• صارفین کی تعداد :
  • 3167
  • 12/26/2007
  • تاريخ :

تقيہ سنت رسول (ص) کی روشنی ميں

لاله قرمز

1 - جناب ابوذر (ص) سے مروى ہے كہ حضور كريم (ص) نے فرمايا :'' عنقريب تمہارے اوپر ايسے حاكم مسلط ہوں گے جو نماز كا حليہ بگاڑديں گے_ اگر تم ان كے زمانے ميں رہے تو تم اپنى نماز وقت پر پڑھتے رہو ليكن ان كے ساتھ بھى بطور نافلہ نماز پڑھ ليا كرو ...'' (1) اور اس سے ملتى جلتى ديگر احاديث(2)

2) مسيلمہ كذاب كے پاس دو آدمى لائے گئے اس نے ايك سے كہا :''كياتم جانتے ہو كہ ميں رسول(ص) خدا ہوں''_ اس نے جواب ديا: '' اللہ كے رسول(ص) تو حضرت محمد(ص) ہيں ''_مسيلمہ نے اسے قتل كرديا پھر دوسرے سے كہا تو اس نے جواب ديا:'' تم اور محمد(ص) دونوں اللہ كے نبى ہو ''_يہ سن كر مسليمہ نے اسے چھوڑ ديا_ يہ بات رسول اللہ صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم تك پہنچى تو آپ(ص) نے فرمايا:'' پہلا شخص اپنے عزم ويقين پر قائم رہا ليكن دوسرے نے اس راہ كو اختيار كيا جس كى خدا نے اجازت دى ہے پس اس پر كوئي عقاب نہيں''_ (3)

3) سہمى نے رسول(ص) اللہ سے روايت كى ہے ''لا دين لمن لا ثقة لہ'' (4)بظاہر يہاں لفظ ثقہ كى بجائے لفظ تقيہ مناسب اور درست ہے يعنى جو تقيہ نہيں كرتا وہ دين نہيں ركھتا جيساكہ شيعوں كى اہل بيت (ع) سے مروى روايات اس امر پر دلالت كرتى ہيں(5)_

4) حضرت عمار ياسر كا معروف واقعہ اور حضور(ص) كا عمار سے فرمانا كہ اگر وہ دوبارہ ايسا كريں تو تم بھى گذشتہ عمل كا تكرار كرو يہ بات احاديث وتفسير كى مختلف كتابوں ميں مذكور ہے اور اسى مناسبت سے آيت '' من كفر باللہ بعد ايمانہ ، الاّ من اكرہ و قلبہ مطمئن بالايمان''(6)نازل ہوئي تھي_

5) نبى اكرم(ص) كا بذات خود تقيہ فرمانا كيونكہ آپ تين يا پانچ سالوں تك خفيہ تبليغ كرتے رہے جو سب كے نزديك مسلمہ اور اجماعى ہے اور كسى كيلئے شك كى گنجائشے نہيں اگر چہ كہ ہم نے وہاں بتايا تھا كہ حقيقت امر صرف يہى نہيں تھا_

6) اسلام كفار كو بعض حالات ميں اجازت ديتا ہے كہ وہ اسلام قبول كريں يا جزيہ ديں يا قتل ہونے كيلئے تيار ہوجائيں_ واضح ہے كہ يہ بھى تقيہ كى ترغيب ہے كيونكہ اس قسم كے حالات ميں قبول اسلام جان كى حفاظت كيلئے ہى ہوسكتا ہے پختہ عقيدہ كى بناپر نہيں_اسلامى معاشرے ميں اس اميد كے ساتھ منافقين كو رہنے كى اجازت دينا اور ان كے ساتھ اسلامى بھائي چارے كے مطابق سلوك كرنا كہ وہ اسلام كے ساتھ تعاون كريں گے اور ان كے دلوں ميں ايمان مستحكم ہوجائے گا بھى اسى طرح ہے _

7) فتح خيبر كے موقع پر حجاج بن علاط نے نبى كريم (ص) سے عرض كيا :'' مكہ ميں ميرا كچھ مال اور رشتہ دار ہيں اور ميں انہيں وہاں سے لے آنا چاہتا ہوں _ پس اگر مجھے آپ(ص) كو برا بھلا كہنا بھى پڑا تو كيا آپ(ص) كى اجازت ہوگي؟'' تو رسول (ص) خدانے اجازت دے دى كہ جو كچھ كہے كہہ سكتا ہے(7)

--------------------------------------------------------------------------------

1_ مسند احمد ج 5 ص 159_

2_ مسند احمد ج 5 ص 160، 168_

3_ محاضرات الادباء ، راغب اصفہانى ج 4ص 408اور 409 ، احكام القرآن جصاص ج2 ص 10 اور سعد السعود ص 137_

4_ تاريخ جرجان ص 201 _

5_ ملاحظہ ہو : كافى (اصول) ج2 ص 217 مطبوعہ آخندي، وسائل الشيعہ ج11 ص 465اور ميزان الحكمت ج10 ص 666 و 667_

6_ سورہ نمل آيت 106اور ملاحظہ ہو فتح البارى ج12 ص 277 و 278_

7_ دراسات فى الكافى و الصحيح ص 338 از سيرہ حلبيہ_