• صارفین کی تعداد :
  • 4455
  • 1/20/2008
  • تاريخ :

حضرت علی (ع) کی خلافت

 

یا علی

خلافت

رسول کے بعد علی علیہ السّلام نے پچیس برس تک خانہ نشینی میں زندگی بسر کی35 ھ میں مسلمانوں نے خلافت اسلامی کامنصب علی علیہ السّلام کے سامنے پیش کیا . آپ نے پھلے انکار کیا , لیکن جب مسلمانوں کااصرار بھت بڑہ گیاتو آپ نے اس شرط سے منظو رکیا کہ میں بالکل قران اور سنت پیغمبر کے مطابق حکومت کروں گا اور کسی رورعایت سے کام نہ لوں گا . مسلمانوں نے اس شرط کو منظور کیا اور آپ نے خلافت کی ذمہ داری قبول کی- مگر زمانہ آپ کی خالص مذھبی سلطنت کو برداشت نہ کرسکا , آپ کے خلاف بنی امیہ اور بھت سے وہ لوگ کھڑے ھوگئے جنھیں آپ کی مذھبی حکومت میں اپنے اقتدار کے زائل ھونے کا خطرہ تھا , آپ نے ان سب سے مقابلہ کرنااپنا فرض سمجھا اور جمل و صفین، اور نھروان کی خوں ریز لڑائیاں ھوئیں  جن میں علی بن ابی طالب علیھما السّلام نے اسی شجاعت اور بھادری سے جنگ کی جو بدر و احد , خندق وخیبر  میں کسی وقت دیکھی جاچکی تھی اور زمانہ کو یاد تھی .ان لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے آپ کو موقع نہ مل سکا کہ آپ جیسی چاہتے تھے ویسی اصلاح فرمائیں . پھر بھی آپ نے اس مختصر مدّت میں اسلام کی سادہ زندگی , مساوات اور نیک کمائی کے لیے محنت ومزدوری کی تعلیم کے نقش تازہ کردئے۔ آپ شھنشاہ  اسلام ھونے کے باوجود کجھوروں کی دکان پر بیٹھنا اور اپنے ھاتہ سے کھجوریں بیچنا برا نھیں سمجھتے تھے , پیوند لگے ھوئے کپڑے پھنتے تھے , غریبوں کے ساتھ زمین پر بیٹھ کر کھاناکھالیتے تھے . جو روپیہ بیت المال میں آتا تھا اسے تمام مستحقین پر برابر سے تقسیم کرتے تھے , یھاں تک کہ آپ کے سگے بھائی عقیل نے یہ چاھا کہ انھیں دوسرے مسلمانوں سے کچھ زیادہ مل جائے مگر آپ نے انکار کردیا اور کھا کہ اگر میرا ذاتی مال ھوتا تو یہ ھو بھی سکتا تھا مگر یہ تمام مسلمانوں کا مال ھے . مجھے حق نھیں ھے کہ میں اس میں سے کسی اپنے عزیز کو دوسروں سے زیادہ دوں , انتھایہ ھے کہ اگر کبھی بیت المال میں شب کے وقت حساب وکتاب میں مصروف ھوئے اور کوئی ملاقات کے لیے آکر غیر متعلق باتیں کرنے لگا تو آپ نے چراغ بھجادیا کہ بیت المال کے چراغ کو میرے ذاتی کام میں صرف نہ ھونا چاھیے . آپ کی کوشش یہ رھتی تھی کہ جو کچہ بیت المال میں آئے وہ جلداز جلد حق داروں تک پھنچ جائے . آپ اسلامی خزانے میں مال کاجمع رکھنا پسند نھیں فرماتے تھے .

 

شھادت

 افسوس یہ ھے کہ یہ امن , مساوات اور اسلامی تمدّن کا علمبردار دنیا طلب لوگوں کی عداوت سے نہ بچااور 19ماہ رمضان 40ھجری کو صبح کے وقت خدا کے گھر یعنی مسجد میں عین حالتِ نماز میں ایک زھر میں بجھی ھوئی تلوار سے زخمی کیا گیا . آپ کے رحم وکرم اور مساوات پسندی کی انتھا یہ تھی کہ جب آپ کے قاتل کو گرفتار کرکے آپ کے سامنے لائے اور آپ نے دیکھا کہ اس کاچھرہ زرد ھے اور آنکھوں سے آنسو جاری ھیں تو آپ کو اس پر بھی رحم آگیا اور اپنے دونوں فرزندوں حسن و حسین کو ھدایت فرمائی کہ یہ تمھارا قیدی ھے اس کے ساتھ کوئی سختی نہ کرنا جو کچھ خود کھانا وہ اسے بھی کھلانا . اگر میں صحتیاب ھوگیا تو مجھے اختیار ھے میں چاھوں گا تو سزا دوں گا اور چاھوںگا تو معاف کردوں گا اور اگر میں دنیا میں نہ رھا اور تم نے اس سے انتقام لینا چاھا تو اسے ایک ھی ضربت لگانا , کیونکہ اس نے مجھے ایک ھی ضربت لگائی ھے اور ھر گز اس کے ھاتہ پاؤں وغیرہ قطع نہ کرنا , اس لیے کہ یہ تعلیم اسلام کے خلاف ھے , دو روز تک علی علیہ السّلام بستر بیماری پر انتھائی کرب اور تکلیف کے ساتھ رھے آخر کار زھر کا اثر جسم میں پھیل گیا اور21رمضان کو نمازِ صبح کے وقت آپ کی شہادت ھوئی .امام حسن وامام حسین علیھما السّلام نے تجھیزو تکفین کی اور پشتِ کوفہ پر نجف کی سرزمین میں انسانیت کاتاجدار ھمیشہ کے لیے آرام کی نیند سونے کے لئے دفن ھوگیا