• صارفین کی تعداد :
  • 3544
  • 12/16/2007
  • تاريخ :

کافر کے احکام 

آگ

س ۳۱۳: بعض فقہا اہل کتاب کو نجس اور بعض انہيں پاک قرار ديتے ہيں آپ کي کيا رائے ہے؟

ج: اہل کتاب کي ذاتي نجاست ثابت نہيں ہے، بلکہ ہم انہيں ذاتاً پاک سمجھتے ہيں۔

 

س ۳۱۴: وہ اہل کتاب جو فکري لحاظ سے حضرت خاتم النبين (ص) کي رسالت پر ايمان رکھتے ہيں، ليکن وہ اپنے آباءو اجداد کي سيرت اور ان کي روش کے مطابق عمل پيرا ہيں، کيا وہ طہارت کے مسئلے ميں کافر کے حکم ميں ہيں يا نہيں؟

ج: صرف پيغمبر خاتم النبيين صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کي رسالت پر اعتقاد رکھنا، اسلام کے تحت آنے کے لئے کافي نہيں ہے، ليکن اگر ان کا شمار اہل کتاب ميں سے ہوتا ہو تو وہ پاک ہيں۔

 

س۳۱۵: ميں نے اپنے چند دوستوں کے ساتھ ايک گھر کرايہ پر ليا، ہميں معلوم ہوا کہ ان ميں سے ايک نماز نہيں پڑھتا، اس سے وضاحت طلب کرنے پر اس نے جواب ديا کہ وہ دل سے تو خداوند متعال پر ايمان رکھتا ہے ليکن وہ نماز نہيں پڑھتا۔ اس بات کے پيش نظر کہ ہم اس کے ساتھ کھانا کھاتے ہيں اور اس سے بہت زيادہ گھلے ملے ہوئے ہيں، کيا وہ نجس ہے يا پاک؟

ج:صرف نماز و روزہ اور دوسرے شرعي واجبات کا ترک کرنا، مسلمان کے مرتد، کافر اور نجس ہونے کا موجب نہيں بنتا، بلکہ جب تک اس کا مرتد ہونا ثابت نہ ہوجائے، اس کا حکم باقي مسلمانوں جيسا ہے۔

 

س ۳۱۶: وہ کون سے اديان ہيں جن کے ماننے والے اہل کتاب ہيں؟ اور وہ معيار کيا ہے جو ان کے ساتھ رہن سہن کے حدود کو معين کرتا ہے؟

ج:اہل کتاب سے مراد ايسے تمام افراد ہيں جن کا تعلق کسي الہي دين سے ہو اور وہ اپنے آپ کو اللہ تعالي کے انبياءميں سے کسي نبي کے پيروکار سمجھتے ہوں اور ان کے پاس انبياءپر نازل ہونے والي آسماني کتابوں ميں سے کوئي کتاب ہو، جيسے يہودي، عيسائي، زرتشتي اور اسي طرح صابئي ۔ جوہماري تحقيق کي رو سے۔ اہل کتاب ہيں۔ پس ان سب کا حکم اہل کتاب کا حکم ہے اور اسلامي قوانين و اخلاق کي رعايت کرتے ہوئے ان سب کے ساتھ معاشرت کرنے ميں کوئي حرج نہيں ہے۔

 

س ۳۱۷: ايک فرقہ ہے جو اپنے کو ”علي اللہٰي“ کہتا ہے۔ وہ لوگ اميرالمؤمنين علي ابن ابي طالب عليہ السلام کو خدا سمجھتے ہيں اور ان کا عقيدہ ہے کہ دعا اور طلب حاجت، نماز اور روزے کا بدل ہيں، کيا يہ لوگ نجس ہيں؟

ج:اگر وہ اميرالمؤمنين علي بن ابيطالب عليہ السلام کو اللہ مانتے ہيں ”تعالي اللہ عن ذلک علواً کبيراً“ تو ان کا حکم اہل کتاب کے سوا دوسرے غير مسلموں جيسا ہے يعني کافر اور نجس ہيں۔

 

س ۳۱۸: ايک فرقہ ہے جس کا نام ” علي اللہٰي“ ہے اس کے ماننے والے کہتے ہيں علي خدا تو نہيں ہيں، ليکن خدا سے کم بھي نہيں ہيں، ان لوگوں کا کيا حکم ہے؟

ج: اگر وہ (حضرت علي) کو خدائے واحد منان و متعال کا شريک قرار نہيں ديتے تو وہ مشرک کے حکم ميں نہيں ہيں۔

 

س ۳۱۹: شيعہ اثنا عشري نے امام حسين (ع) يا اصحاب کساء(پنجتن پاک) کے لئے جس چيز کي نذر کي ہے کيا اس نذر کو ايسے مراکز ميں دينا صحيح ہے، جہاں فرقہ ”علي اللہٰي“ کے ماننے والوں کا اجتماع ہوتا ہے اس طرح کہ يہ نذر انکے مراکز کي تقويت کا باعث بنے؟

ج:مولائے موحدين (حضرت علي ) کو خدا ماننے کا عقيدہ باطل ہے اور ايسا عقيدہ رکھنے والا اسلام سے خارج ہے۔ ايسے فاسد عقيدے کي ترويج ميں مدد کرنا حرام ہے، مزيد يہ کہ اگر مال کو کسي خاص مورد کے لئے نذر کيا گيا ہو تو اسے دوسري جگہ پر خرچ کرنا جائز نہيں ہے۔

 

س ۳۲۰: ہمارے علاقے اور بعض دوسرے علاقوں ميں ايک فرقہ پايا جاتا ہے جو اپنے آپ کو ”اسماعيليہ“ کہتا ہے وہ لوگ چھ اماموں (پہلے امام سے چھٹے امام تک) پر اعتقاد رکھتے ہيں، ليکن ديني واجبات ميں سے کسي کو بھي نہيں مانتے، اسي طرح وہ ولايت فقيہ کو بھي نہيں مانتے، لہذا بيان فرمائيں کہ اس فرقے کي پيروي کرنے والے نجس ہيں يا پاک؟

ج:صرف چھ باقي ائمہ معصومين يا احکام شرعيہ ميں سے کسي حکم پر اعتقاد نہ رکھنا، اگر اصل شريعت سے انکار کي طرف بازگشت نہ کرے اورنہ ہي خاتم الانبياءعليہ و آلہ الصلاة و السلام کي نبوت سے انکار کا باعث ہو تو وہ کفر و نجاست کا موجب نہيں ہے، مگر يہ کہ وہ لوگ آئمہ عليہم السلام ميں سے کسي امام کو برا بھلا کہيں اور اسکي اہانت کريں۔

 

س ۳۲۱: ہمارے علاقے کي بہت بڑي اکثريتي آبادي بدھ مذہب کے ماننے والے کافروں کي ہے، پس اگر يونيورسٹي کا کوئي طالب علم کرايہ پر مکان لے تو اس مکان کي طہارت و نجاست کا کيا حکم ہے؟ کيا اس مکان کو دھونا اور اسے پاک کرنا ضروري ہے يا نہيں؟ اس بات کي طرف بھي اشارہ کرنا مناسب ہے کہ يہاں اکثر مکان لکڑي کے بنے ہوئے ہيں اور ان کا دھونا ممکن نہيں ہے، نيز ہوٹلوں، سامان اور ان ميں موجود ديگر چيزوں کا کيا حکم ہے؟

ج: جس چيز کو آپ استعمال کرنا چاہتے ہيں جب تک آپ کو اسکے غير کتابي کافر کے ہاتھ اور بدن کے ساتھ مس ہونے کا يقين نہ ہو، اس پر نجاست کا حکم نہيں لگے گا اور نجاست کا يقين ہونے کي صورت ميں ہوٹلوں اور مکانوں کے دروازوں اور ديواروں کا پاک کرنا واجب نہيں ہے اور نہ ہي سامان اور ان چيزوں کا پاک کرنا واجب ہے جو ان ميں موجود ہيں، بلکہ کھانے پينے اور نماز کے لئے استعمال کي جانے والي چيزيں اگر نجس ہوں تو ان کا پاک کرنا واجب ہے۔

 

س ۳۲۲: صوبہ خوزستان (ايران کا ايک شہر) ميں بہت سے لوگ ايسے ہيں جو اپنے آپ کو ”صابئہ“ کہتے ہيں وہ کہتے ہيں : ہم جناب يحيي کے ماننے والے ہيں اور ان کي کتاب ہمارے پاس موجود ہے۔ اور اديان شناس علما کے نزديک بھي يہ ثابت ہو چکا ہے کہ يہ وہي صابئين ہيں جن کا ذکر قرآن مجيد ميں آيا ہے۔کيا يہ لوگ اہل کتاب ميں سے ہيں يا نہيں؟

ج: مذکورہ گروہ اہل کتاب کے حکم ميں ہے۔

 

س ۳۲۳: يہ جو کہا جاتا ہے کہ کافر کے ہاتھ کا بنا ہوا گھر نجس ہے اور اس ميں نماز پڑھنا مکروہ ہے، کيا صحيح ہے؟

ج: ايسے گھر ميں نماز پڑھنا مکروہ نہيں ہے۔

 

س ۳۲۴: يہود و نصاريٰ اور کفار کے ديگر فرقوں کے يہاں کام کرنے اور ان سے اجرت لينے کا کيا حکم ہے؟

ج:اس ميں بذات خود کوئي مانع نہيں ہے بشرطيکہ وہ کام حرام نہ ہو اور نہ ہي اسلام و مسلمين کے مفادات عامہ کے خلاف ہو۔

 

س ۳۲۵: جس جگہ ہم فوج کي ڈيوٹي کر رہے ہيں وہاں بعض ايسے قبيلے ہيں جن کا تعلق ” اہل حق“ نامي فرقہ سے ہے کيا ان کے ہاں موجود دودھ، دہي اور مکھن سے استفادہ کرنا جائز ہے؟

ج:اگر وہ اصول اسلام کے معتقد ہوں تو وہ طہارت و نجاست کے مسئلے ميں باقي مسلمانوں کے حکم ميں ہيں۔

 

کافر

 

س ۳۲۶: جس گاؤں ميں ہم پڑھاتے ہيں وہاں کے لوگ نماز نہيں پڑھتے، کيونکہ وہ فرقہ ”اہل حق“ سے ہيں اور ہم ان سے روٹي لينے اور ان کے يہاں کھانا کھانے پر مجبور ہيں، کيونکہ ہم رات دن اسي گاؤں ميں رہتے ہيں، تو کيا ہماري نمازوں ميں کوئي اشکال ہے؟

ج:اگر وہ توحيد ، نبوت اور ضروريات دين ميں سے کسي چيز کے منکر نہ ہوں اور نہ رسول اسلام (ص) کي رسالت ميں کسي نقص کے معتقد ہوں تو ان پر نہ کفر کا حکم لگے گا اور نہ ہي نجاست کا، ليکن اگر ايسا نہ ہو تو ان کا کھانا کھانے اور انہيں چھونے کي صورت ميں طہارت و نجاست کا لحاظ رکھنا واجب ہے۔

 

س ۳۲۷: ہمارے رشتہ داروں ميں سے ايک صاحب کميونسٹ تھے، انہوں نے بچپن ميں ہميں بہت ساري چيزيں اور مال ديا تھا، پس اگر وہ مال اور چيزيں بنفسہ موجود ہوں تو ان کا کيا حکم ہے؟

ج:اگر اس کا کفر اور ارتداد ثابت ہو جائے اور اس نے سن بلوغ ميں اظہار اسلام سے پہلے کفر اخيتار کيا ہو تو اس کے اموال کا حکم وہي ہے جو دوسرے کافروں کے اموال کا ہے۔

 

س ۳۲۸: مندرجہ ذيل سوالات کے جواب عنايت فرمائيں۔

١۔ پرائمري، مڈل اور اس سے بالاتر کلاسوں کے مسلمان طلباءکا ”بہائي“ فرقے کے طلباءکے ساتھ ملنے جلنے، اٹھنے بيٹھنے اور ان سے ہاتھ ملانے کا حکم کيا ہے، خواہ وہ لڑکے ہوں يا لڑکياں، مکلف ہوں يا غير مکلف، اسکول کے اندر ہوں يا اس سے باہر؟

٢۔ جو طلباءاپنے آپ کو ”بہائي“ کہتے ہيں يا فرضاً جن کے ”بہائي“ ہونے کا يقين ہو جائے ان کے ساتھ اساتذہ اور مربي حضرات کس طرح کا رويہ رکھيں؟

٣ ۔ جن چيزوں کو سارے طلباءاستعمال کرتے ہوں ان سے استفادہ کرنے کے بارے ميں شرعي حکم کيا ہے، جيسے پاني پينے کا نل يا بيت الخلاءکا نل، لوٹا اور صابن و غيرہ کہ جب ہاتھ اور بدن کے مرطوب ہونے کا علم ہو؟

ج: گمراہ فرقہ ”بہائيہ “کے تمام افراد نجس ہيں، اور ان کے کسي چيز کو چھونے کي صورت ميں جن امور ميں طہارت شرط ہے، ان ميں طہارت کا لحاظ رکھنا واجب ہے، ليکن پرنسپل، اساتذہ اور مربيوں پر لازم ہے کہ ان کا رويہ ”بہائي“ طلباءکے ساتھ قانوني احکامات اور اسلامي اخلاق کے مطابق ہو۔

 

س ۳۲۹: اسلامي معاشرے ميں ”بہائي“ فرقہ کے پيروکاروں کي موجودگي کے جو اثرات ہيں ان کا مقابلہ کرنے کے لئے مؤمنين اور مؤمنات کي کيا ذمہ داري ہے؟

ج:تمام مؤمنين گمراہ ”بہائي“ فرقہ کي فتنہ پردازي اور ان کے مکر و حيلے کا مقابلہ کريں اور دوسروں کو اس گمراہ فرقہ کے ساتھ مل جانے اور ان کے ذريعہ منحرف ہونے سے بچائيں۔

 

س ۳۳۰: بعض اوقات گمراہ ”بہائي“ فرقہ کے پيروکار کھانے کي چيزيں يا دوسري اشياءہمارے پاس لاتے ہيں، تو کيا ان کا استعمال کرنا ہمارے لئے جائز ہے؟

ج:اس ضال و مضل فرقے کے ساتھ ہر قسم کے لين دين سے اجتناب کريں۔

 

س ۳۳۱: ہمارے پڑوس ميں بہت سے ”بہائي“ رہتے ہيں اور ہمارے گھر ان کا اکثر آنا جانا رہتا ہے۔ بعض کہتے ہيں يہ ”بہائي“ نجس ہيں اوربعض کہتے ہيں پاک ہيں، اور يہ ”بہائي“ بہت اچھے اخلاق کا اظہار کرتے ہيں، پس کيا وہ نجس ہيں يا پاک ہيں؟

ج:وہ نجس ہيں اور تمہارے دين اور ايمان کے دشمن ہيں، پس اے ميرے عزيز بيٹے! تم ان سے سنجيدگي کے ساتھ پرہيز کرو۔

 

س ۳۳۲: بسوں اور ريل گاڑيوں کي ان سيٹوں کا کيا حکم ہے جن کو مسلمان اور کافر دونوں استعمال کرتے ہيں حالانکہ بعض علاقوں ميں کافروں کي تعداد مسلمانوں سے زيادہ ہے، کيا يہ سيٹيں پاک ہيں؟ جبکہ ہم جانتے ہيں کہ گرمي کي وجہ سے پسينہ نکلتا ہے بلکہ وہ پسينہ ان ميں سرايت کر جاتا ہے۔

ج: اہل کتاب کفار تو پاک ہيں بہرحال جن چيزوں کو مسلمان اور کافر دونوں استعمال کرتے ہيں جب تک انکي نجاست کا علم نہ ہو وہ پاک ہيں ۔

 

س ۳۳۳: دوسرے ممالک ميں پڑھنے کا لازمہ يہ ہے کہ کافروں کے ساتھ رہن سہن اور تعلقات رکھے جائيں ايسے موقع پر ان کے ہاتھ کا بنا ہوا کھانا کھانے کا کيا حکم ہے بشرطيکہ حرام چيزوں کے نہ ہونے کي رعايت کي جائے جيسے غير مذکي گوشت ليکن اس ميں ان کے گيلے ہاتھ کے لگنے کا احتمال ہو؟

ج: کھانے پر کافر کے تر ہاتھ لگنے کا صرف احتمال، وجوب اجتناب کے لئے کافي نہيں ہے، بلکہ جب تک کافر کے تر ہاتھ سے مس ہونے کا يقين نہ ہو جائے اس وقت تک وہ چيز پاک رہے گي اور کافر اگر اہل کتاب ميں سے ہو تو اس کي نجاست ذاتي نہيں ہے، لہذا اس کے تر ہاتھ کا مس ہونا نجاست کا باعث نہيں بنتا۔

 

س ۳۳۴: اسلامي حکومت ميں زندگي بسر کرنے والے مسلمان شخص کے تمام مصارف اگر اس غير مسلم کيلئے کام کرنے سے پورے ہوتے ہوں کہ جسکے ساتھ اس کے گہرے تعلقات ہيں تو کيا ايسے مسلمان سے مضبوط اور گھريلو تعلقات قائم کرنا اور کبھي کبھار اس کے يہاں کھانا کھانا جائز ہے؟ 

ج: مسلمانوں کے لئے مذکورہ مسلمان سے تعلقات رکھنے ميں کوئي مضائقہ نہيں ہے، ليکن اگر غير مسلم کہ جس کے پاس مذکورہ مسلمان کام کرتا ہے کي دوستي سے اس مسلمان کے عقيدہ ميں انحراف کا خوف ہو تو اس پر اس کام سے کنارہ کش ہونا واجب ہے اور ايسي صورت ميں دوسرے مسلمانوں پر واجب ہے کہ اس کواس برائي سے باز رکھيں۔

 

س ۳۳۵: افسوس کہ ميرا برادر نسبتي مختلف اسباب کي بنا پر فاسد اور مرتد ہو گيا تھا يہاں تک کہ وہ ديني مقدسات کي اہانت کا بھي مرتکب ہوتا تھا۔ اسلام سے مرتد ہونے کے کئي سال گزر جانے کے بعد اب اس نے ايک خط ميں اظہار کيا ہے کہ وہ دوبارہ اسلام پر ايمان لے آيا ہے، ليکن اس وقت بھي وہ بالکل نہ نماز پڑھتا ہے اور نہ ہي روزہ رکھتا ہے، ايسي صورت ميں اس سے اس کے والدين اور باقي رشتہ داروں کے کيسے تعلقات ہونے چاہئيں اور کيا اس کو کافر قرار ديتے ہوئے نجس سمجھنا چاہيے؟

ج:اگر سابق ميں اس کا مرتد ہونا ثابت ہوجائے تو اگر وہ اس سے توبہ کر لے تو وہ پاک ہو گا اور اس کے والدين اور رشتہ داروں کيلئے اس سے تعلقات رکھنے ميں کوئي مضائقہ نہيں ہے۔

 

س ۳۳۶: جو شخص ضروريات دين ميں سے کسي کا۔ جيسے روزہ و غيرہ کا منکر ہو جائے تو کيا اس پر کافر کا حکم لگے گا يا نہيں؟

ج:اگر ضروريات دين ميں سے کسي چيز کا انکار، نبوت کے انکار يا پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کي تکذيب يا شريعت کي تنقيص کي طرف بازگشت کرے تو يہ کفر و ارتداد ہے۔

 

س ۳۳۷: مرتد اور کفار حربي کے لئے جو سزائيں معين کي گئي ہيں، کيا وہ سياسي نوعيت کي ہيں اور قيادت کے فرائض ميں شامل ہيں يا ايسي سزائيں ہيں جو قيامت تک کے لئے ثابت ہيں؟

ج:يہ الٰہي اور شرعي احکام ہيں۔