• صارفین کی تعداد :
  • 3370
  • 1/23/2008
  • تاريخ :

پیغمبر اسلام(ص) کا اٹھنا بیٹھنا ہمیشہ ذکر خدا کے ساتھ ہوتا تھا

 

رز قرمز

امام حسین (ع) فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے پدر بزرگوار حضرت علی مرتضی (ع)سے رسول اکرم (ص) کی مجلس کے بارے میں دریافت کیا تو فرمایا کہ رسول اکر م(ص) کا اٹھنا بیٹھنا ہمیشہ ذکر خدا کے ساتھ ہوتا تھا، جہاں دوسروں کو رہنے سے منع کرتے تھے وہاں خود بھی نہیں رہتے تھے، کسی قوم کیساتھ بیٹھ جاتے تھے تو آخر مجلس تک بیٹھے رہتے تھے اور اسی بات کا حکم بھی دیتے تھے ، تمام ساتھ بیٹھنے والوں کو ان کا حق دیتے تھے اور کسی کو یہ احساس نہیں ہونے دیتے تھے کہ دوسرے کا مرتبہ زیادہ ہے۔کسی کی ضرورت میں اس کے ساتھ اٹھتے یا بیٹھتے تھے تو جب تک وہ خود نہ چلا جائے آپ الگ نہیں ہوتے تھے، اگرکوئی شخص کسی حاجت کا سوال کرتا تھا تو اسے پورا کرتے تھے یا خوبصورتی سے سمجھا دیتے تھے ، کشادہ روئی اور اخلاق میں تما م لوگوں کو حصہ دیتے تھے یہاں تک کہ آپ کی حیثیت ایک باپ کی تھی اور تمام لوگ حقوق میں برابر کی حیثیت کے مالک تھے، آپ کی مجلس حلم، حیاء ، صبر اور امانت کی مجلس تھی جہاں نہ آوازیں بلند ہوتی تھیں ، نہ کسی کو برا بھلا کہا جاتاتھا، نہ کسی غلطی کا مذاق اڑایا جاتا تھا ، سب برابر کا درجہ رکھتے تھے فضیلت صرف تقویٰ کی بنا پر تھی ، سب متواضع افراد تھے، بزرگوں کا احترام ہوتا تھا، بچوں پر مہربانی ہوتی تھی ، حاجت مندوں کو مقدم کیا جاتا تھا اور مسافروں کاتحفظ کیا جاتا تھا۔

 

میں نے عرض کی کہ ہمنشینوں کے ساتھ آپ کا برتاؤ کیساتھا؟ فرمایا ہمیشہ کشادہ دل رہتے تھے، اخلاق میں سہل ، طبیعت میں نرم ، نہ ترشرو بدخلق ، نہ حرف بدکہنے والے ، نہ عیب نکالنے والے، نہ بے تکا مذاق کرنے والے ، جس چیز کو نہیں چاہتے تھے اس سے چشم پوشی فرماتے تھے، نہ مایوس ہوتے تھے اور نہ اظہار محبت فرماتے تھے ، تین چیزوں کو اپنے سے الگ رکھتے تھے ، بیجا بحث ، زیادہ گفتگو، بے مقصد کلام، اور تین چیزوں سے لوگوں کے بارے میں پرہیز فرماتے تھے، نہ کسی کی مذمت اور سرزنش کرتے تھے، نہ کسی کے اسرار کی جستجو فرماتے تھے اور نہ امید ثواب کے بغیر کسی موضوع میں گفتگو فرماتے تھے، جب بولتے تھے تو لوگوں اس طرح خاموش سر جھکا لیتے تھے جیسے سروں پر طائر بیٹھے ہوں اور جب خاموش ہوجاتے تھے تو لوگ بات کرتے تھے لیکن جھگڑا نہیں کرسکتے تھے ، کوئی شخص کوئی بات کرتا تھا و سب سنتے تھے جب تک بات ختم نہ ہوجائے، ہر ایک کو بات کہنے کا موقع ملتا تھا اور سب ہنستے تھے تو آپ بھی مسکراتے تھے اور سب تعجب کرتے تھے تو آپ بھی اظہار تعجب کرتے تھے، کوئی اجنبی بے تکی بات کرتا تھا یا غلط سوال کرتا تھا تو اسے برداشت کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ جب کی حاجت مند کو سوال کرتے دیکھو تو عطاکرو، مسلمان کے علاوہ کسی سے تعریف پسند نہیں فرماتے تھے کسی کی بات کو قطع نہیں فرماتے تھے اور جب وہ حد سے تجاوز کرتا تو منع فرماتے یا کھڑے ہوکر بات ختم کردیتے تھے۔( دلائل النبوة بیہقی 1 ص 290)۔