• صارفین کی تعداد :
  • 3612
  • 12/19/2007
  • تاريخ :

حاسد نا کامی کی آگ میں جلتا ھے

برگ پاییزی

زندگی کے میدان میں درخشاں کامیابی و ترقی کا راز لوگوں کے دلوں میں گھر بنا لیتا ھے ، جو شخص اپنی لیاقت و صلاحیت اور اپنے بلند صفات کے ذریعے لوگوں کے دلوں پر حکومت کر سکتا ھو وہ معاشرے کی بے پناہ تعاون و مدد کے سھارے ترقی کی اعلیٰ منزل تک پھونچ سکتا ھے اور کلید کامیابی کا مالک بن سکتا ھے ۔ نیکو کار اور پاک سرشت لوگ معاشرے میں روشن چراغ کی طرح ھوتے ھیں جو ترقی کرنے کے بعد لوگوں کے افکار کی قیادت کرتے ھیں اور ان کے اخلاق پر بھی اثر انداز ھوتے ھیں ۔

 

لیکن حاسد اپنے مکروہ چھرے کے ساتھ اچھے صفات کو فنا کرنے کا سبب بنتا ھے اور معاشرے میں پردہ بن کر حائل ھو جاتا ھے اور معاشرے کے کسی فرد کو بھی اس قابل نھیں چھوڑتا جس کے دل میں اس کے لئے کوئی جگہ ھو ۔ حاسد کو کبھی یہ گوارہ نھیں ھوتا کہ اس کے آسمان زندگی پر ستارھٴ محبت چمکے جس کا نتیجہ یہ ھوتا ھے کہ دوسروں کے تعاون و ھمدردی کی نعمت کو کھو بیٹھتا ھے ۔ بد خواہ اپنی خصلتوں کی وجہ سے اپنے کو ننگا کر دیتا ھے اورعمومی نفرت کو اپنی طرف دعوت دیتا ھے ۔ حسد کے ذریعہ جو اضطراب اور گھرا رنج و غم حاصل کرتا ھے وہ اس کی روح کو شکست و ریز سے دو چار کر دیتا ھے ۔ اور ایک ایسی آگ بھڑ کا دیتا ھے جس کی وجہ سے اسکی روح جلتی رھتی ھے ۔

 

حاسد کی جان جلنے اور ایک منٹ بھی سکون نہ ملنے کی وجہ  واضح ھے کیونکہ نعمات الٰھی اس کی مرضی کےخلاف ھمیشہ مائل بہ زیادتی ھوتی ھیں ۔ اس لئے اس کے دل پر رنج و غم کے بادل ھر وقت چھائے رھتے ھیں ۔ حسد ایک ایسا شدید طوفان ھے جو فضائل و خرد کے تناور درخت کو تنکے کی طرح جڑ سے اکھاڑ پھینکتا ھے اور پھر حاسد کو ارتکاب جرم سے روکنے کے لئے کوئی اخلاقی اور وجدانی رکاوٹ باقی ھی نھیں رھتی ۔

 

قابیل نے جب دیکھا کہ ھابیل کی قربانی تو بارگاہ الٰھی میں قبول ھو گئی  لیکن اس کی قربانی رد کر دی گئی تو اس کے دل میں کینہ و حسد کی آگ بھڑک اٹھی  اور آخر کار اس نے ھابیل کے قتل کا پروگرام بنا لیا ۔ حسد نے اس کے دل میں پنجہ گاڑدیا۔ اخوت و انسانیت کا جذبہ اس کے دل سے نا پید ھو گیا ۔ اور اس نے اپنے بھائی کے سر کو پھاڑ کی چٹان سے ٹکرا دیا اور ھابیل کے مقدس جسم کو صرف ھابیل کی خلوص نیت کے جرم میں انھیں کے خون سے نھلا دیا ۔ اس وقت کی حیرت زدہ دنیا نے حسد کی پھلی قربانی دیکھی جو آدم علیہ السلام کے بیٹے کے ھاتھوں نمایاں ھوئی ۔ حسد نے جب اپنا کام کر لیا توقابیل اپنے اس قبیح فعل پر نادم ھوا لیکن اس وقت ندامت بیکار ھوئی اور قابیل اپنی پوری زندگی اس روحانی عذاب کو بر داشت کرتا رھا ۔ اگر قابیل کے ذھن میں فکر صحیح کا تصور ھوتا تو وہ فیضان الٰھی سے محروم ھونے کی علت تلاش کرتا ۔

 

جرمنی عالم شوپنھاور کھتا ھے: حسد انسان کے بد ترین احساسات میں سے ایک ھے اس لئے اس کو سعادت کا بدترین دشمن خیال کرنا چاھئے اور اس کا سر کچلنے اور اس کو دبانے کی مسلسل کوشش کرنی چاھئے ۔

 

اگر کسی معاشرے میں حسد کا دور دورہ ھو جائے تو پھر اس معاشرے میں لڑائی جھگڑے کا عام ھونا ضروری ھے اور پھر اس معاشرے میں جو پرورش پاتے ھیں وہ بجائے اس کے کہ دوسروں کی کمیوں کو دور کریں اور لوگوں کے حالات کو بھتر بنائیں دوسروں کی ترقی و سعادت میں راستے کاروڑا بن جاتے ھیں اور ان کی خود غرضی ھر قسم کے اصلاح سے مانع ھو جاتی ھے ۔ اس کے نتیجے میں لوگوں کا چین و سکون غارت ھوجاتا ھے اور آبادو متمدن معاشرہ فنا کے گھاٹ اتر جاتا ھے ۔ بقول ڈاکٹر کارل: ھمارے بخل و عقیم پن کی ساری ذمہ داری حسد پر ھوتی ھے ۔ کیونکہ یھی حسد ھے جو ھم کو دیگر ترقی یافتہ قوموں تک پھونچنے نھیں دیتا اور اسی حسد کی وجہ سے بھت سے با صلاحیت افراد جو امتوں کی قیادت کر سکتے ھیں پیچھے رہ جاتے ھیں ۔ آج کل دنیا کے گوشے گوشے میں جو جرائم رونما ھوتے ھیں جن کے ھمراہ ظلم و جور بھی ھوتا ھے ان کا سر چشمہ یھی حسد ھے اور اس حقیقت کا انکشاف اس وقت ھو جائے گا ۔ جب ھونے والے واقعات کی گھرائی میں آپ پھونچیں گے ۔