• صارفین کی تعداد :
  • 3927
  • 12/17/2007
  • تاريخ :

ظلم کے بھڑکتے شعلے

مجسمه شني

معاشرہ کو کمزور و مضمحل کرنے میں اور اخلاقی و اجتماعی امن عامہ کے بر باد کرنے میں ظلم و ستم کی تاثیر نا قابل انکار ھے ۔ جو لوگ کسی مذھب کے پابند نھیں ھیں وہ بھی اس حقیقت کا اعتراف کرتے ھیں ۔ ظلم و ستم کا روابط کی شکست و ریخت اور معاشرہ کے نظام کو پراگندہ کرنے میں بھت بڑا دخل ھوتا ھے ۔ ظالم و جابر طاقتیں نہ صرف یہ کہ اپنے تمدن کو کھو بیٹھتی ھیں بلکہ اپنے اقتدار سے بھی ھاتہ دھو بیٹھتی ھیں ۔ ان ظالموں کی تاریخ زندگی پڑھنے سے انسان کو اچھی خاصی عبرت ھوتی ھے، جنھوں نے اپنے مظالم کے روح فرسا انجام کو دیکھا ھے ۔

 

محمد ابن عبد الملک خلفائے بنی عباس کی بارگاہ میں بڑی اھمیت کا حامل تھا ۔ اس کو وزارت کا عھدہ دیا گیا تھا ۔ اس سنگدل و ظالم نے قیدیوں کو سزا دینے کے لئے ایک بھت بڑا آھنی تنور بنوا رکھا تھا اور اس تنور کی اندر ونی دیواروں میں بڑی بڑی لوھے کی میخیں بنوا رکھی تھیں ۔ قیدیوں کو اس تنور میں قید کر دیتا تھا ۔ یھی نھیں بلکہ اس کے نیچے آگ بھی روشن کر دیتا تھا اور اس طرح قیدی تڑپ کر جان دیدیتا تھا ۔ جب متوکل تخت خلافت پر بیٹھا تو اس نے محمد بن عبد الملک کو وزارت کے عھدے سے معزول کر دیا اور اس کو اسی آھنی تنور میں مقید کر دیا جو اس نے دوسروں کے لئے بنوا رکھا تھا ۔ جب محمد بن عبد الملک کی زندگی کا آخری وقت آیا تو اس نے کا غذ و دوات منگوا کر دو شعر اس کاغذ پر لکہ کر کھلا خط متوکل کے پاس بھیجوا دیا وہ دونوں شعر یہ ھیں :  

 

ھی السبیل فمن یوم الی یوم     کانّہ ما تراک العین فی نوم

لا تجز عنّ رویدا انھا دول     دنیا   تنقل  من  قوم  الیٰ  قوم

” دنیا ایک گزر گاہ ھے جس کو روازنہ چل کر ختم کیا جاتا ھے یہ دنیا خواب کے مانند ھے رنجیدہ و غمگین نہ ھو آرام سے رھو ۔ یہ دنیا تو ایسا سرمایہ ھے جو ھر روز دوسروں کے ھاتھوں میں منتقل ھوتی رھتی ھے “۔

 

متوکل نے جب ان شعروں کو پڑھا تو فوراً ا س کی آزادی کا حکم دیدیا لیکن اس میں دیر ھو چکی تھی محمد بن عبد الملک تڑپ کر جان دے چکا تھا ۔

 

جی ھاں جو لوگ دنیا کو تنازع للبقاء کا میدان سمجھتے ھیں وہ ھمیشہ اپنی شان و شوکت کو برقرار رکھنے کے لئے کمزوروں پر ظلم کرتے رھتے ھیں اور کسی بھی جرم کے ارتکاب سے دریغ نھیں کرتے لیکن ان کو بھت زیادہ مھلت نھیں ملتی مظلوموں کے سینوںسے نکلنے والی آہ ان کے خرمن ھستی کو جلا کر خاک کر دیتی ھے اور ایک خونیں انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ھوتی ھے ۔

 

ظالم کسی خاص طبقہ یا کسی خاص فرد سے مخصوص نھیں ھے ۔ اگر کوئی شخص بغیر کسی قید و بند کے زندگی کی نعمتوں سے لطف اندوز ھونا چا ھے اور قوانین کے دائرے سے باھر قدم رکہ دے ۔ تو وہ ظالم و ستمگار ھے ۔

افسوس آج کل معاشرے کے اندر ظلم و ستم قوس صعودی کو طے کر رھا ھے ۔ ظلم کے شعلے معاشرے کے خرمن ھستی کو پھونکے دے رھے ھیں ۔ تمدن بشری کی بنیادوں کو کھو دے ڈال رھے ھیں ۔ ظالم و ستمگر اپنی طاقت بھر معاشرھٴ بشری کے حقوق کو پامال کر رھے ھیں ۔ لوگوں کے بے پناہ منابع ثروت کو لوٹے لے رھے ھیں ۔ فرشتھٴ عدالت ایک بے جان مجسمہ بن کر رہ گیا ھے ۔