• صارفین کی تعداد :
  • 4470
  • 1/23/2008
  • تاريخ :

ايك بے نظير معجزہ(اس گھر كا ايك مالك ہے)

 

دریا

قابل توجہ بات يہ ہے كہ قرآن مجيدنے اس مفصل و طولانى داستان كو چند مختصر اور چبھنے والے انتہائي فصيح و بليغ جملوں ميںبيان كرديا ہے_ اور حقيقتاً ايسے نكات بيان كئے ہيں جو قرآنى اہداف،يعنى مغرور سركشوں كو كو بيدار كرنے او رخدا كى عظيم قدرت كے مقابلہ ميں انسان كى كمزورى دكھانے ميں مدد ديتے ہيں_

 

يہ ماجرا اس بات كى نشانى دہى كرتا ہے كہ معجزات و خوارق عادات،بعض لوگوں كے خيال كے برخلاف،لازمى نہيں ہے كہ پيغمبر يا امام ہى كے ہاتھ پر ظاہر ہوں _بلكہ جن حالات ميں خدا چاہے اور ضرورى سمجھے انجام پاجاتے ہيں_ مقصد يہ ہوتا ہے كہ لوگ خدا كى عظمت اور اس كے دين كى حقانيت سے آشنا ہوجائيں_

 

يہ عجيب و غريب اعجاز آميز اور عذاب دوسرى سركش اقوام كے عذاب كے ساتھ ايك واضح فرق ركھتا ہے كيونكہ طوفان نوح عليہ السلام كا عذاب،اور قوم لوط عليہ السلام كا زلزلہ اور سنگ باري،قوم عاد كى تيز آندھى

اور قوم ثمود كا صاعقہ طبعى حوادث كا ايك سلسلہ تھے،كہ جن كا صرف ان خاص حالات ميں وقوع معجزہ تھا_

ليكن لشكر ابرہہ كى نابودى كى داستان ان سنگريزوں كے ذريعے جو چھوٹے چھوٹے پرندوں كى چونچ اور پنجوں سے گرتے تھے_كوئي ايسى چيز نہيں تھى جو طبعى حوادث سے مشابہ ہو_

ان چھوٹے چھوٹے پرندوں كا اٹھنا،اسى خاص لشكر كى طرف آنا،اپنے ساتھ كنكريوں كا لانا،خاص طور سے انہيں كو نشانہ بنانا اور ان چھوٹى چھوٹى كنكريوں سے ايك عظيم لشكر كے افراد كے اجسام كا ريزہ ريزہ ہوجانا،يہ سب كے سب خارق عادت امور ہيں،ليكن ہم جانتے ہيں كہ يہ سب كچھ خدا كى قدرت كے سامنے بہت ہى معمولى چيز ہے_

وہى خدا جس نے انہيں سنگ ريزوں كے اندر ايٹم كى قدرت پيدا كى ہے،كہ اگر وہ آزاد ہوجائےں تو ايك عظيم تباہى پھيلادے_اس كے لئے يہ بات آسان ہے كہ ان كے اندر ايسى خاصيت پيدا كردے كہ ابرہہ كے لشكر كے جسموں كو ''عصف ما كول''''(كھائے ہوئے بھوسے كى مانند) بنادے_''

ہميں بعض مصرى مفسرين كى طرح اس حادثہ كى توجيہہ كرنے كى كوئي ضرورت نہيں ہے كہ ہم يہ كہيں كہ ان كنكريوں ميں وبا يا چيچك كے جراثيم تھے_اور اگربعض روايات ميں يہ آيا ہے كہ صدمہ زدہ لوگوں كے بدنوں سے چيچك ميں مبتلا افراد كى طرح خون اور پيپ آتى تھي،تو يہ اس بات كى دليل نہيں ہے كہ وہ حتمى طور پر چيچك ميں مبتلا تھے_اسى طرح سے ہميں اس بات كى بھى ضرورت نہيں ہے كہ ہم يہ كہيں كہ يہ سنگ ريزے پسے ہوئے ايٹم تھے جن كے درميان كى ہوا ختم ہوگئي تھي، اور وہ حد سے زيادہ سخت تھے،اس طرح سے كہ وہ جہاں بھى گرتے تھے سوراخ كرديتے تھے_

يہ سب كى سب ايسى توجيہات ہيں جو اس حادثہ كو طبعى بنانے كے لئے ذكر ہوئي ہيں اور ہم اس كى ضرورت نہيں سمجھتے_ ہم تو اتنا ہى جانتے ہيں كہ ان سنگ ريزوں ميں ايسى عجيب و غريب خاصيت تھى جو جسموں كو ريزہ ريزہ كرديتى تھي_ اس سے زيادہ اور كوئي اطلاع ہمارے پاس نہيں ہے_ بہر حال خدا كى قدرت كے مقابلہ ميں كوئي كام بھى مشكل نہيں ہوتا

 

گل رز

 

معمولى وسيلہ سے سخت ترين سزا

قابل توجہ بات يہ ہے كہ خدا نے اس ماجرے ميں مستكبرين اور سركشوں كے مقابلہ ميں اپنى قدرت اعلى ترين صورت ميں دكھادى ہے_شايد دنيا ميں ابرہہ كے لشكر كے عذاب سے بڑھ كر زيادہ سخت اور كوئي عذاب نہ ہو اور ان مغرور لوگوں كو اس طرح سے تباہ و برباد كردياجائے كہ ريزہ ريزہ اور كھائے ہوئے بھوسے كى طرح ہوجائيں_اتنى بڑى قدرت وشوكت ركھنے والى جمعيت كى نابودى كے لئے نرم قسم كے سنگ ريزوں اور كمزور اور چھوٹے چھوٹے پرندوں سے كام لياجائے_وہى بات كہ يہ دنيا جہاںكے تمام مستكبرين اور سركشوں كے لئے ايك تنبيہ ہے،تا كہ وہ جان ليں كہ وہ خدا كى قدرت كے مقابلہ ميں كس قدر ناتواںہيں_

مطلب يہ ہے كہ بعض اوقات ايسا ہوتا ہے كہ خدا اس قسم كے عظيم كام بہت ہى چھوٹے سے ،موجودات كے سپرد كر ديتا ہے ،مثلا ايسے جراثيم كو، جوہر گز انكھ سے ديكھے نہيں جاسكتے ،مامور كر ديتا ہے كہ وہ ايك مختصر سى مدت ميں سرعت كے ساتھ اپنى پيدائشے بڑھا كر طاقت اور قدموں كو ايك خطرناك سرايت كرنے والى بيمارى ،مثلا:''وبا''و''طاعون''ميں مبتلا كردے اور ايك مختصر سى مدت ميں خزاں كے پتوںكى طرح زمين پر -ڈھير كر دے_

يمن كا عظيم بند(سد مارب )زيادہ ابادى اور ايك عظيم طاقت و ر تمدن كى پيدائشے كے ذريعہ بنى اوراس قوم كى سركشى بڑھ گئي ،ليكن اس قوم كى نابودى كا فرمان جيسا كہ بعض روايات ميں ايا ہے ،ايك يا چند صحرائي چوہوں كے سپرد ہوا تا كہ وہ اس عظيم بندكے اندر گھس جائيں اور اسميں ايك سوراخ كرديں_ اس سوراخ ميں پانى داخل ہونے كى وجہ سے يہ سوراخ بڑے سے بڑاہوتا چلا گيا اور آخر كا روہ عظيم بند ٹوٹ گيا اور وہ پانى جو اس بند كو تھپيڑے ماررہا تھا،اس نے ان سب آباديوں،گھروں اور محلوں كو ويرا ن اور تباہ و برباد كرديا_اوروہ بڑى جمعيت يا تو نابود ہوگئي يا دوسرے علاقوں ميں پراگندہ اور منتشر ہوگئي _يہ ہے خداوند بزرگ و برتر كى قدرت نمائي_

دوسرى طرف يہ ماجرا جو پيغمبر اسلام (ص) كے ميلاد كے قريب واقع ہوا تھا ،حقيقت ميں اس عظيم

ظہور كا پيش خيمہ تھا اور اس قيام كى عظمت كا پيام لانے والا تھا_اور يہ وہى چيز ہے جسے مفسرين نے ''ارھاص''سے تنبيہ كيا ہے_

اس واقعہ كا تيسرا مقصد يہ ہے كہ يہ سارى دنيا جہان كے سركشوں كے لئے ايك تنبيہ ہے،چاہے وہ قريش ہوں يا ان كے علاوہ كوئي اور ہوں،كہ وہ جان ليں كہ وہ ہرگز پروردگار كى قدرت كے مقابلہ ميں نہيں ٹھہر سكتے_لہذا بہتر يہى ہے كہ وہ خيال خام كو اپنے سر سے نكال ديں،اس ابراہيمى سرزمين كى مركزيت كو دوسرى جگہ منتقل كرنا چاہتے تھے،تو خدا نے ان كى اس طرح سے گوشمالى كى كہ سارى دنيا كے لئے باعث عبرت بن گئي اور اس مقدس مركزكى اہميت كو مزيد بڑھا ديا _

اور پانچواں مقصد يہ ہے كہ،وہ خدا جس نے اس سرزمين مقدس كى امنيت كے بارے ميں ابراہيم خليل كى دعا كو قبول كياتھا،اور اس كى ضمانت دى تھي،اس نے ماجرے ميں اس بات كى نشان دہى كردى كہ اس كى مشيت يہى ہے كہ يہ توحيد و عبادت كا مركز ہميشہ ہميشہ كے لئے مركز امن رہے_

 

يك مسلم تاريخى روئيداد

قابل توجہ بات يہ ہے كہ''اصحاب فيل''كا ماجرا عربوں كے درميان ايسا مسلم تھا كہ يہ ان كے لئے تاريخ كا آغاز قرار پايا او رجيسا كہ ہم نے بيان كيا ہے،قرآن مجيد نے ايك نہايت ہى عمدہ تعبير''الم تر''(كيا تو نے نہيں ديكھا )كے ساتھ اس كا ذكر كيا ہے،پيغمبر اكرم (ص) كو خطاب كرتے ہوئے جونہ تو اس زمانہ ميں موجود تھے اور نہ ہى اسے ديكھا تھا،جو اس ماجرے كے مسلم ہونے كى ايك او رنشانى ہے_

ان سب باتوں سے قطع نظر جب پيغمبر اكرم (ص) نے مشركين مكہ كے سامنے ان آيات كى تلاوت كى تو كسى نے اس كا انكا رنہ كيا_اگر يہ مطلب مشكوك ہوتا تو كم ازكم كوئي اعتراض كرتا اور ان كا اعتراض ان كے باقى اعتراضوں كى طرح ہى تاريخ ميں ثبت ہوجاتا