• صارفین کی تعداد :
  • 4288
  • 12/16/2007
  • تاريخ :

فقيہ کي ولايت(3)

 

ياس سفيد

فقيہ کون ھے ؟

فقيہ وہ ھوتا ھے، جو خدا کے احکام اور دين کے مسائل کو قرآن کي آيتوںاور روايات سے سمجھتے ھوئے ان سے استدلال کرے يعني دليل لائے اور جو بھي مسئلہ پيش آئے اس ميں دين اور مذھب کے نظريہ کو پھچان سکے اور اسے بيان کر سکے ۔ دين شناسي  کے اس مقام تک پھونچنے کے لئے ضروري ھے کہ ايک شخص ايک طولاني مدت تک حوزہ علميہ  ميں ان علوم کو حاصل کرے  جو دين کے مسائل ميں ماھر ھونے کے لئے اسکي مدد کر سکيں۔

 

جو اس درجہ اور مقام تک پھونچ جاتا ھے کہ اسلامي مسائل کو عقلي و نقلي استدلال کے ذريعہ سمجھ جائے ، اسے مجتھد اور ” فقيہ “ کھتے ھيں اور علم اور فقہ کے اس درجہ اور مرتبہ کو ” اجتھاد “ کھتے ھيں ۔

 

عموماً ھر شخص کسي بھي مسئلہ ميں اس مسئلہ کا علم رکھنے والے اور ماھر شخص کي طرف رجوع کرتا ھے ۔ مثلاً بيماري ميں ڈاکٹر ، مکان کي تعمير ميں انجينير اور مستري اور مشينوں کے خراب ھوجانے کي صورت ميں ، اس کا علم اور مہارت رکھنے والے شخص کي طرف رجوع کيا جاتا ھے ۔ سامنے کي بات ھے کہ اگر انسان خود دين ميں ماھر نہ ھو اور اس کا علم نہ رکھتا ھو ، تو اپنا ديني وظيفہ جاننے اوراس پر عمل کرنے کے لئے فقھا کي طرف رجوع کرے اور ان سے سوال کرے ۔ شريعت کے مسائل ميں شرعي دليلوں کي بنياد پر مجتھد کي نظر کو فتويٰ کھتے ھيں اور لوگوں کے فقھا کي طرف رجوع کرنے اور انکے فتوے پر عمل کرنے کو ” تقليد “ کھتے ھيں ۔

 

جس طرح لوگ ايک دريا اور سمندر کے سفر ميں اپنے اختيارات کو جھاز کے کيپٹن کے حوالہ اور ھوائي جھاز کے سفر ميں اپنے اختيار کو پائيلٹ کے سپرد کر ديتے ھيں  اسي طرح ديني  مسائل اور شرعي فرائض ميں ھم اپنے فقھا کے فتوؤں پر عمل کرتے ھيں اور انکي تقليد کرتے ھيں ۔ فقھا شرعي مسائل ميں ھمارے ”مرجع “ ھيں يعني انکي طرف ھم سوال کے لئے جاتے ھيں  اسي لئے انھيں ”مرجع تقليد “ کھتے ھيں ۔

 

اس کے علاوہ جس طرح ايک شھر ميں بھت سے ڈاکٹر ھوتے ھيں ليکن ہم  کچھ ھي کے پاس علاج کے لئے جاتے ھيں ۔ اسي طرح شريعت کے مسائل ميں اھل نظر اور مجھتد بھي زيادہ ھو سکتے ھيں ممکن ھے کہ ايک ھي زمانہ ميں سينکڑوں  مجتھد يعني اھل نظر حضرات موجود ھوں  ليکن جنکي طرف لوگ رجوع کرتے ھيں انکي تعداد کم ھي ھوتي ھے ۔ اس لئے ھم کھہ سکتے ھيں کہ سبھي مجتھد ” مرجعيت“ کے درجہ اور مقام تک نھيں پھونچتے ھيں ۔

 

اس کے علاوہ عقلي اور واضح دليل يہ ھے کہ ائمہ معصومين (ع) کا مخصوص حکم اس بارے ميں موجود ھے کہ ھم ديني مسائل ميں فقھا کي طرف رجوع کريں ، انکي طرف جو ھماري روايات کا علم رکھتے ھيں اور خدا کے حلال اور حرام کو پھچانتے ھيںاور ھماري احاديث سے آشنا ھيں ۔ يہ لوگ ھماري طرف سے تم لوگوں پر حجت ھيں ۔

 

ھم چونکہ خدا وند متعال کے بندے اور مسلمان ھيں اس لئے ھم جس ديني وظيفہ کو اور ذمہ داري کو انجام ديں ، اسکے لئے ضروري ھے کہ خدا کے فرمان کے مطابق ھو ۔ ھم خدا کے حکم کو فقط قرآن ، پيغمبر  اور ائمہ معصومين (ع) کے اقوال کے ذريعہ سمجھ  سکتے ھيں ۔ علمائے دين بھي جو علم دين حاصل کرتے ھيں  وہ خدا ، پيغمبر  اور ائمہ معصومين (ع) کے اقوال اور احاديث کے ذريعہ ھي حاصل کرتے ھيں ۔ چونکہ ھم اس زمانہ ميں پيغمبر  اور امام معصوم (ع) تک براہ راست نھيں پھونچ سکتے اس لئے ، ائمہ معصومين (ع) نے ھماري رھنمائي فقھائے دين کي طرف کي ھے اور انکي نظر اور فتوے کو ھمارے لئے حجت قرار ديا ھے ۔ اس طرح   ھم مرجع تقليد کے فتوے پر عمل کرکے مطمئن ھو سکتے ھيں کہ ھم نے اپنے ديني وظيفہ کو انجام دے ديا ھے اور ھم اس سے سبکدوش ھو گئے ھيں  کيونکہ ھم ثبوت اور سند رکھتے ھيں ۔ ھماري حجت اور ثبوت ، فقھا کا فتويٰ ھے جو ائمہ معصومين (ع) کي جانب سے ھمارے لئے معتبر  قرار ديا گيا ھے ۔ احاديث کي کتابوں ميں ، ان روايات کو جو اس دستور العمل کو بيان کرتي ھيں ۔ ” مقبولہ عمر بن حنظلہ “ کھتے ھيں ۔

 

امام صادق (ع) سے روايت ھے کہ جو شخص بھي ميري حديث تم سے نقل کرے ، حلال اور حرام کا پابند ھو اور ھمارے احکام کي شناخت رکھتا ھو ، ميں نے اس شخص کو يقينا تمھارے اوپر حاکم قرار ديا ھے ۔ اس لئے جب بھي وہ ھمارے حکم کے مطابق حکم کرے اور کوئي شخص اسکے حکم پر عمل نہ کرے تو اس نے خدا وند متعال کے حکم کو سبک جانا اور ھمارا انکار کيا ھے اور جس نے ھمارا انکار کيا ، اس نے خدا وند متعال کا انکار کيا ھے (۱)

 

اس بات پر توجہ کرتے ھوئے کہ کبھي کبھي کوئي تازہ اور نيا مسئلہ بھي  پيش آجا تا ھے جس کا روايت ميں کوئي خاص حکم موجود نھيں ھوتا ، دين کے ماھر اور علم رکھنے والے فقھا ، اس تازہ اور نئے مسئلہ کے لئے لوگوں کا شرعي وظيفہ بيان کر تے ھيں اور يہ کہ انکي نظر اور فتويٰ ، نئے پيدا ھونے والے مسائل ميں بھي ھمارے لئے حجت ھے ، اس بارے ميں بھي ائمہ معصومين (ع) سے  روايت موجود  ھے ۔  امام زمانہ(ع) فرماتے ھيں : ” نئے واقعات اور تازہ مسائل ميں ھماري احاديث کو نقل کرنے والوں کي طرف رجوع کرو ، کيونکہ فقھا ميري طرف سے تمھارے اوپر حجت ھيں اور ھم انکے اوپر خدا کي طرف سے حجت ھيں “ (۲)

 

نئے پيدا ھونے والے مسائل کيا ھيں جن کا دائرہ بھت وسيع  ھے ۔ جو سياسي ، اقتصادي اور سياسي مسائل کو بھي اپنے اندر شامل کرتے ہيں ۔

 

امام زمانہ (ع) کي مراد توضيح المسائل ميں بيان کئے گئے شرعي مسائل اور ھمارے فردي مسائل و ذمہ دارياں ھي نھيں ھيں بلکہ انکي مراد اور منشاء اس سے کھيں وسيع تر ھے ۔

 

اس لئے کہ وھي غيبت کے زمانہ ميں ” ولايت “ رکھ سکتا ھے اور اسي کي طرف لوگ مختلف مسائل ميں رجوع کر سکتے ھيں  جو دين کے بارے ميں کافي آگاھي اور علم رکھتا ھو ۔ زمانہ غيبت ميں  مسلمانوں کے حاکم کے لئے علمي صلاحيت اور دين شناسي  کا ھونا ، اس منصب کي اھم صفات ميں سے ايک صفت ھے ، جس کا حامل ھونا اس کے لئے ضروري

 

 ھے ۔ ان سب کے علاوہ ايک اھم شرط جو مسلمانوں کے پيشوا کے لئے لازم ھے وہ ” عدالت “ھے  يعني صرف عاقل ، عالم اور خدا کے احکام سے آگاھي ھونا ھي کافي نھيں ھے ۔ صرف وھي شخص بندگان خدا کي رھبري کي صلاحيت رکھتا ھے ، جو متقي ، خدا کا خوف رکھنے والا ، با ايمان ، پاکيزہ اور عادل ھو ۔ ان شرائط کو اخلاق اور تقويٰ کي شرطيں کھتے ھيں ۔

 

جو شخص دنيا پرست ھو ، اپني خواھيشات اور نفس کي پيروي کرتا ھو ، ريا کار اور بے تقويٰ ھو ،خدا کے احکام کي پابندي نہ کرتا ھو ، پرھيز گاري ، خلوص اور دينداري نہ رکھتا ھو ، تو ايسا شخص لوگوں کا مرجع ھونے کي صلاحيت نھيں رکھتا اور وہ مسلمانوں کا رھبر اور پيشوا بھي نھيں ھو سکتا ھے ۔ يہ مقام اور منصب اسي شخص کے لئے مناسب ھے جو اپني خواھشات اور نفس کي پيروي نہ کرتا ھو اور با تقويٰ ھو ، کيونکہ سماج اور لوگوں کے دين اور دنيا کا اختيار اسي کو ديا جاتا ھے ۔ اگرلوگوں کا پيشوا اور رھبر تقويٰ ، پاکدامني اور خلوص نھيں رکھتا ھو گا ، تو لوگوں کے دين اور دنيا دونوں ھي کو خطرہ لاحق ھو گا اور کبھي بھي جبران نہ ھونے والا خسارہ اور نقصان ھو جائے گا ۔ اس بارے ميں بھي امام حسن عسکري (ع) سے  حديث نقل ھوئي ھے آپ نے فرمايا ھے  : فقھا ميں جو اپنے دين کے نگھبان ھوں اور اپنے نفس کي پيروي نہ کرتے ھوں ، لوگوں کے لئے ضروري ھے کہ انھي ميں سے کسي کي تقليد کريں ۔ (۳)

 

حوا لے

۱۔وسائل الشيعہ ج ۱۸ ص ۹۹

۲۔وسائل الشيعہ ج ۱۸ ،ص ۱۰۱

۳۔وسائل الشيعہ ج ۱۸ ص ۹۴