• صارفین کی تعداد :
  • 4831
  • 1/22/2008
  • تاريخ :

کمال ایمان کے مراتب

 

رز سفید

حدیث :

عن نافع عن ابن عمرقال:قال رسول الله (ص):لا یکمل عبد الایمان بالله،حتی یکون فیہ خمس خصالٍ: التوکل علی الله،والتفویض الیٰ الله،والتسلیم لامر الله،والرضاء بقضاء الله،والصبر علیٰ بلاء الله،انہ من احب فی الله،وابغض فی الله،واعطیٰ لله،ومنع لله،فقد استکمل الایمان [1]

 

ترجمہ :

نافع نے ابن عمرسے نقل کیا ہے کہ حضرت رسول اکرم(ص) نے فرمایا کہ الله پر بندہ کا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہوتا جب تک اس میں پانچ صفات پیدا نہ ہوجائیں: الله پر توکل ، تمام کاموں کو الله پر چھوڑنا، الله کے امر کو تسلیم کرنا، الله کے فیصلوں پر راضی رہنا،الله کی طرف سے ہونے والی آزمائش پر صبر کرنا،اور سمجھ لو کہ جو دوستی و دشمنی ، عطا ومنع الله کی وجہ سے کرے اس نے اپنے ایمان کو کامل کرلیا ہے۔

 

حدیث کی شرح :

اس حدیث میں پیغمبر اسلام(ص) کمال ایمان کے مراتب کو بیان فرمارہے ہیں اور علم اخلاق کے کچھ علماء نے بھی سیرو سلوک کے مرحلہ میں تقریباً یہی باتیں بیان کیں ہیں :

التوکل علی الله“پہلا مرحلہ توکل ہے ،حقیقت میں مومن یہ کہتا ہے کہ چونکہ ا سکے علم ،قدرت اور رحمانیت کا مجھے علم ہے اور میں اس پر ایمان رکھتا ہوں اس لئے اپنے کاموں میں اس کو وکیل بناتا ہوں۔

والتفویض الیٰ الله“دوسرا مرحلہ تفویض ہے ۔تفویض یعنی سپرد کرنا یا سونپنا،پہلے مرحلہ میںمومن چلنے کے لئے الله کی راہ کو چنتا ہے اور دوسرے مرحلہ میں مومن حقیقتاً الله سے کہتا ہے کہ الله تو بہتر جانتا ہے کہ میں نے تمام چیز یں تیرے سپرد کردی ہیں۔

 

توکل اور تفویض میں فرق :

توکل کی منزل میں انسان اپنے تمام فائدوں کواہمیت دیتا ہے اسی لئے اپنے نفع کی تمام حدود کو دیکھتا ہے لیکن تفویض کی منزل میں وہ یہ تو جانا ہے کہ فائدہ ہے، مگرفائدے کی حدوں کے بارے میں اس کو علم نہیں ہوتا اس لئے سب کچھ الله کے سپرد کردیتا ہے، کیونکہ اس مرحلہ میں اسے الله پر مکمل اعتماد حاصل ہو جاتاہے ۔

والتسلیم لامرالله“یہ مرحلہ دوسرے مرحلہ سے بلند ہے کیونکہ اس مرحلے میں انسان فائدے کو اہمیت نہیں دیتا۔توکل کے مرحلہ میں خواہشات موجود تھیں لیکن تسلیم کے مرحلہ میں خواہشات نہیں پائی جاتیں۔

 

سوال :

اگر اس مرحلہ میں خواہشات نہیں پائی جاتیں تو پھر دعا کیوں کی جاتی ہے؟

 

جواب :

تسلیم کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم الله سے درخواست نہ کریں،بلکہ تسلیم کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم الله سے کوئی چیز چاہیں اور وہ نہ ملے تو تسلیم ہو جائیں۔

والرضا بقضاء الله “رضا کا مرحلہ تیسرے مرحلہ سے بھی بلند ہے ۔تسلیم کے مرحلہ میں انسان کے لئے فائدے ہیں مگر انسان ان سے آنکھیںبند کرلیتاہے لیکن رضا کا مرحلہ وہ ہے جس میں انسان کے نفس کے اندر بھی اپنی خواہشات کے لئے ضد نہیں پائی جاتی ۔ بس رضاو تسلیم کے درمیان یہی فرق پایا جاتاہے ۔

الله کی طرف سیراور اس   سے قریب ہونے کے لئے   یہ چار مرحلہ ہیںجن کو الفاظ میں بیان کرنا   توآسان ہے لیکن ان سب کے بیچ بہت لمبے لمبے فاصلے ہیں کبھی کبھی ان مرحلوںکو ”فنا فی الله“   کا نام بھی دیا جاتا ہے ۔ فنا کے دو معنی ہیں جن میں سے ایک معقول ہے اور وہ   فنا   رضایت کے مرحلہ تک پہونچنا ہے۔ اس مرحلہ میں انسان الله کی ذات کے مقابل اپنی تمام خواہشات کو بھول جاتاہے اور فنا فی الله کے صحیح معنی بھی یہی ہیں جو شریعت اور عقل کے مطابق ہیں۔

البتہ یہ مراحل دعا اور الله سے حاجت طلب کرنے کی نفی نہیں کرتے ہیں کیونکہ اگر کوئی کمال ایمان کے آخری مرحلہ یعنی رضا تک بھی پہونچ جائے تو بھی دعا کا   محتاج ہے۔

ان تمام مقامات کو   صبر کے ذریعہ حاصل کیا جا سکتاہے ۔ صبر تمام نیکوں کی جڑ ہے۔ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی وصیت میں پانچوین فرمائش صبر کے بارے میں ہے ،جو کہ دیگر چاروں فرمائشوں کے جاری ہونے کی ضامن ہے۔ کہ انسان کے لئے کافی ہے کہ ا ن کمالات تک پہونچنے   کے لئے   اپنے آپ کو تیار کرے،لیکن اہم مسلہ یہ ہے کہ اس راستے پر باقی رہے ۔جن لوگوں نے علم و عمل ،تقویٰ اور دوسرے تمام مراتب کو حاصل کیا ہے ان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ اس منزل تک صبر کے نتیجہ میں پہونچے ہیں۔حدیث کے آخر میں جو جملہ ہے وہ پہلے جملوں کامفہوم ہے یعنی دوستی، دشمنی،کسی کو کچھ عطا کرنایا کسی کو کسی چیز سے منع کرناسب کچھ الله کے لئے ہو،کیونکہ یہ سب کمال ایمان کی نشانیاں ہیں۔


[1] بحارالانوار،ج/ ۷۴ ص/ ۱۷۷