• صارفین کی تعداد :
  • 3024
  • 12/25/2007
  • تاريخ :

حضرت ابوطالب(ع) كى پاليسياں

رز زرد

شيخ الابطح حضرت ابوطالب كى ذات وہ ذات تھى جس نے اپنى زبان اور ہاتھ سے رسول(ص) خدا كى حمايت و نصرت اور آنحضرت(ص) كے بچپن سے ليكر اب تك آپ(ص) كى نگرانى كى تھي_ حضرت ابوطالب(ع) نے حضور(ص) كى حمايت و نصرت اور تبليغ دين كے دائرے كو وسعت دينے كيلئے زبردست مصائب اور عظيم مشكلات كا مقابلہ كيا_

 

يہى حضرت ابوطالب تھے جو حضور(ص) كو اپنى تمام اولاد پر ترجيح ديتے تھے_ جب بُصرى (شام) ميں ايك يہودى بحيرا نے انہيں خبر دى كہ حضرت محمد(ص) كو يہوديوں سے خطرہ ہے تو وہ انہيں بنفس نفيس مكہ واپس لے آئے _يہ حضرت ابوطالب ہى تھے جو قريش كى عداوت مول لينے، بھوك اور فقر كو جھيلنے ،نيز معاشرتى بائيكاٹ كا مقابلہ كرنے كيلئے آمادہ ہوئے_ انہوں نے شعب ابوطالب ميں بچوں كو بھوك سے بلبلاتے ديكھا ،بلكہ درختوں كے پتے كھانے پر بھى مجبورہوئے _انہوں نے صاف صاف بتاديا تھا كہ وہ(ہر خشك و تر كو برباد كردينے والي) ايك تباہ كن جنگ كيلئے تو تيار ہيں ليكن حضرت محمد(ص) كو كفار كے حوالے كرنے يا آپ(ص) كو تبليغ دين سے روكنے يا كم ازكم تبليغ چھوڑنے كا مطالبہ تك كرنے كيلئے آمادہ نہيں _يہ حضرت ابوطالب(ع) ہى تھے جنہوں نے قريش كے فرعون اور ظالم سرداروں سے ٹكرلي_

جب رسول(ص) اللہ كے سر پرقريش نے اونٹ كى اوجھڑى ڈالى تھى تو انہوں نے تلوار سونت لى اور حضرت حمزہ كو حكم ديا كہ اسے ہٹائيں پھر قريش كى طرف بڑھے انہوں نے جناب ابوطالب (ع) كے چہرے پرخطرے كى علامات ديكھيں_ پھر انہوں نے حمزہ كو حكم ديا كہ وہ اس گندگى كو ان كے چہروں اور داڑھيوں پر ايك ايك كر كے مل ديں چنانچہ حضرت حمزہ نے ايسا ہى كيا_ (1)

 

ايك اور روايت كے مطابق حضرت ابوطالب نے اپنے افراد كو بلايا اور ان كو مسلح ہونے كا حكم ديا جب مشركين نے انہيں ديكھا تو وہاں سے كھسكنے كا ارادہ كيا_ انہوں نے ان سے كہا كعبہ كى قسم تم ميں سے جو بھى اٹھے گا تلوار سے اس كى خبر لوں گا _اس كے بعد نبى كريم(ص) كى بے ادبى كرنے والے كى ناك پر مار كر اسےخون آلود كرديا _(يہ شخص ابن زبعرى تھا )_نيز اوجھڑى كى گندگى اور خون كو ان سب كى داڑھيوں پر مل ديا_ (2)

ادھر شعب ابوطالب ميں بھى وہى تھے جو رسول(ص) خدا كى بنفس نفيس حفاظت كرتے تھے_ آپ(ص) كو ايك جگہ سے دوسرى جگہ منتقل كرتے تھے اور اپنے نور چشم علي(ع) كو رسول(ص) اللہ كى جگہ سلاتے تھے تاكہ اگر كوئي حادثہ پيش آجائے تو حضور(ص) محفوظ رہيں،چاہے على (ع) كو گزند پہنچے (3) _ وہ پيغمبر(ص) خدا كا دفاع كرنے كيلئے قريش كے ساتھ كبھى نرمى اور كبھى سختى برتتے تھے نيز جذبات كو زندہ كرنے مصائب كو دور كرنے خداكے نام كو سربلند كرنے اس كے دين كو پھيلانے اور مسلمانوں كى حمايت كرنے كيلئے سياسى اشعار بھى كہتے تھے_

ايك دفعہ انہوں نے رسول(ص) اللہ كو كہيں نہ پايا تو بنى ہاشم كو جمع كر كے مسلح كيا اور يہ فيصلہ كيا كہ ان ميں سے ہر ايك كو قريش كے ايك ايك سرغنہ كے پاس بھيجيں تاكہ اگر يہ ثابت ہو كہ حضرت محمد(ص) كو كچھ ہوا ہے تو يہ افراد ان كا كام تمام كرديں_ (4) انہوں نے يہ سب رسول خدا صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم كى حفاظت، اسلام كى حمايت اور دين كى سربلندى كيلئے كيا_

واضح ہے كہ حضرت ابوطالب (ع) كے جملہ كارناموں اور آپ كى عظيم قربانيوں كو بيان كرنے كيلئے طويل وقت اور مستقل كام كى ضرورت ہے _يہاں تو ہم اجمالى اشارے پرہى اكتفا كرتے ہيں ليكن يہ اعتراف كرتے ہيں، كہ ہم ان كا حق ادا نہيں كرسكے_ اس اختصار كى غرض يہ ہے كہ سيرت نبويہ كے ديگر پہلوؤں پر بھى بحث كا موقع مل سكے_

حوالہ جات:

1_ الكافى مطبوعہ مكتبة الصدوق ج1 ص 449 ، منية الراغب ص 75 ، السيرۃ الحلبيۃ ج1 ص 291 و 292 والسيرۃ النبويہ (دحلان، مطبوع حاشيہ سيرہ حلبيہ ) ج1 ص 202 و 208 و 231 اور بحار الانوار ج 18 ص 209_

2_ ملاحظہ ہو: الغدير ج7 ص 388 و 359 و ج 8 ص 3 تا 4 اور ابوطالب مؤمن قريش ص 73 (دونوں كتابوں ميں كئي منابع سے ماخوذ ہے) ثمرات الاوراق ص 285 و 286 ، نزھة المجالس ج 2 ص 122 ، الجامع لاحكام القرآن ج6 ص 405 و 406 اور تاريخ يعقوبى ج 2 ص 24 و 25_

3 _ المناقب ابن شہر آشوب ج 1 ص 64و 65 ،ا سنى المطالب ص 21 ( اس نے على (ع) كا نام ذكر نہيں كيا ) اسى طرح سيرہ حلبيہ ج1 ص 342 اور ملاحظہ ہو: البدايہ والنہايہ ج 3 ص 84، السيرة النبويہ ( ابن كثير ) ج 2 ص 44 ، دلائل النبوة ( بيہقي) مطبوعہ دار الكتب العلميہ ج2 ص 312 ، تاريخ الاسلام ج 2 ص 140 و 141 ، الغدير ج7 ص 363 و 357 و ج8 ص 3 و 4 اور ابوطالب مؤمن قريش ص 194_

4 _تاريخ يعقوبى ج 2 ص 26 ، ابوطالب مؤمن قريش ص 171 ، منية الراغب ص 75 و 76 اور الغدير ج 2 ص 49 و 350 و 351_