• صارفین کی تعداد :
  • 3492
  • 12/25/2007
  • تاريخ :

عھد جاھلیت میں تعلیمی و تمدنی حالت

صحرا

تعلیمی و تمدنی حالت

عھد جاھلیت کے عرب ناخواندہ اور علم کی روشنی سے قطعی بے بھرہ تھے ان کے اس جھل و ناخواندگی کے باعث توھمات و خرافات نے پورے معاشرے پر اپنا سایہ پھیلا رکھا تھا ان کی کثیر آبادی میں گنتی کے لوگ ھی ایسے تھے جو لکھنا اور پڑھنا جانتے تھے۔

 

دور جاھلیت میں عرب تمدن کے نمایاں ترین مظھر حسب و نسب کی پھچان، شعر گوئی اور تقاریر میں خوش بیانی جیسے اوصاف تھے، چنانچہ عیش و عشرت کی محفل ھو خواہ میدان کارزار ھو جھاں بھی جاتے اس میں شعر گوئی یا جادو بیان تقاریر کے ذریعے اپنے قبیلے کی قابل افتخار باتیں ضرور بیان کرتے تھے۔

 

اس میں شک نھیں کہ اسلام سے قبل عربوں میں شجاعت، شیریں بیانی، مھمان نوازی لوگوں کی مدد کرنا اور حریت پسندی جیسی عمدہ خصوصیات و صفات بھی موجود تھیں مگر ان قابل مذمت عادات و اطوار کے مقابل جو ان کے رگ و پے میں سرایت کر چکی تھی ان کی یہ خوبیاں بے حقیقت بن کر رہ گئی تھیں، اس کے علاوہ ان تمام خوبیوں اور ذاتی اوصاف کے محرک انسانی اقدار اور قابل تحسین و ستائش باتیں نہ تھیں۔

 

زمانۂ جاھلیت کے عرب طمع پروری اور مادی چیزوں کا کامل نمونہ تھے، وہ ھر چیز کو مادی مفاد کے زاویئے سے دیکھتے تھے، ان کی اجتماعی تھذیب بے راہ روی، بدکرداری اور قتل و غارتگری جیسے برے افعال پر مبنی تھی اور یھی حیوانی پست صفات ان کی سرشت اور عادات و جبلت کا جز بن گئے تھے۔

 

دور جاھلیت میں عربوں کے درمیان جو تمدن رائج تھا اس میں اخلاق کی توجیہ و تعبیر دوسرے انداز میں کی جاتی تھی، مثال کے طور پر غیرت، مروت، شجاعت کی سب ھی تعریف کرتے تھے مگر شجاعت سے ان کی مراد سفاکی اور دوسروں کا قتل و خون کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ طاقت ھوتی تھی، غیرت کا مفھوم ان کے تمدن میں لڑکیوں کو زندہ دفن کردینا تھا، اور اپنے اس طریقۂ کار سے اپنی غیرت کی نمایاں ترین مثال پیش کرتے تھے، عھد وفا وہ اسی بات کو سمجھتے تھے کہ ان کے قبیلے کے فرد نے جو بھی عھد و پیمان کیا ھے وہ چاھے غلط ھو یا صحیح وہ اس کی حمایت و پاسداری کریں۔

 

توھم پرستی و خرافات کی پیروی

طلوع اسلام کے وقت دنیا کی تمام اقوام کے عقائد میں کم و بیش خرافات اور جن و پری وغیرہ کے قصے شامل تھے، اس زمانے میںیونانی اور ساسانی اقوام کا شمار دنیا کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ اقوام میں ھوتا تھا، چنانچہ انھی کے قصوں اور کھانیوں کا ان پر غلبہ تھا یہ بھی ناقابل انکار حقیقت ھے کہ جو معاشرہ تھذیب و تمدن اور علم کے اعتبار سے جس قدر پسماندہ ھوگا اس میں توھمات و خرافات کا اتنا ھی زیادہ رواج ھوگا جزیرہ نما عرب میں توھمات کا عام رواج تھا ان میں سے بھت سے تاریخ نے اپنے سینے میں محفوظ کررکھے ھیں یھاں بطور مثال چند نمونہ پیش کئے جاتے ھیں:

 

۱۔ ایسی ڈوریوں کو جنھیں کمانوں کی زہ بنانے کے کام میں لایا جاتا تھا لوگ اونٹوں اور گھوڑوں کی گردنوں نیز سروں پر لٹکا دیا کرتے تھے، ان کا یہ عقیدہ تھا کہ ایسے ٹوٹکوں سے ان کے جانور بھوت پریت کے اثر سے بچے رھتے ھیں۔ اور انھیں کسی کی بری نظر بھی نھیں لگتی۔ اسی طرح جب دشمن حملہ کرنے کے بعد لوٹ مار کرتا ھے تو ایسے ٹوٹکوں کی وجہ سے ان جانوروں پر ذرا بھی آنچ نھیں آتی۔

 

۲۔ خشک سالی کے زمانے میں بارش لانے کی غرض سے جزیرہ نما عرب کے بوڑھے اور کاھن لوگ ”سلع“ درخت جس کا پھل مزے میں کڑوا ھوتا ھے اور ”عشر“ نامی پیڑ (جس کی لکڑی جلدی جل جاتی ھے) گایوں کی دموں اور پیروں میں باندہ دیتے اور انھیں پھاڑوں کی چوٹیوں تک ھانک کر لے جاتے۔ اس کے بعد وہ ان لکڑیوں میں آگ لگا دیتے۔ آگ کے شعلوں کی تاب نہ لاکر ان کی گائیں ادھر ادھر بھاگنے لگتیں اور سر مار مار کر ڈنکارنا شروع کردیتیں۔ ان کے خیال میں ان گایوں کے ڈنکارنے اور سر مارنے سے پانی برسنے لگتا تھا، ان کا یہ بھی گمان تھا کہ جب ورشا کی دیوی یا جل دیوتا ان گایوں کو تڑپتا ھوا دیکھیں گے تو ان کی پاکیزگی اور پوترنا کو دھیان میں رکہ کر بادلوں کو جلد برسنے کے لئے بھیج دیں گے۔

 

۳۔ وہ مردوں کی قبر کے پاس اونٹ قربان کرتے اور اسے ایک گڑھے میں ڈال دیتے ان کا عقیدہ تھا کہ ان کا یہ اقدام ھے کہ صاحب قبر عزت و احترام کے ساتھ اونٹ پر سوار میدان حشر میں نمایاں ھوگا۔

 

عھد جاھلیت میں عورتوں کا مرتبہ

دور جاھلیت کے عرب عورتوں کی قدر و منزلت کے ذرہ برابر بھی قائل نہ تھے وہ ھر قسم کے انفرادی و اجتماعی حقوق سے محروم تھیں، اس عھد جاھلیت کے نظام میں عورت صرف ورثے ھی سے محروم نھیں رکھی جاتی تھی بلکہ اس کا شمار اپنے باپ، شوھر یا بیٹے کی جائداد میں ھوتا تھا، چنانچہ مال و جائداد کی طرح اسے بھی ورثے اور ترکے میں تقسیم کردیا جاتا تھا۔

 

عرب قحط سالی کے خوف یا اس خیال سے کہ لڑکیوں کا وجود ان کی ذات کے لئے باعث تنگ و عار ھے انھیں پیدا ھوتے ھی زمین میں گاڑ دیتے تھے۔

 

اپنی معصوم لڑکیوں سے انھوں نے جو ناشائستہ و ناروا سلوک اختیار کر رکھا تھا اس کی مذمت کرتے ھوئے قرآن مجید فرماتا ھے: و اذا بشر احدھم بالانثیٰ ظل وجھہ مسوداً و ھو کظیم یتواریٰ من القوم من سوء ما بشر بہ ایمسکہ علیٰ ھون ام یدسہ فی التراب۔ (جب ان میں سے کسی کو بیٹی کے پیدا ھونے کی خوش خبری دی جاتی ھے تو اس کا چھرہ سیاہ پڑ جاتا ھے اور وہ بس خون کا گھونٹ پی کر رہ جاتا ھے۔ لوگوں سے منہ چھپاتا پھرتا ھے کہ بری خبر کے بعد کیا کسی کو منہ دکھائے۔ سوچتا ھے کہ ذلت کے ساتھ بیٹی کو  لئے رھے یا مٹی میں دبا دے۔)

 

دوسری آیت میں بھی کلام اللہ انھیں اس ناشائستہ فعل اور انسانیت سوز حرکت کے بدلے خداوند تعالیٰ کی بارگاہ میں جواب دہ قرار دیتا، چنانچہ ارشاد ھے:

 و اذا الموء دة سئلت بایّ ذنبٍ قتلت۔

 (اور جب زندہ گاڑی ھوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس قصور میں ماری گئی۔)

 

سب سے زیادہ افسوس ناک بات یہ تھی کہ ان کے درمیان شادی بیاہ کی ایسی رسومات رائج تھیں کہ جن کی کوئی محکم اصل و بنیاد نہ تھی، وہ اپنی زوجہ کے لئے کسی معین حد کے قائل نہ تھے مھر کی رقم ادا کرنے کی ذمہ داری سے سبکدوش ھونے کے لئے وہ انھیں آزاد کردیتے۔ کبھی وہ اپنی زوجہ پر بے عصمت ھونے کا الزام لگاتے تاکہ یہ بھانہ بنا کر مھر کی رقم ادا کرنے سے بچ جائیں، ان کا باپ اگر کسی بیوی کو طلاق دے دیتا، یا خود مر جاتا تو اس کی بیویوں سے شادی کرلینا ان کے لئے عار نہ تھا۔