جا رہے ہو در حقیقت تم بالکل جاہل لوگ ہو ۔ تو ان کی قوم کا کوئی جواب نہ تھا سوائے اس کے کہ لوط کے خاندان کو اپنی بستی سے باہر نکال دو کہ یہ لوگ بہت پاک باز بن رہے ہیں تو لوط اور ان کے خاندان والوں کو بھی (زوجہ کے علاوہ) نجات دے دی اس (زوجہ) کو ہم نے پیچھے رہ جانے والوں میں قرار دیا تھا اور ہم نے ان پر عجیب قسم کی بارش کر دی کہ جس سے ان لوگوں کو ڈرایا گیاتھا ان پر(پتھروں) کی بارش بہت بری طرح برسی ۔ (نمل، ۵۴ تا ۵۵) حضرت لوط کی زوجہ خیانت کار نکلی اور عذاب میں مبتلا ہوئی جیسا کہ حضرت نوح ۔کی زوجہ کا حا ل ہوا جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے ۔ ضَرَبَ اللہ مَثَلاً لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوا امْرَأَةَ نُوْحٍ وَّاِمْرَأَةَ لُوْطٍ خدا نے کفر اختیا رکرنے والوں کیلئے زوجہ نوح اور زوجہ لوط کی مثال دی ہے۔ (تحریم :۱۰) زوجہ نوح کی طرح زوجہ لوط بھی ہلاک ہو گئی ۔ (۴)زوجہ حضرت ابراہیم - حضرت ابراہیم خلیل اللہ عظیم شخصیت کے مالک ہیں انہیں جد ّالانبیاء سے تعبیر کیا گیا ہے اورتمام ادیان ان کی عظمت پر متفق ہیں۔ حضرت ابراہیم کی قوم بت پرست تھی دلائل و براہین کے ساتھ انہیں سمجھایا پھر ان کے بتوں کو توڑا توبت شکن کہلائے ۔ ان کو آگ میں ڈالا گیا تو وہ گلزار بن گئی۔ خواب کی بنا پربیٹے کو ذبح کرنا چاہا تو اس کا فدیہ ذبح عظیم فدیہ کہلایا ۔ ابراہیم خانہ کعبہ کی تعمیرکی اور مکہ کی سر زمین کو آباد کیا ۔ ہمارا دین ،دین ابراہیم سے موسوم ہوا ۔ ان کی بت شکنی کے متعلق ارشاد رب العزت ہو رہا ہے : وَتَاللہ لَأَکِیْدَنَّ أَصْنَامَکُمْ بَعْدَ أَنْ تُوَلُّوْا مُدْبِرِینَ فَجَعَلَہُمْ جُذَاذًا إِلاَّ کَبِیْرًا لَّہُمْ لَعَلَّہُمْ إِلَیْہِ یَرْجِعُوْنَ قَالُوْا أَنْتَ فَعَلْتَ ہَذَا بِآلِہَتِنَا یَاإِبْرَاہِیْمُ قَالَ بَلْ فَعَلَہ کَبِیْرُہُمْ ہَذَا فَاسْأَلُوْہُمْ إِنْ کَانُوْا یَنْطِقُوْنَ ۔ فَرَجَعُوْا إِلٰی أَنْفُسِہِمْ فَقَالُوْا إِنَّکُمْ أَنْتُمُ الظَّالِمُوُنَ ثُمَّ نُکِسُوْا عَلٰی رُئُوْسِہِمْ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا ہٰؤُلَاءِ یَنْطِقُوْنَ۔ اور اللہ کی قسم جب تم پیٹھ پھیر کر چلے جاؤ گے تو میں تمہارے ان بتوں کی خبر لینے کی ضرور تدبیرسوچوں گا چنانچہ حضرت ابراہیم نے ان بتوں کو ریزہ ریزہ کر دیا سوائے ان کے بڑے (بت ) کے تاکہ وہ اس کی طرف رجوع کریں ۔ (انبیاء ۵۷ں۵۸) کہا اے ابراہیم !کیاہمارے ان بتوں کا یہ حال تم نے کیا ہے؟ ابراہیم نے کہا بلکہ ان کے اس بڑے (بت) نے ایسا کیا ہے تم ان سے پوچھ لو اگر یہ بولتے ہیں ( یہ سن کر) وہ ضمیر کی طرف پلٹے او ر دل ہی دل میں کہنے لگے حقیقتاً تم خود ہی ظالم ہو پھر انہوں نے اپنے سروں کو جھکا دیا اور (ابراہیم سے) کہا تم جانتے ہو کہ یہ نہیں بولتے ۔ (انبیاء۔۶۲تا۶۵) نمردو کے حکم سے اتنیآگ روشن کی گئی کہ اس کے اوپر سے پرندہ نہیں گزر سکتا تھا۔پھر ابراہیم کو گوپھن میں رکھ کرآگ میں ڈال دیاگیا۔ مزید ارشاد فرمایا: قَالُوْا حَرِّقُوْہُ وَانْصُرُوْا آلِہَتَکُمْ إِنْ کُنْتُمْ فَاعِلِیْنَ قُلْنَا یَانَارُ کُوْنِیْ بَرْدًا وَّسَلَامًا عَلٰی إِبْرَاہِیْمَ ۔ وہ کہنے لگے اگر تم کو کچھ کر نا ہے تو اسے جلا دو اور اپنے خداوٴں کی نصرت کرو ۔ہم نے کہا اے آگ تو ٹھنڈی ہو جا اور ابراہیم کیلئے سلامتی بن جا ۔ (انبیاء :68-69) ابراہیم و نمرود کا مباحثہ أَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِیْ حَاجَّ إِبْرَاہِیْمَ فِیْ رَبِّہ أَنْ آتَاہُ اللہ الْمُلْکَ إِذْ قَالَ إِبْرَاہِیْمُ رَبِّی الَّذِیْ یُحْیِی وَیُمِیْتُ قَالَ أَنَا أُحْیی وَأُمِیْتُ قَالَ إِبْرَاہِیْمُ فَإِنَّ اللہ یَأْتِیْ بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِہَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُہِتَ الَّذِیْ کَفَرَ وَاللہ لَایَہْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِیْنَ۔ کیا تم نے اس شخص کا حال نہیں دیکھا جس نے ابراہیم سے ان کے رب کے بارے میں اس بناء پر جھگڑا کیا کہ اللہ نے اسے اقتدار دے رکھا تھا جب ابراہیم نے کہا میرا رب وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور موت دیتا ہے تو اس نے کہا زندگی او رموت دینا میرے اختیار میں بھی ہے ابراہیم نے کہا اللہ تو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے تو اسے مغرب سے نکال کے دکھا! یہ سن کر وہ کافر مبہوت ہوکر رہ گیا اور اللہ ظالموں کی راہنمائی نہیں کرتا۔ (بقرہ:۲۵۸) حضرت ابراہیم اسماعیل اور ہاجرہ کو مکہ چھوڑ آئے تو ارشاد فرمایا : رَبَّنَا إِنِّی أَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ۔ اے ہمارے پروردگار! میں نے اپنی اولاد میں سے بعض کو تیرے محترم گھر کے نزدیک ایک بنجر وادی میں بسایاہے۔ (ابراہیم:۳۷) خواب کی وجہ سے اسماعیل کا ذبح ارشاد رب العزت ہے: قَالَ یَابُنَیَّ إِنِّیْ أَرٰی فِی الْمَنَامِ أَنِّیْ أَذْبَحُکَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرَی قَالَ یَاأَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِی إِنْ شَاءَ اللہ مِنَ الصَّابِرِیْنَ فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّہ لِلْجَبِیْنِ وَنَادَیْنَاہُ أَنْ یَّاإِبْرَاہِیْمُ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیَا إِنَّا کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ إِنَّ ہَذَا لَہُوَ الْبَلاَءُ الْمُبِیْنُ وَفَدَیْنَاہُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ۔ ابراہیم نے کہااے بیٹا !میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں پس دیکھ لو تمہاری کیا رائے ہے اسماعیل نے کہا اے ابا جان ! آپ کو جو حکم ملا ہے اسے انجام دیں اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبرکرنے والوں میں پائیں گے۔پس جب دونوں نے حکم خدا کو تسلیم کیا اور باپ نے بیٹے کو ماتھے کے بل لٹایا تو ہم نے ندا دی اے ابراہیم !تو نے خواب کو سچ کر دکھایاہے۔بیشک ہم نیکوکاروں کو ایسے ہی جزا دیتے ہیں ۔یقینا یہ بڑا سخت امتحان تھا۔ہم نے ایک عظیم قربانی سے اس کا فدیہ دیا۔