• صارفین کی تعداد :
  • 4314
  • 6/1/2008
  • تاريخ :

حضرت علی (ع) اور جہاد

 

علی(ع)

مسئلہ جھاد جو ا پنے ھمر اہ خو نریز ی ، بے رحمی اور بر بر یت کا مھیب تصور لیکرآتا ہے ، اسلا م کے اھم تر ین مسا ئل میں سے ایک ہے۔ لھذا ضروری ہے کہ اس قو ل کی کہ اسلا م شمشیر کے زور پر پھیلا ہے حتی ا لا مکا ن تو جیہ و تفسیر کی جا ئے ۔ اس مسئلے کی وضا حت کے لئے ضروری ہے کہ اس سماج کا بہ نظر غائر ایک جا ئز ہ لیا جائے جس میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے تبلیغی سفر کا آغاز کیا تھا ۔ اس سلسلے میں کچہ مطا لب بیان کئے جا ئینگے اور کو شش کی جا ئے گی کہ ایسے مصادر اور منا بع سے استفادہ کیا جائے جو مسلم اور غیر مسلم دو نو ں مور خین کیلئے متفق علیہ ہو ں یعنی جب تک کسی ایک امر کی وضاحت کے لئے متفق علیہ مصا در پیش نھیں کئے جا ئینگے ،انکے ذریعے استنا د سے اجتناب کیا جائے گا ۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے پھلی مر تبہ وحی نا زل ہو نے کے بعد جب اپنے ھا دی اور رھنما ئےبشر یت ہو نےکا یقین حا صل کر لیا تب اپنی رسا لت کے اظھا ر کے لئےاقدا مات شروع فر ما ئے ۔ ابتدا میں آپ نے اپنی رسالت کے اظھا ر کے لئے ایک بہت ھی مختصر اور محدو د دا ئر ے کا انتخا ب فر ما یا ۔ آپکے موٴ ثر اقدا مات اور حقیقی پیغامات کے نتیجے میں مر دو ں میں سب سے پھلے حضرت علی (ع) اور خوا تین میں اسلام کی طرف سب سے پھلے سبقت کر نے وا لی حضرت خد یجہ تھیں ۔

 ایک عر صے تک آپ نے اپنی نبوت کو اپنے اقربا ء کے در میا ن پو شیدہ رکھا ۔ بتدر یج آپکی رسا لت کو و سعت بخشی جا تی رھی یھا ں تک کہ پیغام آیا کہ اپنے اعمام کو (جنکا شما ر اشراف قر یش میں کیا جا تا تھا )جمع کرو اور اپنی رسالت کو انکے سامنے بیان کرو ۔ آپ نے اپنے چچاؤں کو جمع کیا اور انکے سامنے اپنے مبعوث بہ رسالت ہو نے کو بیان کیا جس کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ انہوں نے آپ کی صدا پر لبیک نھیں کھا بلکہ آپ کو انکی روگردانی اور اعتراضات کا بھی سامنا کر نا پڑا ۔

 پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام اعتراضات سے قطع نظر کرتے ہوئے بغیر کسی قسم کی یا س و نا امیدی کے اپنے پیغام کو دوسرے افراد تک پہونچانا شروع کر دیا ۔آھستہ آھستہ مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا ۔بت پرستی اور زمانۂ جاھلیت کے عرب کے درمیان رائج فاسد رسم ورواج اور ناروا عادات کے سلسلے میں آپکی مخا لفت زباں زد عام و خاص ہو گئی ۔مختلف حادثات و واقعات رونما ہوتے رہے لیکن پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے پائے ثبات میں لغزش نہ آئی۔آ پکے اس تبلیغی مشن اور محکم ارادوں کے سامنے قریش بے دست وپا ہو گئے اور اس افتادناگھانی سے نجات پانے کے لئے انہوںنے چہو ٹے بڑے گروہ تشکیل دینا شروع کر دئے۔

 آپ کے اس تبلیغی دور کے دوران اشراف قریش کے نمائندے کبھی مال و متاع کی لالچ دے کر تو کبھی مصائب و آلام سے ڈرا دھمکا کر آپکی آٓواز کو دبانے اور آپ کوآپکے بلند و بالا مقا صد سے باز رکھنے کی سعی لا حاصل کرتے رہے