• صارفین کی تعداد :
  • 4508
  • 1/20/2008
  • تاريخ :

امام حسین (ع) کی ولادت

 

یا حسین (ع)

نام ونسب

اسم گرامی : حسین (ع)

لقب : سید الشھداء

کنیت : ابو عبد اللہ

والد کا نام : علی (ع)

والدہ کا نام : فاطمہ زھرا (ع)

تاریخ ولادت : ۳/ شعبان ۴ھء

جائے ولادت : مدینہ منورہ

مدت امامت : ۱۲ / سال

 عمر : ۵۷/ سال

تاریخ شھادت :۱۰ / محرم الحرام ۶۱ھء

 شھادت کا سبب: یزید ابن معاویہ کے حکم سے شھید کیے گئے

روضہ اقدس : کربلائے معلّیٰ

اولاد کی تعداد : ۴ / بیٹے اور ۲ / بیٹیاں

بیٹوں کے نام : (۱) علی اکبر (۲) علی اوسط (۳) جعفر (۴) عبد اللہ ( علی اصغر )

بیٹیوں کے نام : ( ۱)سکینہ (۲) فاطمہ

 

 

 ولادت

 ھجرت کے چوتھے سال تیسری شعبان پنجشنبہ کے دن آپ کی ولادت ھوئی . اس خوشخبری کو سن کر جناب رسالت ماب تشریف لائے , بیٹے کو گود میں لیا , داھنے کان میں اذان اور بائیں میں اقامت کہی اور اپنی زبان منھ میں دی . پیغمبر کا مقدس لعاب دھن حسین علیہ السّلام کی غذا بنا . ساتویں دن عقیقہ کیا گیا . آپ کی پیدائش سے تمام خاندان میں خوشی اور مسرت محسوس کی جارھی تھی مگر آنے والے حالات کاعلم پیغمبر کی آنکھوں سے آنسو بھا تھا . اور اسی وقت سے حسین علیہ السّلام کے مصائب کاچرچا اھلیبت رسول کے زبانوں پر آنے لگا ۔

 

 

نشو و نما

 پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گود میں جو اسلام کی تربیت کاگھوارہ تھی اب دن بھردو بچّوں کی پرورش ھونے لگی ایک حسن دوسرے حسین اور اس طرح ان دونوں کا اور اسلام کا ایک ھی گھوارہ تھا جس میں دونوں پروان چڑھ رھے تھے . ایک طرف پیغمبر  اسلام جن کی زندگی کا مقصد ھی اخلاق انسانی کی تکمیل تھی اور دوسری طرف حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السّلام جو اپنے عمل سے خدا کی مرضی کے خریدار بن چکے تھے تیسری طرف حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا جو خواتین کے طبقہ میں پیغمبر کی رسالت کو عملی طور پر پھنچانے کے لیے ھی قدرت کی طرف سے پیدا ھوئی تھیں، اس نورانی ماحول میں حسین کی پرورش ھوئی.

 

 رسول کی محبت

 جیسا کہ حضرت امام حسن علیہ السّلام کے حالات میں لکھا جاچکا ھے کہ حضرت محمد مصطفےٰ (ص)اپنے دونوں نواسوں کے ساتھ انتھائی محبت فرماتے تھے ، سینہ پر بٹھاتے تھے ، کاندھوں پر چڑھاتے تھے اور مسلمانوں کو تاکید فرماتے تھے کہ ان سے محبت رکھو . مگر چھوٹے نواسے کے ساتھ آپ کی محبت کے انداز کچھ خاص امتیاز رکھتے تھے .ایسا ھوا ھے کہ نماز میں سجدہ کی حالت میں حسین پشت  مبارک پرآگئے تو سجدہ میں طول دے دیا اور جب بچہ خود سے بخوشی پشت پر سے علیٰحدہ ھوگیا اس وقت سر سجدے سے اٹھایا اور کبھی خطبہ پڑھتے ھوئے حسین مسجد کے دروازے سے داخل ھونے لگے اور زمین پر گر گئے تو رسول نے اپنا خطبہ قطع کردیا منبر سے اتر کر بچے کوزمین سے اٹھایا اور پھر منبر پر تشریف لے گئے اور مسلمانوں کو متنبہ کیا کہ دیکھو یہ حسین ھے اسے خوب پہچان لو اور اس کی فضیلت کو یاد رکھو  رسول(ص) نے حسین علیہ السّلام کے لیے یہ الفاظ بھی خاص طور سے فرمائے تھے کہ حسین مجھ سے اور میں حسین سے ھوں ۔ مستقبل نے بتادیا کہ رسول کا مطلب یہ تھا کہ میرا نام اور کام دنیا میں حسین کی بدولت قائم رھیگا .

 

یا حسین (ع)

 

رسول کی وفات کے بعد

 امام حسین علیہ السّلام کی عمر ابھی چھ سال ھی کی تھی جب انتھائی محبت کرنے والے نانا کاسایہ سر سے اٹھ گیا .اب پچیس برس تک حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السّلام کی خانہ نشینی کادور ھے .اس زمانہ کے طرح طرح کے ناگوار حالات امام حسین علیہ السّلام دیکھتے رھے اور اپنے والد بزرگوار کی سیرت کا بھی مطالعہ فرماتے رھے . یہ وھی دور تھا جس میں آپ نے جوانی کے حدود میں قدم رکھا اور بھر پور شباب کی منزلوں کو طے کیا۔35ھ میں جب حسین کی عمر31 برس کی تھی عام مسلمانوں نے حضرت علی  ا بن ابی طالب علیھما السّلام کو بحیثیت خلیفہ اسلام تسلیم کیا . یہ امیر المومنین علیہ السّلام کی زندگی کے آخری پانچ سال تھے جن میں جمل، صفین اور نھروان کی جنگ ھوئی اور امام حسین علیہ السّلام ان میں اپنے بزرگ مرتبہ باپ کی نصرت اور حمایت میں شریک ھوئے اور شجاعت کے جوھر بھی دکھلائے 40ھ میں جناب امیر علیہ السّلام مسجد کوفہ میں شھید ھوئے اور اب امامت وخلافت کی ذمہ داریاں امام حسن علیہ السّلام کے سپرد ھوئیں جو حضرت امام حسین علیہ السّلام کے بڑے بھائی تھے .حسین علیہ السّلام نے ایک باوفااور اطاعت شعار بھائی کی طرح حسن علیہ السّلام کاساتھ دیااور جب امام حسن علیہ السّلام نے اپنے شرائط کے ماتحت جن سے اسلامی مفاد محفوظ رہ سکے معاویہ کے ساتہ صلح کرلی تو امام حسین علیہ السّلام بھی اس مصلحت پر راضی ھوگئے اور خاموشی اور گوشہ نشینی کے ساتھ عبادت اور شریعت کی تعلیم واشاعت میں مصروف رھے مگر معاویہ نے ان شرائط کو جو امام حسن علیہ السّلام کے ساتھ ھوئے تھے بالکل پورا نہ کیا بلکہ امام حسن علیہ السّلام کو زھر کے ذریعہ شھید بھی کرا دیا- حضرت علی  بن ابی طالب علیہ السّلام کے شیعوں کو چن چن کے قید کیا گیا، سر قلم کئے گئے اور سولی پر چڑھایا گیا اور سب سے آخر میں اس شرط کے بالکل خلاف کہ معاویہ کو اپنے بعد کسی کو جانشین مقرر کرنے کا حق نہ ھو گا معاویہ نے یزید کو اپنے بعد کے لئے ولی عھد بنا دیا ۔ تمام مسلمانوں سے اس کی بیعت حاصل کرنے کی کوشش کی اور زور و زر دونوں طاقتوں کو کام میں لا کر دنیائے اسلام کے بڑے حصے کا سر جھکوا دیا گیا-

 جیسا کہ حضرت امام حسن علیہ السّلام کے حالات میں لکھا جاچکا ھے کہ حضرت محمد مصطفےٰ (ص)اپنے دونوں نواسوں کے ساتھ انتھائی محبت فرماتے تھے ، سینہ پر بٹھاتے تھے ، کاندھوں پر چڑھاتے تھے اور مسلمانوں کو تاکید فرماتے تھے کہ ان سے محبت رکھو . مگر چھوٹے نواسے کے ساتھ آپ کی محبت کے انداز کچھ خاص امتیاز رکھتے تھے .ایسا ھوا ھے کہ نماز میں سجدہ کی حالت میں حسین پشت  مبارک پرآگئے تو سجدہ میں طول دے دیا اور جب بچہ خود سے بخوشی پشت پر سے علیٰحدہ ھوگیا اس وقت سر سجدے سے اٹھایا اور کبھی خطبہ پڑھتے ھوئے حسین مسجد کے دروازے سے داخل ھونے لگے اور زمین پر گر گئے تو رسول نے اپنا خطبہ قطع کردیا منبر سے اتر کر بچے کوزمین سے اٹھایا اور پھر منبر پر تشریف لے گئے اور مسلمانوں کو متنبہ کیا کہ دیکھو یہ حسین ھے اسے خوب پہچان لو اور اس کی فضیلت کو یاد رکھو  رسول(ص) نے حسین علیہ السّلام کے لیے یہ الفاظ بھی خاص طور سے فرمائے تھے کہ حسین مجھ سے اور میں حسین سے ھوں ۔ مستقبل نے بتادیا کہ رسول کا مطلب یہ تھا کہ میرا نام اور کام دنیا میں حسین کی بدولت قائم رھیگا .

 

 

رسول کی وفات کے بعد

 امام حسین علیہ السّلام کی عمر ابھی چھ سال ھی کی تھی جب انتھائی محبت کرنے والے نانا کاسایہ سر سے اٹھ گیا .اب پچیس برس تک حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السّلام کی خانہ نشینی کادور ھے .اس زمانہ کے طرح طرح کے ناگوار حالات امام حسین علیہ السّلام دیکھتے رھے اور اپنے والد بزرگوار کی سیرت کا بھی مطالعہ فرماتے رھے . یہ وھی دور تھا جس میں آپ نے جوانی کے حدود میں قدم رکھا اور بھر پور شباب کی منزلوں کو طے کیا۔35ھ میں جب حسین کی عمر31 برس کی تھی عام مسلمانوں نے حضرت علی  ا بن ابی طالب علیھما السّلام کو بحیثیت خلیفہ اسلام تسلیم کیا . یہ امیر المومنین علیہ السّلام کی زندگی کے آخری پانچ سال تھے جن میں جمل، صفین اور نھروان کی جنگ ھوئی اور امام حسین علیہ السّلام ان میں اپنے بزرگ مرتبہ باپ کی نصرت اور حمایت میں شریک ھوئے اور شجاعت کے جوھر بھی دکھلائے 40ھ میں جناب امیر علیہ السّلام مسجد کوفہ میں شھید ھوئے اور اب امامت وخلافت کی ذمہ داریاں امام حسن علیہ السّلام کے سپرد ھوئیں جو حضرت امام حسین علیہ السّلام کے بڑے بھائی تھے .حسین علیہ السّلام نے ایک باوفااور اطاعت شعار بھائی کی طرح حسن علیہ السّلام کاساتھ دیااور جب امام حسن علیہ السّلام نے اپنے شرائط کے ماتحت جن سے اسلامی مفاد محفوظ رہ سکے معاویہ کے ساتہ صلح کرلی تو امام حسین علیہ السّلام بھی اس مصلحت پر راضی ھوگئے اور خاموشی اور گوشہ نشینی کے ساتھ عبادت اور شریعت کی تعلیم واشاعت میں مصروف رھے مگر معاویہ نے ان شرائط کو جو امام حسن علیہ السّلام کے ساتھ ھوئے تھے بالکل پورا نہ کیا بلکہ امام حسن علیہ السّلام کو زھر کے ذریعہ شھید بھی کرا دیا- حضرت علی  بن ابی طالب علیہ السّلام کے شیعوں کو چن چن کے قید کیا گیا، سر قلم کئے گئے اور سولی پر چڑھایا گیا اور سب سے آخر میں اس شرط کے بالکل خلاف کہ معاویہ کو اپنے بعد کسی کو جانشین مقرر کرنے کا حق نہ ھو گا معاویہ نے یزید کو اپنے بعد کے لئے ولی عھد بنا دیا ۔ تمام مسلمانوں سے اس کی بیعت حاصل کرنے کی کوشش کی اور زور و زر دونوں طاقتوں کو کام میں لا کر دنیائے اسلام کے بڑے حصے کا سر جھکوا دیا گیا-

 

یا حسین (ع)

 

اخلاق و اوصاف

امام حسین علیہ السّلام سلسلہ امامت کی تیسری فرد اور عصمت و طھارت کا باقاعدہ مجسمہ تھے- آپ کی عبادت, آپ کے زھد, آپ کی سخاوت اور آپ کے کمال اخلاق کے دوست و دشمن سب ھی قائل تھے- آپ نےپچیس حج پاپیادہ کئے- آپ میں سخاوت اور شجاعت کی صفت کو خود رسول اللہ نے بچپن میں ایسا نمایاں پایا کہ فرمایا» حسین میں میری سخاوت اور میری جراَت ھے-« چنانچہ آپ کے دروازے پر مسافروں اور حاجتمندوں کا سلسلہ برابر قائم رھتا تھا اور کوئی سائل محروم واپس نھیں ھوتا تھا- اسی وجہ سے آپ کا لقب ابوالمساکین ھو گیاتھا- راتوں کو روٹیوں اور کھجوروں کے پشتارے اپنی پیٹھ پر اٹھا کر لے جاتے تھے اور غریب محتاج بیواؤں اور یتیم بچوں کو پہنچاتے تھے جن کے نشان پشت مبارک پر پڑ گئے تھے- حضرت ھمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ » جب کسی صاحبِ ضرورت نے تمھارے سامنے سوال کے لئے ہاتھ پھیلا دیا تو گویا اس نے اپنی عزت تمھارے ہاتھ بیچ ڈالی- اب تمھارا فرض یہ ھے کہ تم اسے خالی ہاتھ واپس نہ کرو, کم سے کم اپنی ھی عزتِ نفس کا خیال کرو-«

غلاموں اور کنیزوں کے ساتھ آپ عزیزوں کا سا برتاؤ کرتے تھے- ذرا ذرا سی بات پر آپ انھیں آزاد کر دیتے تھے- آپ کے علمی کمالات کے سامنے دنیا کا سر جھکا ھوا تھا- مذھبی مسائل اور اھم مشکلات میں آپ کی طرف رجوع کیا جاتا تھا- آپ کی دعاؤں کا ایک مجموعہ صحیفہ حسینیہ کے نام سے اس وقت بھی موجود ھے ۔ آپ رحم دل ایسے تھے کہ دشمنوں پر بھی وقت آنے پر رحم کھاتے تھے اور ایثار ایسا تھا کہ اپنی ضرورت کو نظر انداز کر کے دوسروں کی ضرورت کو پورا کرتے تھے- ان تمام بلند صفات کے ساتھ متواضع اور منکسر ایسے تھے کہ راستے میں چند مساکین بیٹھے ھوئے اپنے بھیک کے ٹکڑے کھا رھے تھے اور آپ کو پکار کر کھانے میں شرکت کی دعوت دی تو حضرت فوراً زمین پر بیٹھ گئے- اگرچہ کھانے میں شرکت نھیں فرمائی اس بناء پر کہ صدقہ آلِ محمد پر حرام ھے مگر ان کے پاس بیٹھنے میں کوئی عذر نھیں ھوا-

 اس خاکساری کے باوجود آپ کی بلندی مرتبہ کا یہ اثر تھا کہ جس مجمع میں آپ تشریف فرماھوتے تھے لوگ نگاہ اٹھا کر بات بھی نھیں کرتے تھے - جو لوگ آپ کے خاندان کے مخالف تھے وہ بھی آپ کی بلندی مرتبہ کے قائل تھے- چنانچہ ایک مرتبہ حضرت امام حسین علیہ السّلام نے حاکم شام معاویہ کو ایک سخت خط لکھا جس میں اس کے اعمال و افعال اور سیاسی حرکات پر نکتہ چینی کی تھی ۔ اس خط کو پڑھ کر معاویہ کو بڑی تکلیف محسوس ھوئی- پاس بیٹھنے والے خوشامدیوں نے کہا کہ آپ بھی اتنا ھی سخت خط لکھئے- معاویہ نے کہا, »میں جو کچھ لکھوں گا وہ اگر غلط ھو تو اس سے کوئی نتیجہ نھیں اور اگر صحیح لکھنا چاھوں تو بخدا حسین میں مجھے ڈھونڈنے سے بھی کوئی عیب نھیں ملتا-«

 آپ کی اخلاقی جراَت , راست بازی اور راست کرداری , قوتِ اقدام, جوش عمل اور ثبات و استقلال , صبر و برداشت کی تصویریں کربلا کے مرقع میں محفوظ ھیں- ان سب کے ساتھ آپ کی امن پسندی یہ تھی کہ آخر وقت تک دشمن سے صلح کرنے کی کوشش جاری رکھی مگر عزم وہ تھا کہ جان دے دی مگر جو صحیح راستہ پہلے دن اختیار کر لیا تھا اس سے ایک انچ نہ ھٹے- آپ نے بحیثیت ایک سردار کے کربلا میں ایک پوری جماعت کی قیادت کی اس طرح کہ اپنے وقت میں وہ اطاعت بھی بے مثل اور دوسرے وقت میں یہ قیادت بھی لاجواب تھی