• صارفین کی تعداد :
  • 5136
  • 1/14/2008
  • تاريخ :

امام جعفر صادق علیہ السلام کا دور علمی ترقی اور پیشرفت کا دورتھا

 

یا جعفربن محمد

امام جعفر صادق علیہ السلام کے زمانے کو علمی اِرتقاء اور ترقی کا زمانہ کہا جاسکتا ہے کیونکہ عوام و خواص ہر ایک اس زمانے میں تحصیلِ علم کی طرف متوجہ تھا۔ اور اس زمانے کا ماحول کاملاً اسرارِ قرآنی کی تبلیغ اور انکشاف کے لئے سازگار تھا۔ اِس علمی ماحول ہی کی وجہ سے امام کو اسرارِ علومِ دینی کے حتی الوسع اِنکشاف کا موقع ملا۔ آپ کے حکیمانہ کلمات علمی وطبی نظریات اور دینی بیانات کی پُرجوش نہر تھی جو تشنگانِ معرفت کو سیراب کرتی چلی جا رہی تھی۔ تشنگانِ دانش اور بیمارانِ جہل دور دروازے سے آتے اور جہالت کی بیماری سے شفایاب ہوتے۔ مورخین آپ سے روایت کرتے اور دانشور کتابی صورت میں آپ کے فرمودات جمع کرتے تھے حتیٰ کہ حفاظ اور محدثین جب کچھ بیان کرتے تو حوالہ دیتے کہ امام جعفر صادق نے یہ ارشاد فرمایاہے، اب ہم آپ کے دریائے حکمت کے چند قطرے اور گلستانِ طب کے پھول نہایت اِختصار سے پیش کر رہے ہیں۔ مُعارفِ اِمام از کتب غیر نیست جو لوگ عرب کے ماحول اور عرب کی تاریخ سے واقف ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ معارف و علوم امام آپ کے ہمعصر عقلاء کی تعلیمات سے بالکل مختلف ہیں لہذا ظاہر ہوا کہ آپ نے کسی مدرسہ میں تعلیم حاصل نہیں کی اور نہ کسی اُستاد کے سامنے زانوئے اَدب تہہ کیا۔ آپ کا علم۔ عِلمِ نبوت کا ایک پر تو ہے جس کا اَصل سرچشمئہِ وحی اور پیغامِ خداوندی ہے۔ اسی سر چشمہ اور علم نبوتی کا دھارا حضرت علی علیہ السلام ہیں جن سے فرزندے بہ فرزندے امام جعفر صادق علیہ السلام تک بہ فیضانِ وحی پہونچتا ہے۔ مختصر یہ کہ معارفِ جعفری، اَسرار قرآنی کا ایک راز۔ انوارِ نبوت کا ایک نور۔ فیضانِ امامت کا ایک روشن فیض ہے۔ اَب ہم اپنے دعوے کے ثبوت میں حضرت امام جعفر صادق کے کچھ طبی مناظرات نقل کر رہے ہیں اور فیصلہ قارئین و ناظرین کی عقل سلیم پر چھوڑتے ہیں۔ طبِ ہندی:۔ طِبِ ہندی ’تمام بیماریوں کی جڑ اور اصل کثافت ِ خون کو ٹھہراتی ہے اور مُصفی خون اَدویہ سے اسکا علاج کرتی ہے۔ بیماریاں اگرچہ مختلف ہوتی ہیں مگر وہ صرف تصفیئہ خون سے سب کا علاج کرتی ہے۔ اَطباء ہندی مادہِ فاسد سے قطع نظر کرکے تصفیئہ خون کی کوشش کرتے ہیں۔ کثیف خون کی کثافت کے دُور کرنے کی طرف تو متوجہ نہیں ہوتے بلکہ تازہ اور نیا پاک خون پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔۔۔ طبِ ہندی میں پرہیز زیادہ تر فاقہ کی صورت میں ہے۔ مگر اسلام میں پرہیز صرف ان چیزوں سے ہے جو مُضر ہوں۔