• صارفین کی تعداد :
  • 3705
  • 12/19/2007
  • تاريخ :

اخلاق کی قدر و قیمت

گلدان گل

ھر معاشرہ کی زندگی اور ھر قوم کے تکامل میں اخلاق شرط اساسی ھے ۔ انسانی پیدائش کے ساتھ ساتھ اخلاقیات کی بھی تخلیق ھوئی ھے ۔ اخلاقیات کی عمرانسانی عمر کے برابر ھے ۔دنیا کا کوئی عقلمند ایسا نھیں ھے جس کو انسانی روح کی آسائش و سلامتی کے لئے اخلاقیات کے ضروری ھونے میں ذرہ برابر بھی شک ھو ، یا رشد اجتماعی کی بنیاد پر تقویت دینے اور عمومی اصلاحات میں اس کے سود بخش ھونے میں کسی قسم کا شبہ ھو ۔ بھلا کون ایسا شخص ھے جس کو صداقت و امانت سے تکلیف ھوتی ھو ؟ یا وہ کذب و خیانت کے زیر سایہ سعادت کا متلاشی ھو ؟ اخلاق کی اھمیت کے لئے یھی کافی ھے کہ ھر پسماندہ و ترقی یافتہ قوم چاھے وہ کسی دین و مذھب کی پابند بھی نہ ھو اخلاقی فضائل کو بڑے احترام و تقدس کی نظر سے دیکھتی ھے ۔ اور زندگی کی پُر پیچ راھوں میں کچھ سلسلھٴ احکام کی پابندی کو ضروری سمجھتی ھے ۔ انسان اپنی زندگی میں تمام مختلف راھوں کے اختیار کرنے کے باجود ھر جگہ ،ھر شخص اور ھر قوم و ملت کے لئے بلندی اخلاق کو ضروری سمجھتا رھا ھے اور طول تاریخ میں اس کی اھمیت مختلف صورتوں میں باقی رھی ھے ۔

 

مشھور انگریزی دانشمند ساموئیل اسمایلز کھتا ھے: اس کائنات کی محرک قوتوں میں سے ایک قوت کا نام اخلاق ھے ۔ اور اس کے بھترین کارناموں میں انسانی طبیعت کو بلند ترین شکل میں مجسم کرنا ھے ، کیونکہ واقعی انسانیت کا معرف یھی اخلاق ھے ۔جو لوگ زندگی کے ھر شعبہ میں تفوق و امتیاز رکھتے ھیں  ان کی پوری کوشش یھی ھوتی ھے کہ نوع بشر کا احترام و اکرام اپنے لئے حاصل کر لیں۔ تمام لوگ ان پر اعتماد و بھرسہ کریں اور ان کی تقلید کریں، کیونکہ ان حضرات کے خیالات یہ ھوتے ھیں کہ دنیا کی ھر چیز کا تعلق ان ھی سے ھے اور یہ کہ اگر ان کا وجود نہ ھوتا تو دنیا رھنے کے قابل نہ ھوتی ۔ اگر چہ وراثتی نبوغ خود ھی لوگوں کو اپنی طرف کھینچتا ھے اور ان کی تعظیم و احترام پر آمادہ کرتا ھے پھر بھی عام لوگوں کا ایسے ا شخاص کی طرف کھنچاؤ فکری نتیجہ کا مرھون ھوتا ھے اور تعظیم و احترام کا تعلق دل ھی سے ھوا کرتا ھے ۔ یہ بات دنیا جانتی ھے کہ ھماری پوری زندگی پر قلب کی حکومت ھوتی ھے اور پوری زندگی کا ادارہ یھی قلب کرتا ھے ۔ جو لوگ اپنی زندگی میں عظمت و ارتقاء کی چوٹی پر پھونچ گئے ھیں وہ حیات بشری کی پر پیچ گلیوں کے روشن چراغ ھیں اور یھی وہ لوگ ھیں جو اپنی ذات سے عالم کو منور کر دیتے ھیں  اور لوگوں کو فضائل و تقویٰ کے راستوں کی طرف ھدایت کرتے ھیں ، لیکن جب تک کسی بھی معاشرہ کے افراد تربیت یافتہ اور خوش اخلاق نہ ھو ں گے چاھے وہ سیاسی بلندیوں کے ھمالہ تک پھونچ جائیں وہ اپنے کو ترقی و بلندی تک نھیں پھونچا سکتے کوئی بھی قوم ھو یا ملت اگر وہ سر بلندی کی یقینی زندگی بسر کرنا چاھتی ھے تو اس کے لئے ملک کی وسعت ضروری نھیں ھے ۔ کیونکہ بھت سی قومیں جو کثرت افراد رکھتی تھیں اور ان کے ملک کی زمیں بھی بھت طویل و عریض تھی لیکن وہ عظمت و تکامل کی زندگی سے عاری تھیں اور یہ حقیقت ھے کہ جس قوم کا سر مایہ اخلاق تباہ ھو جائے وہ بھت جلد فنا کے گھاٹ اتر جاتی ھے ۔

 

اس انگریزی دانشمند کا قول نظری و فکری اعتبار سے متفق علیہ ھے لیکن دنیا میں لوگوں نے علم و عمل کے درمیان بھت لمبا فاصلہ پیدا کر دیا ھے اور عملی دنیا میں انھوں نے مکارم اخلاق کی جگہ خواھشات نفسانی کے سپرد کر دی اور ایسی جذباتی خواھشات کی تلاش میں لگ گئے جو زندگی کے سمندر میں ناپائدار حباب کی طرح ھوا کرتی ھیں ۔

انسان کار گاہ تخلیق سے ایسے فضائل لے کر آیا ھے جو آپس میں متضاد ھیں (مثلاً ) دل اچھے و برے صفات کا مرکز ھے اس لئے وجود انسانی کو برے صفات سے بچانے کے لئے سب سے پھلی کوشش ھونی چاھئے اور اس سلسلے میں سب سے پھلے ان دو طاقتوں کو مسخر کرنا چاھئے جو تمام حیوانی صفات کا منبع ھیں ۔ یعنی غضب و شھوت، پس جو شخص بھی منزل سعادت و تکامل کی طرف گامزن ھو اس کو چاھئے کہ ان دونوں طاقتوں میں افراط سے پرھیز کرے اور ان دونوں قوتوں کے سخت و مضر میلانات کو مفید و زیبا ترین جذبات سے بدل دے کیونکہ انسان اپنی زندگی میں اپنے عواطف و جذبات سے بھت فائدہ اٹھاتا ھے لیکن اس کے جذبات کاصحیح اظھار اسی وقت ھوتا ھے جب وہ جذبات عقل کے کنٹرول میں ھوں ۔

 

ایک علم النفس کا ماھر کھتا ھے: انسانی جذبات ایک ایسا خزانہ ھے جو دو چیزوں سے مرکب ھے ایک چیز ایسی طاقتوں کا مرکز ھے جو فشار دینے والی ھیں اور دوسری چیز کے اندر مقاومت کی طاقتوں کو ودیعت کر دیا گیا ھے ۔ اب جو بھی قدرت مقاومتی دستگاہ پر غالب آگئی وھی قدرت ھمارے وجود پر براہ راست حکومت کرے گی اور ھم کو اپنا تابع و فرمانبردار بنا لے گی ۔

 

جن لوگوں نے اپنی باطنی قوتوں میں توازن بر قرار رکھا ۔ خواھشات میں توافق رکھا اور اپنے عقل و دل میں صلح و آشتی کو قائم کیا ۔ انھیں لوگوں نے مشاکل حیات میں اپنے مستحکم و غیر متزلزل ارادہ کے ساتھ خوشبختی کے مسلم راستہ کو طے کیا ھے ۔ یہ بات اپنی جگہ پر درست ھے کہ آج کل کی زندگی مشینی زندگی بن کر رہ گئی ھے اور انسان نے اپنی فکری قوتوں کے سھارے سمندروں کا سینہ چاک کر ڈالا ھے لیکن تمدن و تھذیب کے سینہ میں جو بد بختیاں موجود ھیں اور نسل بشرجن مشکلات کے تھپیڑوں میں گرفتار ھے اور پورا معاشرہ جس بد نظمی و تباھی کا شکار ھے اس کی علت روحانیت کی شکست اور فضائل اخلاقی سے دوری کے علاوہ کچھ بھی نھیں ھے۔

 

ڈاکٹر ژول رومان کا کھنا ھے: اس زمانہ میں علوم نے تو کافی ترقی کی ھے  لیکن ھمارے اخلاقیات اور غریزی احساسات اپنے ابتدائی مراحل میں ھیں ۔ اگر ھمارے اخلاقیات بھی عقل و دانش کے شانہ بہ شانہ ترقی کرتے تو ھم کو یہ کھنے کا حق ھوتا کہ انسان کی مدنیت بھی ترقی کر گئی ھے!!!

 

ھاں یہ صحیح ھے کہ جس تمدن پر مکارم اخلاق کی حکمرانی نھیں ھوتی وہ توازن و تعادل کے قانون کے بموجب تباہ و برباد ھو جاتا ھے ۔ معاشروں اور رتمدنوں کے اندر موجود شقاوت و بد بختی، نقص و کمی آج بھی لوگوں کو یہ احساس دلانے کے لئے کافی ھے کہ وہ اس زمانہ میں بھی اخلاقی اقدار کے ویسے ھی محتاج ھیں جیسے پھلے تھے ۔ مکارم اخلاق کے اندر آج بھی اتنی طاقت و قوت موجود ھے جو اس مردہ معاشرہ کے جسم میں نئی روح پھونک دے