• صارفین کی تعداد :
  • 3251
  • 12/25/2007
  • تاريخ :

ابوطالب عقلمندى اور ايمان كا پيكر 

رز قرمز

عہد نامے كى منسوخي

تقريبا تين سال بعد رسول(ص) خدا نے اپنے چچا حضرت ابوطالب كو بتايا كہ ديمك نے مشركين كے عہدنامے ميں ظلم اور قطع رحمى سے متعلق الفاظ كو كھاليا ہے اور سوائے اسماء الہى كے كوئي چيز باقى نہيں رہي_ ايك اور روايت كے مطابق ديمك نے الله كے تمام ناموں كو كھاليا ليكن ظلم وشر اور قطع رحمى سے متعلق حصّے كو چھوڑ ديا_ (1)

چنانچہ حضرت ابوطالب بنى ہاشم كے ہمراہ اس درے سے خارج ہوئے اور شہر مكہ لوٹ آئے_

يہ ديكھ كر مشركين نے كہا كہ بھوك نے ان كو نكلنے پر مجبور كرديا ہے_ قريش نے كہا:"" اے ابوطالب اب وقت آگيا ہے كہ اپنى قوم كے ساتھ مصالحت كرلو"" _حضرت ابوطالب نے فرمايا:"" ميں تمہارے پاس ايك اچھى تجويز ليكر آياہوں ،اپنا عہدنامہ منگواؤ شايد اس ميں ہمارے اور تمہارے درميان صلح كى كوئي راہ موجود ہو""_ قريش اسے لے آئے اور ديكھا كہ اس پر ان كى مہريں اب بھى موجود ہيں حضرت ابوطالب نے كہا:"" كيا اس معاہدہ پر تمہيں كوئي اعتراض ہے؟"" بولے نہيں_

ابوطالب(ع) نے كہا:"" ميرے بھتيجے نے (جس نے مجھ سے كبھى جھوٹ نہيں بولا) مجھے خبر دى ہے كہ خدا كے

حكم سے ديمك نے اس عہدنامے سے گناہ اور قطع رحمى سے مربوط الفاظ كو كھا ليا ہے اور فقط الله كے ناموں كو باقى چھوڑا ہے_ اگر اس كى بات صحيح نكلے تو تمہيں ہمارے اوپر ظلم كرنے سے دست بردار ہونا چاہيئے اور اگر جھوٹ نكلے تو ہم اسے تمہارے حوالے كرديں گے تاكہ تم اسے قتل كرسكو""_

 

يہ سن كر لوگ پكار اٹھے:"" اے ابوطالب بتحقيق آپ نے ہمارے ساتھ انصاف والى بات كي""_ اس كے بعد وہ عہدنامہ كولائے تو اسے ويساہى پايا جيسارسول(ص) خدا نے خبر دى تھي_ يہ ديكھ كر مسلمانوں نے تكبير كى آواز بلند كى اور كفار كے چہروں كارنگ فق ہوگيا_حضرت ابوطالب بولے:"" ديكھ ليا كہ ہم ميں سے كون ساحر يا كاہن كہلانے كا حقدار ہے؟""

 

اس دن ان كے بہت سے افراد نے اسلام قبول كرليا ليكن مشركين پھر بھى قانع نہ ہوئے اور انہوں نے عہدنامے كے مضمون كے مطابق سابقہ روش جارى ركھي،يہاں تك كہ بعض مشركين اس عہدنامے كو توڑنے كے درپے ہوئے ان لوگوں ميں ان افراد كا ذكر ہوا ہے_ ہشام بن عمروبن ربيعہ، زہير بن اميہ بن مغيرہ، مطعم بن عدي، ابوالبخترى بن ہشام، زمعۃ بن اسود_

 

يہ سارے حضرات بنى ہاشم اور بنى مطلب سے كوئي نہ كوئي قرابت ركھتے تھے_ ابوجہل نے ان كى مخالفت كي، ليكن انہوں نے اس كى پروا نہ كى چنانچہ وہ عہدنامہ پھاڑ ديا گيا اور اس پر عمل درآمدختم ہوگيا _يوں بنى ہاشم شعب ابوطالب سے نكل آئے_ (2)

 

ابوطالب عقلمندى اور ايمان كا پيكر

ہجرت سے قبل كے واقعات كا مطالعہ كرنے والا شخص دسيوں مقامات پر حضرت ابوطالب كى ہوشيارى وتجربہ كارى كا مشاہدہ كرتا ہے

بہترين مثال مذكورہ بالا واقعہ ہے_ ہم نے مشاہدہ كياكہ حضرت ابوطالب نے كفار سے عہدنامہ لانے كا مطالبہ كيا اورساتھ ہى يہ اشارہ بھى كيا كہ شايد اس ميں صلح كيلئے كوئي راہ نكل آئے_

 

ايسا كہنے كى وجہ يہ تھى كہ وہ عہدنامہ سب لوگوں كے سامنے كھولاجائے تاكہ سب اسے ديكھ ليں اور آئندہ پيش آنے والے عظيم واقعے كيلئے آمادہ ہوسكيں _نيز ايك منطقى حل پيش كرنے كيلئے فضا ہموار ہوجائے تاكہ بعد ميں قريش كيلئے اس كو قبول كرنا اور اس پر قائم رہنا شاق نہ ہو، بالخصوص اس صورت ميں جب وہ ان سے كوئي وعدہ لينے يا ان كو عرب معاشرے ميں رائج اخلاقى اقدار كے مطابق قول و قرار، شرافت و نجابت اور احترام ذات وغيرہ كے پابند بنانے ميں كامياب ہوتے_ انہيں اس ميں بڑى حدتك كاميابى ہوئي يہاں تك كہ لوگ پكار اٹھے ""اے ابوطالب تو نے ہمارے ساتھ منصفانہ بات كى ہے _""

 

مذكورہ عبارات سے ايك اور حقيقت كى نشاندہى بھى ہوتى ہے جو بجائے خود اہميت اور نتائج كى حامل ہے اور جو يہ بتاتى ہے كہ حضرت ابوطالب كو رسول(ص) الله كى سچائي، آپ(ص) كے مشن كى درستى اور آپ(ص) كے پيغام كى حقانيت پركس قدر اعتماد تھا اور يہ كہ جب دوسرے لوگ حضور اكرم(ص) كو ساحر اور كاہن كہہ كر پكارتے تھے تو انہيں دكھ ہوتا تھا_ ان كى نظر ميں يہ ايك كھلم كھلا بہتان تھا_ اسى لئے انہوں نے اس فرصت كو غنيمت سمجھا تاكہ اس سے فائدہ اٹھاكر كفار كے خيالات و نظريات كو باطل قرار ديں چنانچہ انہوں نے كہا:"" كيا تم ديكھتے نہيں ہوكہ ہم ميں سے كون ساحر يا كاہن كہلانے كا زيادہ حقدار ہے؟ ""اس كا نتيجہ يہ ہوا كہ عہد نامے والا معجزہ ديكھنے كے بعد مكہ كے بہت سے لوگوں نے اسلام قبول كرليا

حوالہ جات:

1_ كبھى كہا جاتا ہے كہ معاہدے كى منسوخى تك قريش كا اپنى عداوت پر باقى رہنا اس بات كى دليل ہے كہ ديمك نے صرف الله كے نام كو مٹايا تھا اور قطع رحمى كى مانند ديگر مواد كو باقى ركھا تھا ليكن اس كا يہ جواب ديا گيا ہے كہ ديمك كا خدا كے نام كو كھا جانا بہت بعيد بات ہے شايد مشركين عہدنامے كے محو ہوچكنے كے باوجود بھى اس كے مضمون پر عمل كرتے رہے ہوں اور يہ بھى ممكن ہے كہ انہوں نے اسے دوبارہ لكھا ہو_ اس پر يہ اشكال كيا گيا ہے كہ ديمك نے خدا كا نام اس كى حرمت باقى ركھنے كيلئے چاٹا ہو تاكہ اس ظالمانہ عہدنامے ميں اس كا پاك نام باقى نہ رہے_ اور يہ اظہار حق كيلئے مطلوب ايك مثبت معجزہ تھا_ اس سے كسى قسم كى اہانت كا پہلو نہيں نكلتا_

2_ اس بارے ميں ملاحظہ ہو : السيرۃ النبويہ ( ابن كثير) ج2 ص 44 ، السيرۃ النبويہ (ابن ہشام) ج 2 ص 16 ، دلائل النبوۃ مطبوعہ دار الكتب ج 2 ص 312، الكامل فى التاريخ ج 2 ص 88 السيرۃ النبويہ (دحلان) ج1ص 137 و 138 مطبوعہ دار المعرفۃ ، تاريخ يعقوبى ج 2 ص 31 اور البدايۃ والنہايۃ ج3 ص 85 و 86_