• صارفین کی تعداد :
  • 3468
  • 1/28/2008
  • تاريخ :

اسلام اور تسليم

 

عبادت

مشہور لغت داں، ابن منظور کے بقول اسلام اور تسليم يعني: اطاعت شعاري۔

اسلام، شرعي نقطہٴ نظر سے يعني: خضوع کے ساتھ شريعت کے قوانين کا اعتراف اور نبي اکرم کے لائے ہوئے احکام کا پابند ہوناہے اور انھيں امور کے سبب خون محترم اور خداوند تعاليٰ سے برائي ٹالنے کي التجا کي جاتي ہے اور ثعلب نے مفيد و مختصر طور پر کتني اچھي بات کہي ہے کہ: اسلام، زباني اقرار کا نام ہے اور ايمان دل سے اعتراف کا اسلام کے بارے ميں ابابکر محمد بن بشار نے کہا کہ اگر يہ کہا جائے کہ فلاں شخص مسلمان ہے تو اس سے دو بات سمجھ ميں آتي ہيں:

 ۱- وہ احکام الٰہيہ کا تابعدار ہے    ۲- عبادت خداوندي ميں مخلص ہے۔[1]

 

يہاں پر ہم دونوں کے درميان فرق پيدا کرسکتے ہيں جو کہ پہلي فرصت ميں آساني سے بيان نہيں کيا جاسکتا کيونکہ  ”استسلام لامر اللّٰہ“ (احکام الٰہيہ کي تابعداري) اور ”اخصلاص للعبادة“ (عبادت خداوندي ميں خلوص) کے درميان فرق ہے۔

 

پہلے معني کے رو سے اسلام اس حقيقت ايمان سے زيادہ وسيع دائرہ رکھتا ہے جو انسان کے پروردگار کے رابطہ کو مضبوط کرتا ہے کيونکہ حکم خدا کي تابعداري، اوامر و نواہي الٰہي کي مکمل پيروي پر مشتمل ہے اور حکم خداوندي پر اپني رائے کو مقدم نہ کرنا ہے۔

 

اسي کے پيش نظر مسلمان جو کچھ نبي اکرم لائے ہيں ان کے سامنے سر اطاعت خم کرديتاہے کيونکہ آپ خدا کي جانب سے آئے ہيں اور اس بات کا عقيدہ رکھتا ہے کہ رسول اکرم اپني طرف سے کوئي بات نہيں کہتے بلکہ آپ پر وحي کا نزول ہوتا ہے وہ چاہے احکامات شريعت ہوں يا عبادات کي ادائيگي، آپسي اختلافات ہوں يا نظرياتي چپقلش اور يہ سب خدا کے اس حکم کے پيش نظر ہے

<وَ مَا آتٰاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ وَ مَانَہَيٰاکُمْ عَنہُ فَانْتَہُوْا> [2]

<فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيءٍ فَرُدُّوہُ اِلَي اللّٰہِ وَ الرَّسُولِ اِنْ کُنتُم تُؤمِنُونَ بِاللّٰہِ وَ اليَومِ الآخِرِ>[3] <فَلا وَرَبِّکَ لايُؤمِنُونَ حَتَّي يُحَکِّمُوکَ فِيمَا شَجَرَ بَينَہُم ثُمَّ لايَجِدُوا فِي اٴَنفُسِہِم حَرَجاً مِمَّاقَضَيتَ وَ يُسَلِّمُوْا تَسْلِيماً>[4]

(اور جو کچھ بھي رسول تمہيں ديدے اسے لے لو، اور جس چيز سے منع کردے اس سے رک جاوٴ،پھر اگر آپس ميں کسي بات ميں اختلاف ہو جائے تو اسے خدا اور رسول کي طرف پلٹا دو، پس آپ کے پروردگار کي قسم کہ يہ ہرگز صاحب ايمان نہ بن سکيں گے جب تک آپ کو اپنے اختلاف ميں حکم نہ بنائيں اور پھر جب آپ فيصلہ کرديں تواپنے دل ميں کسي طرح کي تنگي کا احساس نہ کريں اور آپ کے فيصلہ کے سامنے سراپا تسليم ہو جائيں)

مذکورہ بيان سے يہ بات واضح ہوتي ہے کہ خداوند عالم نے اپنے بندوں سے جس اسلام کو چاہا ہے اس سے مراد کيا ہے؟ اور وہ ہے فرامين نبوت کي تمام معني ميں اطاعت،  چاہے يہ احکام عام انساني نظريات و آراء کے برخلاف ہي کيوں نہ ہوں، يا خود انسان يہ سوچے کہ مصلحت اس کي خلاف ورزي ميں ہے۔

لہٰذا خدا نے بتلاديا ہے کہ خدا و رسول کے آگے سر تسليم خم کرنا ان تمام مصلحتي تقاضوں پر مقدم ہے جو انسان کي اپني فکري يا بعض فکري بيمار سياست کي کوششوں کا نتيجہ ہوتا ہے اور يہ کہ اسلام کو خضوع و خشوع کا مرقع ہونا چاہئے اور ارادہٴ نبوي کا مطلق مطيع و فرمانبردار ہونا چاہئے کيونکہ آپ خدا کے رسول ہيں اور آپ کي اطاعت، استمرار اطاعت خداوندي ہے۔!

 

عبادت

 

ليکن دوسري اصطلاح کے مطابق عبادات الٰہيہ ميں اخلاص کا ہونا يعني مسائل شرعيہ ميں اخلاص پيدا کرنا ہے جو کہ اعضاء و جوارح سے متعلق ہيں جيسے نماز، روزہ، حج اور ان جيسے احکامات، اس کے مفہوم کا دائرہ پہلے معني کے بنسبت محدود ہے جو اوامر و نواہي نبوي سے متعلق ہے، اس لئے کہ احکام شرعيہ کي پابندي ميں لوگوں کي اکثريت شامل ہے اور وہ اس کو بجالانے ميں کوشاں ہيں۔

البتہ بسا اوقات کچھ لوگ کسي مشکل کي وجہ سے اس قانون کي تاب نہيں لاپائے يا کبھي کسي حکم کي نافرماني اس وجہ سے کر بيٹھتے ہيں کہ ان کي نظر ميں وہ حکم مصلحت کے برخلاف ہوتا ہے۔

قرآن کريم نے ان دونوں صورتوں کي بڑي حسين تقسيم کي ہے، پہلے کا نام ايمان، اور دوسرے کا نام اسلام رکھا ہے۔ باديہ نشينوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمايا:

<قَالَتِ الاٴعْرَابُ آمَنَّا قُلْ لَم تُوٴمِنُوْا وَ لٰکِنْ قُوْلُوْا اٴَسْلَمْنَا وَ لَمَّا يَدخُلِ الإيْمَانُ فِي قُلُوبِکُمْ>[5]

(يہ بدو عرب کہتے ہيں کہ ہم ايمان لے آئے ہيں تو آپ کہہ ديجئے کہ تم ايمان نہيں لائے بلکہ يہ کہو کہ اسلام لائيں ہيں کہ ابھي ايمان تمہارے دلوں ميں داخل نہيں ہوا ہے)

باديہ نشينوں نے احکام شرعيہ کي بجا آوري ميں سہل انگاري سے کام ليا تو ان کو تنبيہ کي کہ تمہاري يہ حرکتيں  ايمان کے (جوکہ اطاعت خدا و رسول کے معني ميں ہيں) بالکل منافي ہيں، (قرآن نے) ان

  کے موقف کا اظہار بھي کرديا، اور ان ميں سے بعض افراد کے غلط نظريات کو طشت از بام کرديا جنھوں نے غزوہٴ تبوک کے مسئلہ ميں حکم رسالت کي نافرماني کي تھي، خدا نے ان کي مذمت کي ہے، کيونکہ وہ لوگ يہ سمجھ رہے تھے کہ حکم رسالت کي نافرماني ہي ميں بھلائي اور مصلحت ہے وہ يہ گمان کر رہے تھے کہ اس حکم ميں وسعت اور اختيار ہے لہٰذا مخالفت کر بيٹھے۔

 

قرآن کريم نے ان کي سرزنش کي اور بعض اصحاب کي تنبيہ کي جنھوں نے علم بغاوت بلند کر رکھا تھا، اور قرآن کا لہجہ اس سلسلہ ميں بہت سخت تھا۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]لسان العرب، ج۱۲، ص ۲۹۳

[2] سورہٴ حشر، آيت۷

[3]سورہٴ نساء، آيت ۵۹

[4] سورہٴ نساء، آيت ۶۵

[5] سورہٴ حجرات، آيت۱۴