• صارفین کی تعداد :
  • 2987
  • 1/22/2008
  • تاريخ :

پانچ نیک صفات

 

گل آفتابگردان

حدیث :

عن انس بن مالک قال:سمعت رسول الله (ص) فی بعض خطبہ ومواعظہ رحم الله امراءً قدم خیراً ،وانفق قصداً ،وقال   صدقاً،وملک دواعی شہوتہ ولم تملکہ،وعسیٰ امر نفسہ فلم تلمکہ [1]

 

ترجمہ :

انس ابن مالک نے روایت کی ہے کہ میں نے رسول الله (ص)کے کچھ خطبوں ونصیحتوں میں سنا کہ آپ نے فرمایا:” الله اس پر رحمت نازل کرے جو خیر کو آگے بھیجے ، الله کی راہ میں متوسط طور پر خرچ کرے ،سچ بولے ،شہوتوں پر قابو رکھے اور ان کا قیدی نہ بنے ،نفس کے حکم کو نہ مانے تاکہ نفس اس پر حاکم نہ بن سکے۔

 

حدیث کی تشریح :

پیغمبر اکرم (ص) اس حدیث میں اس انسان کو رحمت کی بشارت دے رہے ہیں جس میںیہ پانچ صفات پائے جاتے ہیں :

۱ )” قدم خیراً“جو خیر کو آگے بھیجتا ہے ،یعنی وہ اس امید میں نہیں رہتا کہ دوسرے اس کے لئے کوئی نیکی بھیجیں،بلکہ وہ پہلے ہی اپنے لئے نیکیوں کو ذخیرہ کرتا ہے اور آخرت کا گھر آباد کرتا ہے ۔

 

۲ )” انفق قصداً“متوسط طور پر الله کی راہ میں خرچ کرتاہے ۔ اس کے یہاں افراط و تفریط نہیں پائی جاتی بلکہ وہ الله کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے وسطی راہ کو چنتا ہے ۔نہ اتنا زیادہ خرچ کرتا ہے کہ خود کنگال ہو جائے اور نہ اتنا کنجوس ہوتا ہے کہ اپنے مال میں سے دوسرے کو کچھ نہ دے ”ولا تجعل یدک مغلولةالیٰ عنقک ولا تبسطہا کل البسط فتقعد ملوماًمحسوراً “ [2]

 

اپنے ہاتھوں کو اپنی گردن پر نہ باندھو(الله کی راہ میں خرچ کرنے سے نہ رکو) اور اپنے ہاتھوں کو حد سے زیادہ بھی نہ کھولو کہ کہیں کنگال ہو جانے کی وجہ سے تمھاری مذمت نہ ہونے لگے۔

 

ایک دوسرے مقام پر فرمایا:<والذین اذاانفقوا لم یسرفوا ولم یقتروا وکان بین ذالک قواماً [3] وہ جب الله کی راہ میں خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ ہی کمی،بلکہ ان دونوں کے بیچ اعتدال قائم کرتے ہیں ۔

 

۳ ) ” وقال صدقاً “سچ بولتاہے اس کی زبان جھوٹ سے گندی نہیںہوتی ۔

اوپر بیان کی گئیں تینوں صفات پسندیدہ ہیں مگر چوتھی اور پانچویں صفت کی زیادہ تاکیدکی گئی ہے ۔

 

گل

 

۴،۵ ) ” وملک دواعی شہوتہ ولم تملکہ ،وعصیٰ امر نفسہ فلم تملکہ“وہ اپنے شہوانی جذبات پر قابو رکھتا ہے اور ان کو اپنے اوپر حاکم نہیں بننے دیتا ۔کیونکہ وہ اپنے نفس کے حکم کی پیروی نہیں کرتا اس لئے اس کا نفس اس پر حاکم نہیں ہوتا ۔ اہم بات یہ ہے کہ انسان کو اپنے نفس کے ہاتھوں اسیر نہیںہونا چاہئے، بلکہ اپنے نفس کو قیدی بنا کر اس کی لگام اپنے ہاتھوںمیں رکھنی چاہئے ۔اور انسان کی تمام اہمیت اس بات میں ہے کہ وہ نفس پر حاکم ہو اس کا اسیر نہ ہو جیسے ،جب وہ غصے میں ہوتاہے تو اس کی زبان اس کے اختیار میں رہتی ہے یا نہیں؟یا جب اس کے سینے میں حسد کی آگ بڑھکتی ہے تو کیا وہ اس کو ایمان کی طاقت سے خاموش کرسکتا ہے؟خلاصہ یہ ہے کہ انسان ایک ایسے دو راہے پر کھڑاہے جہاں سے ایک راستہ الله اور جنت کی طرف جاتاہے او ردوسرا راستہ جس کی بہت سی شاخیں ہیں جہنم کی طرف جاتاہے۔ البتہ اس بات کا کہنا آسان ہے مگر اس پر عمل کرنا بہت دشوار ہے کبھی کبھی ارباب سیر و سلوک (عرفانی   افراد)کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ” اس انسان نے بہت کام کیا ہے “یعنی اس نے اپنے نفس سے بہت کشتی لڑی ہے اور بار بار گرنے اور اٹھنے کے نتیجہ میں یہ اپنے نفس پر مسلط ہو گیا ہے اور اسے اپنے قبضہ میں کرلیا ہے ۔

 

نفس پر تسلط قائم کرنے کے لئے ریاض کی ضرورت ہے ،قرآن کے مفہوم اور اہل بیت کی روایات سے آشنا ہونے کی ضرورت ہے۔انسان کو چاہئے کہ ہر روزقرآن ،تفسیر وروایات کو پڑھے اور ان کو اچھی طرح ذہن نشین کر کے ان سے طاقت حاصل کرے ۔کچھ لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ”ہم جانتے ہیں کہ یہ کام برہے مگر پتہ نہیں ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جب ہم اس کام کے قریب پہونچتے ہیں تو ہم اپنے اوپر کنٹرول نہیں کرپاتے “مملوک ہونے کے معنی ہی یہ ہیں کہ جانتا ہے مگر کر نہیں سکتا ،کیونکہ خود مالک نہیں ہے ۔   ان کی مثا ل ایسی ہی ہے   جیسے کسی تیزرفتار گاڑی کا ڈارئیور گاڑی کے اچانک کسی ڈھلان پر چلے جانے کے بعدکہے کہ اب گاڑی میرے اختیارسے باہر ہوگئی ہے اور وہ کسی پہاڑ سے ٹکرا کر کھائی میں گر کر تباہ ہو جائے ۔یا کسی ایسے انسان کی مانند جس کی رفتار پہاڑ کے ڈھلان پر آنے کے بعد بے اختیار تیز ہو جائے،   اگرکوئی چیز اس کے سامنے نہ آئے تو وہ بہت تیزی سے نیچے کی طرف آئے گاجب تک کوئی چیز اسے روک نہ لے،لیکن اگر وہ پہاڑی کے دامن تک ایسے ہی   پہونچ جائے تو نیچے پہونچ کر اس کی رفتار کم ہو جائے گی اور   وہ   رک جائےگا ، بس نفس بھی اسی طرح ہے۔   یہ کتنی دردناک   بات ہے کہ انسان جانتا ہو مگر کر نہ سکتاہو۔اگر انسان   نہ جاننے کی بنا-- پرکوئی گناہ کرے   تو شاید اس کے لئے جواب دہ نہ ہو ۔

 

یہ سب ہمارے لئے تنبیہ ہے کہ ہم اپنے کاموں کی طرف متوجہ ہوں اور اپنے نیک کاموںکو آگے بھیجیں ۔لیکن اگر ہم نے کوئی برا کام انجام دیا اور اس کی توبہ کئے بغیر اس دنیا سے چلے گئے   تو ہمیں اس کے عذاب کو بھی برداشت کرنا پڑے گا کیونکہ انسان کی تکلیف مرنے کے بعد ختم ہو جاتی ہے اورپھر نہ   وہ   توبہ کرسکتاہے اور   نہ   ہی کوئی نیک عمل انجام دے سکتا ہے۔

 

--------------------------------------------------------------------------------

[1] بحارالانوار،ج/ ۷۴ ص/ ۱۷۹

[2] سورہٴ اسراء آیہ/ ۲۹

[3] سورہٴ فرقان آیہ/ ۶۷