• صارفین کی تعداد :
  • 5272
  • 12/31/2007
  • تاريخ :

دعوت جھاد 

دشت گل

یہ با ت مسلم ہے کہ تمام تو ار یخ ا س بات پر متفق ھیں کہ بیعت عقبہ (ھجرت سے دو تین سال قبل ) تک پیغمبر اکر م صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی جانب سے ذرہ برابر بھی جنگی ارا دے کا اظھا ر نھیں کیا تھا ۔ اسلام کی قدرت مند ی اور پختگی نے آھستہ آھستہ قر یش کو بے حد پر یشا ن کر دیا جسکے نتیجے میں مسلمانوں پر عر صۂ حیات تنگ کیا جا نے لگا ۔ یھاں تک کہ نو بت جنگ تک پہو نچ گئی ۔ تاریخ نے اس صورت حال کو اس طرح بیان کیا ہے ۔

  پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بیعت عقبہ سے پھلے تک جنگ کی اجازت نھیں حا صل ہو ئی تھی ۔ بیعت عقبہ تک آپ نے صبر و شکیبا ئی کو اپنا شعا ر اور لو گوں کے لئے دعا ؤ ں کو اپنا و ظیفہ قرا ر دیا تھا ۔ دوسر ی جا نب قر یش نے مسلما نوں کو نیست ونابود کر نے اور مظالم ڈھا نے میں کو ئی د قیقہ نھیں اٹھا رکھا تھا ۔ انہوں نے بعض  مسلما نوں کو انکے دین سے بر گشتہ کر دیا تھا ، بعض کو جلا وطن اور بعض کو مصائب وآلام میں مبتلا کر رکھا تھا ۔ یھا ں تک کہ جنگ کے سلسلے میں پھلی آیت نا زل ہو ئی :

 ”اذن للذین  یقاتلون با نھم ظلمو اوان اللہ علی نصر ھم لقد یرالذین  اخرجو امن دیارھم بغیر حق000“ (سورۂ حج /39۔ 40)

 (جن لو گو ں سے مسلسل جنگ کی جا رھی ہے انھیں ان کی مظلو میت کی بنا پر جھا د کی اجا زت دیدی گئی ہے اور یقینا اللہ ان کی مدد پر قدرت رکھنے وا لا ہے ۔یہ وہ لو گ ھیں جو اپنے گھر وں سے بلا کسی حق کے نکا ل دئے گئے ھیں ۔)

 

 پھر دوسری آیت نا زل ہو ئی :

 ”و قا تلو ھم حتی لا تکو ن فتنة“

 (انکے ساتھ جنگ کرو(تاکہ مسلمانوںکوانکے دین سے نہ پلٹائیں) یا تاکہ فسادکا خاتمہ ہوجائے۔)

ان امور کی جانب توجہ کرنے سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ رھنمائے اسلام نے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے جنگ کا سھارا نھیں لیا بلکہ جنگ کی بنیاد ڈالنے والے کفار و مشرکین ھیں۔ اس موقع پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنا اور اپنے ساتھیوں کا دفاع کرنے پر مجبور تہے۔ چنانچہ پھلی بار جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جنگ کے سلسلے میں اقدام فرمایا تو حملہ نھیں کیا بلکہ صرف اور صرف دفاع کیا۔ اگر اسلام کی تمام جنگوں کا بہ نظر غائر جائزہ لیا جائے تو ھر جگہ دفاعی جھتیں ھی نظر آتی ھیں حتیٰ کہ یہود و نصاریٰ کی پیمان شکنی کے موقع پر بھی چونکہ اس بات کا خوف تھا کہ وہ اسلام کے خلاف علم جنگ بلند کردیںگے، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حملے میں ابتدا فرمائی ہے۔ اسلام کے تمام جھادوں کی تحقیق کے لئے ضروری ہے کہ ان آیات کا مطالعہ کیا جائے تو جھاد کے سلسلے میں نازل ہوئی ھیں۔ لھٰذا یھاں پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیات طیبہ میں واقع ہونے والے جھادوں سے متعلق نازل ہونے والی آیات کو بطور اختصاص پیش کیا جارھا ہے۔

(1)۔ ”اذن للذین یقاتلون بانھم ظلموا و ان اللّٰہ علیٰ نصرھم لقدیر، الذین اخرجوا  من دیارھم بغیر حق۔۔۔“ (سورئہ حج/39۔40)

(جن لوگوں سے مسلسل جنگ کی جارھی ہے انھیں ان کی مظلومیت کی بنا پر جھاد کی اجازت دیدی گئی ہے اور یقینا اللہ ان کی مدد پر قدرت رکھنے والا ہے۔ یہ وہ لوگ ھیں جو اپنے گھروں سے بلا کسی حق کے نکال دئے گئے ھیں علاوہ اس کے کہ وہ یہ کھتے ھیں کہ ھمارا پروردگار اللہ ہے اور اگر خدا بعض لوگوں کو بعض کے ذریعے نہ روکتا ہوتا تو تمام گرجے اور یہودیوں کے عبادت خانے اور مسیحیوں کے عبادت خانے اور مسجدیں سب منھدم کر دی جاتیں  اور اللہ اپنے مددگاروں کی یقینا مدد کرے گا کہ وہ یقینا صاحب قوت بھی ہے اور صاحب عزت بھی ہے۔)

(2)۔ ”و قاتلوھم حتیٰ لا تکون فتنة“

(انکے ساتھ جنگ کرو تاکہ مسلمانوں کو انکے دین نہ پلٹائیں یا تاکہ فساد کا خاتمہ ہو جائے۔)

(3)۔”انما ینھاکم اللّٰہ عن الذین قاتلوکم فی الدین واخرجوکم من دیارکم وظاھرواعلی اخراجکم ۔۔۔۔“ (ممتحنہ /9)

 (وہ تمھیں صرف ان لوگوںسے روکتا ہے جنہوں نے تم سے دین میں جنگ کی ہے اور تمھیں وطن سے نکال باھر کیا ہے اور تمھارے نکالنے پر دشمنوں کی مدد کی ہے کہ ان سے دوستی کرو اور جو ان سے دوستی کرے گا وہ یقینا ظالم ہو گا ۔)

 (4)۔”کیف وان یظھر واعلیکم لایرقبوافیکم الّا ولاذمة یرضونکم بافواھھم و تابی قلوبھم واکثرھم فاسقون اشتروابآیات اللّٰہ ثمنا قلیلا فصدواعن سبیلہ انھم ساء ماکانو ایعملون لایرقبون فی موٴمن الّاولاذمة واولئک ھم المعتدون  فان تابو ا و اقاموا الصلٰوة وآتواالزکاة فاخوانکم فی الدین  ونفصل الآیات لقوم یعلمون وان نکثو ا ایمانھم من بعدعھد ھم وطعنوا فی دینکم فقاتلو اائمة الکفر انھم لا ایمان لھم لعلھم ینتہونالا تقاتلون قوما نکثو اا یمانھم وھموا باخراج الرسول وھم بدءُ وکم اول مرة اٴ تخشونھم فاللّہ احق ان تخشوہ ان کنتم موٴمنین“(توبہ/ 8۔13)

 

گل مینا

(ان کے سا تہ کس طرح  رعایت کی جائے جب کہ یہ تم پر غالب آجائیں تو نہ کسی ھمسایگی اورقرابت کی نگرانی کریںگے اور نہ کوئی عھد وپیمان دیکھیںگے ۔ یہ تو صرف زبانی تم کو خوش کررہے ھیں ورنہ انکا دل قطعی منکر ہے اور ان کی اکثریت فاسق اور بد عھد ہے ۔ انہوں نے آیات الٰھیہ کے بدلے بہت تہوڑی منفعت کو لے لیا ہے اور اب راہ خدا سے روک رہے ھیں ۔ یہ بہت برا کام کررہے ھیں ۔یہ کسی مومن کے بارے میں کسی قرابت یا قول و قرار کی پرواہ نھیں کرتے ھیں ۔ یہ صرف زیادتی کرنے والے لوگ ھیں ۔ پھر بھی اگر یہ توبہ کرلیں اور نماز قائم کریںاور زکوٰة ادا کریں تو دین میں تمھارے بھائی ھیں اور ھم صاحبان علم کے لئے اپنی آیات کو تفصیل کے ساتھ بیان کرتے رھتے ھیں اور اگر یہ عھد کے بعد بھی اپنی قسموں کو توڑ دیں اور دین میں طعنہ زنی کریں تو کفر کے سر براہوں سے کھل کر جھاد کرو کہ ان کی قسموں کا کوئی اعتبار نھیں ہے شاید یہ اسی طرح اپنی حرکتوں سے باز آجائیں۔ کیا تم اس قوم سے جھاد نہ کرو گے جس نے اپنے عھدو پیمان کو توڑ دیا اور رسول کو وطن سے نکال دینے کا ارادہ بھی کرلیاہے اور تمھارے مقابلے میں مظالم کی پھل بھی کی ہے۔ کیا تم ان سے ڈرتے ہوتو خدازیادہ حق دار ہے کے اس کا خوف پیدا کرو اگر تم صاحب ایمان ہو۔)

(5)۔”و اذان من الله ورسولہ الی الناس یوم الحج الاکبران اللہ بری ء من المشرکین ورسولہ فان تبتم فہوخیر لکم وان تولیتم فاعلمو اانکم غیر معجزی اللہ وبشرالذین کفرو ا بعذاب الیم الا الذین عٰھدتم من المشرکین ثم لم ینقصوکم شیئا  ولم یظا ھر واعلیکم احدا فاتمواالیھم عھدھم الی مدتھم ان الله یحب المتقینفاذاانسلخ الاشھر الحرم فاقتلو االمشرکین حیث وجدتموھم وخذوھم واحصروھم واقعد والھم کل مرصد فان تابو اواقامواالصلوة وآتواالزکاةفخلواسبیلھم ان اللّٰہ غفوررحیم “(توبہ 3۔4۔5)

( اور اللہ ورسول کی طرف سے حج اکبر کے دن انسانوں کے لئے اعلان عام ہے کہ اللہ اور اس کے رسول دونوں مشرکین سے بیزار ھیں لھذا اگر تم تو بہ کر لو گے توتمھا رے حق میں بہتر ہے اور اگر انحراف کیا تو یا د رکھنا کہ تم اللہ کو عا جز نھیں کر سکتے ہو اورپیغمبر آپ کا فر وں کو درد ناک عذا ب کی بشا رت دے دیجئے ۔ علا وہ ان افرا د کے جن سے تم مسلمانو ں نے معا ھدہ کر رکھا ہے اور انہوں نے کو ئی کو تا ھی نھیں کی ہے اور تمھا رے خلا ف ایک دوسر ے کی مدد نھیں کی ہے تو چا ر مھینے کے بجا ئے جو مدت طے کی ہے اس وقت تک عھد کو پو را کر و کہ خدا تقوی اختیا ر کر نے وا لو ں کو دوست رکھتا ہے ۔ پھر جب یہ محتر م مھینے گز ر جا ئیں تو کفار کو جھا ں پا ؤ قتل کر دواور گر فت میں لے لو اور قید کر دو اور ھر را ستہ اور گز رگا ہ پر ان کے لئے بیٹہ جا ؤ اور راستہ تنگ کردو ۔ پھر اگر تو بہ کر لیں اور نماز قا ئم کر یں اور زکوٰ ة ادا کر یں تو ان کا راستہ چہو ڑ دو کہ خدا بڑا بخشنے والا اور مھر بان ہے ۔ )

 (6) ۔” و قا تلو اا لمشر کین کافة کما یقا تلو نکم کا فة “(توبہ/ 36)

 (اور تمام مشر کین سے اسی طر ح جھا د کرو جس طرح وہ تم سے جنگ کر تے ھیں ۔)

 (7) ۔” و قا تلو افی سبیل اللّہ الذین یقا تلو نکم ولا تعتدواان اللّٰہ لا یحب المعتدین وا قتلو ھم حیث ثقفتمو ھم واخرجو ھم من حیث اخرجو کم والفتنة اشد من القتل ولاتقاتلوھم   عند المسجد الحرام حتی یقا تلو کم فیہ فا ن قا تلو کم فا قتلو ھم کذا لک جزاء الکافرین  فا ن انتہوافان اللّٰہ غفوررحیم  و قا تلو ھم حتی لا تکون فتنۃ ویکون الذین للّہ فا ن انتہو افلا عدو ان الا علی الظالمین“(بقرة /190۔191۔192۔193)

 (جولوگ تم سے جنگ کرتے ھیں تم بھی ان سے راہ خدا میں جھاد کرو اور زیادتی نہ کرو کہ خدا زیادتی کرنے والوں کو دوست نھیں رکھتا اور مشرکین کو جھاں پاوٴقتل کردو اور جس طرح  انہوں نے تم کو آوارہ وطن کردیا ہے تم بھی انھیں نکال باھر کردو اور فتنہ پردازی تو قتل سے بھی بد تر ہے اور ان سے مسجدالحرام کے پاس اس وقت تک جنگ نہ کرو جب تک وہ تم سے جنگ نہ کریں ۔اس کے بعد جنگ چھیڑدیں تو تم بھی چپ نہ بیٹہو اور جنگ کرو کہ یھی کافرین کی سزا ہے ۔ پھر اگر جنگ سے بعض آجائیں تو خدا بخشنے والا اور مھربان ہے اور ان سے اس وقت تک جنگ جاری رکہو جب تک سارا فتنہ ختم نہ ہو جائے اور دین صرف اللہ کا نہ رہ جائے پھر اگر وہ لوگ باز آجائیں تو ظالمین  کے علاوہ کسی پر زیادتی جائز نھیں ہے ۔ )

(8)۔”ود کثیر من اھل ا لکتاب لو یر دونکم من بعد ایمانکم کفارا“(بقرة /109 )

 (بہت سے اھل کتاب یہ چاھتے ھیں کہ تمھیں بھی ایمان کے بعد کافر بنالیں ۔)

 مذکورہ آیات اسلام میں جھاد کی اھمیت کو واضح اور اس کے مفہوم کو روشن کرسکتی ھیں ۔ ان آیات کا اکثر حصہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم اور آپکے پیروکاروں کو اپنا اور حریم اسلامی کا دفا ع کر نے پر ما مو ر کر نے کیلئے خدا وند عالم کی جا نب سے نا زل کیا گیا ہے ۔ آخر الذ کر آیت ، اھل کتاب کے مسلمانوں کے سا تہ بر تا ؤ کی وضا حت کر رھی ہے کہ یہ لو گ اسلام کے ار تقا ء کے لئے سد راہ ھیں ، حتی کہ مسلمانوں کو انکے منتخبہ راستے سے دگرگوں کرنے کے لئے سعی و کو شش میں مصروف ھیں۔سورئہ  تو بہ کی بعض آیات جن کو نقل کیا گیا ہے ، وا ضح طور پر بیان کر رھی ھیں کہ پیمان کے ختم ہو نے کے بعد مشر کین کے ساتھ کو ئی رور عایت نہ کرو اور انکے ساتھ جنگ کا آ غا ز کردو ۔

 مذکو رہ آیات اور اسی قسم کی دو سری آیات اس بات پر دلا لت کر تی ھیں کہ اسلام نے مشر کین کے لئے صرف دور ا ہو ں کا انتخاب کیا ہے، ایک اسلام اور دوسرے جنگ لیکن رسمی اد یان کے پیر وکا روں کو ایک تیسری راہ کی بھی پیش کش کی ہے اور وہ ہے جز یہ ( ٹیکس ) د یکر اسلامی حکو مت کی پناہ میں ز ندگی بسر کرنا ۔