• صارفین کی تعداد :
  • 185
  • 2/6/2018 4:17:00 PM
  • تاريخ :

داعش کی افغانستان منتقلی میں امریکہ کے بنیادی اہداف

مغربی ایشیا سے متعلق امریکی پالیسیوں کا بغور جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس خطے میں دو بنیادی اہداف کی تکمیل کیلئے کوشاں ہے۔

داعش کی افغانستان منتقلی میں امریکہ کے بنیادی اہداف
 
تحریر: محسن علیمی
مغربی ایشیا سے متعلق امریکی پالیسیوں کا بغور جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس خطے میں دو بنیادی اہداف کی تکمیل کیلئے کوشاں ہے۔ یہ اہداف اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کی قومی سلامتی کو یقینی بنانا اور خطے میں اپنی فوجی موجودگی کے تسلسل کیلئے مناسب بہانے فراہم کرنے پر مشتمل ہیں۔ گذشتہ چالیس برس کے دوران امریکہ کی جانب سے اسلامی جمہوریہ ایران سے دشمنی کی حقیقی وجوہات کی جانچ پڑتال کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ خطے میں موجود قدرتی گیس اور خام تیل کے وسیع ذخائر سے بہرہ مند ہونے اور خطے میں اپنی اسٹریٹجک موجودگی کے درپے ہے۔

اسی طرح امریکہ نے اسرائیل کی قومی سلامتی کو اپنی خارجہ پالیسی کا جدا نہ ہونے والا اصول بنا رکھا ہے۔ اب جبکہ امریکہ تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کو افغانستان منتقل کرنے کی کوشش کر رہا ہے تو اس کی حقیقی وجوہات بھی درحقیقت امریکہ کے طویل المیعاد اہداف کا جائزہ لینے سے ہی قابل فہم ہیں۔ حال ہی میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اس بارے میں وضاحت دیتے ہوئے فرمایا ہے: "داعش سے وابستہ دہشت گرد عناصر کی افغانستان منتقلی سے امریکہ کا مقصد خطے میں اپنی فوجی موجودگی کا جواز فراہم کرنا اور صہیونی رژیم کی قومی سلامتی کو یقینی بنانا ہے۔"

اسلامی جمہوریہ ایران نے خطے میں امریکی مفادات کو کلی اور جزوی سطح پر یعنی اسٹریٹجک میدان میں بھی اور ٹیکٹیکل میدان میں بھی خطرے میں ڈال رکھا ہے۔ بلاوجہ نہیں کہ بعض سیاسی ماہرین یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اگر خطے میں امریکہ کے عدم استحکام پیدا کرنے والے اقدامات کے مقابلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی مزاحمت نہ ہوتی تو اب تک امریکہ تکفیری دہشت گرد گروہ داعش جیسے اپنے پراکسی مہروں کے ذریعے پورے خطے پر تسلط پیدا کر چکا ہوتا۔ امریکی حکام کے بیانات سے ایسے ہی معلوم ہوتا ہے۔ اسی طرح امریکہ کی جانب سے داعش کی فوجی امداد مہیا کئے جانے کے بارے میں بھی ٹھوس ثبوت موجود ہیں۔ روس کی وزارت دفاع نے کئی بار ایسی ویڈیوز شائع کی ہیں جن میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ داعش کے زیر کنٹرول علاقوں سے بڑی تعداد میں آئل ٹینکرز شام کی سرحد عبور کر کے ترکی جا رہے ہیں۔

مزید برآں، امریکہ کی جانب سے تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کو ہلکے اور بھاری ہتھیار فراہم کئے جانے اور زخمی دہشت گرد عناصر کا اسرائیلی اسپتالوں میں علاج معالجہ کئے جانے کے بھی ثبوت موجود ہیں۔ اسی طرح حالیہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اپنی صدارتی مہم کے دوران ہیلری کلنٹن سے مناظرہ کرتے ہوئے اس حقیقت کو فاش کرنا کہ داعش کی تشکیل میں امریکہ کا بنیادی کردار رہا ہے بھی قابل غور ہے۔ اس سے ملتی جلتی بات موجودہ امریکی نائب صدر مائیک پنس بھی کر چکے ہیں۔ ایسے حالات میں جب امریکی حکومت خطے پر اپنا تسلط اور قبضہ جمانے کی کوشش کر رہی تھی ایران اس میں آڑے آ گیا۔

جب داعش سے وابستہ دہشت گرد عناصر نے تہران میں ایران کی قومی اسمبلی اور انقلاب اسلامی کے بانی امام خمینی رح کے مزار کو دہشت گردانہ کاروائیوں کا نشانہ بنایا تو ایران نے اعلان کیا کہ آئندہ تین ماہ کے اندر اندر عراق سے داعش کا وجود ختم کر دیا جائے گا۔ تین ماہ کے اندر اندر ایسا ہی ہوا اور عراق سے داعش کا مکمل خاتمہ ہو گیا۔ لہذا ایران خطے میں مطلوبہ اہداف کے حصول میں امریکہ کے راستے میں بنیادی رکاوٹ بن چکا ہے۔ اسی حقیقت کی روشنی میں واضح ہو جاتا ہے کہ امریکہ کیوں اس قدر ایران کے خلاف بولتا ہے۔

امریکہ توقع کر رہا تھا کہ خطے کی سکیورٹی صورتحال اس قدر ابتر ہو جائے گی کہ خطے کے ممالک اس سے جدید ترین اسلحہ خریدنے کیلئے لائن میں لگ جائیں گے لیکن اب وہ دیکھ رہا ہے کہ عراق اور شام سے داعش کا نام و نشان محو ہو چکا ہے۔ پس یہ کوئی عجیب بات نہیں کہ امریکہ ایران پر غضبناک ہو اور دوسری طرف تکفیری دہشت گرد عناصر کی سرگرمیوں کیلئے نئی جگہ اور نئے محاذ کی تلاش میں ہو۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ داعش کی افغانستان منتقلی کس طرح مذکورہ بالا دو مقاصد یعنی اسرائیل کے تحفظ کو یقینی بنانا اور خطے میں امریکی موجودگی کا جواز فراہم کرنا کے حصول کا ذریعہ بن سکتی ہے؟

عراق اور شام میں داعش کی نابودی کے فوراً بعد ہی امریکی حکام نے داعش سے وابستہ تکفیری دہشت گرد عناصر کو افغانستان منتقل کرنے کی منصوبہ بندی شروع کر دی تھی۔ داعش کی سرگرمیوں والے علاقوں کی جغرافیائی پوزیشن کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکی حکام ایران کے اردگرد بدامنی پھیلانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ امریکی حکومت کی تمام تخریبی سرگرمیوں کا اصل ہدف ایران ہے۔

امریکی حکومت ایک طرف ایران کے اسلامی انقلاب کی نظریاتی بنیادوں اور خطے کی اقوام پر اس کے اثرات سے خوفزدہ ہے جبکہ دوسری طرف دیگر ممالک کو ایران سے ڈرا دھمکا کر انہیں اسلحہ خریدنے کی ترغیب دلا کر اپنی اسلحہ کی صنعت کو رونق بخشنے میں مصروف ہے۔ مغربی ایشیائی خطے میں اسلحہ کی بڑھتی ہوئی مقدار کی وجوہات کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے پس پردہ اہداف امریکی سرمایہ کاروں کی معیشت کو ترقی دینے پر مبنی ہیں۔ اسلامی دنیا میں دہشت گردی اور بدامنی کو جاری رکھنے میں امریکہ مندرجہ ذیل اہداف حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے:

1)۔ اسلامی دنیا، اسلامی مزاحمتی بلاک اور ایران کو مصروف کرنا:
امریکہ پہلے مرحلے پر عالم اسلام کو اندرونی مسائل اور مشکلات میں مصروف کر دینا چاہتا ہے تاکہ مسلمانوں کی توجہ پہلے درجے کے ایشوز جیسے مقبوضہ فلسطین اور بیت المقدس اور غاصب صہیونی رژیم کی طرف نہ جائے۔ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے سربراہ مائیک پومپیو نے بھی بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے اسی نکتے کی جانب اشارہ کیا اور ایران اور سعودی عرب کے درمیان جاری تناو کو اسی فریم ورک میں قرار دیا۔ دوسری مرحلے پر امریکہ کا مقصد اسلامی مزاحمت کی مرکزیت کو توڑنا ہے۔

شام، عراق اور یمن وہ تین ممالک ہیں جہاں امریکہ بدامنی اور سکیورٹی بحران پیدا کرنا چاہتا تھا۔ اس اقدام کا بنیادی مقصد اسلامی مزاحمتی بلاک کو شدید سکیورٹی بحران کا شکار کرنا تھا۔ امریکہ تیسرے مرحلے پر اسلامی جمہوریہ ایران کو اپنے ہمسایہ ممالک میں موجود بدامنی میں پھنسانا چاہتا ہے۔ داعش کی افغانستان منتقلی کا مقصد بھی ایران کو مصروف کرنا ہے۔ امریکہ ایران کے آس پاس بدامنی پھیلانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس طرح امریکہ ایران اور اسلامی مزاحمتی بلاک کو اپنے اردگرد بدامنی کا ازالہ کرنے میں مصروف کر دینا چاہتا ہے۔

2)۔ خطے میں بدامنی اور انارکی پھیلانا:
اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ مغربی ایشیا کے خطے میں بدامنی اور انارکی پھیلانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ 2001ء میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملوں جیسے فضول بہانے سے پہلے افغانستان اور دو سال بعد وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے بہانے عراق پر فوجی جارحیت کی۔ امریکہ کا مقصد نہ تو دنیا کو دہشت گردی کی لعنت سے پاک کرنا تھا اور نہ ہی بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا خاتمہ تھا۔ امریکی حملے نے افغانستان کو دنیا بھر کے شدت پسند عناصر کی سرگرمیوں کا مرکز بنا ڈالا۔ امریکہ کی فوجی کاروائی کا نتیجہ نہ صرف خطے میں امن اور استحکام کی صورت میں ظاہر نہ ہوا بلکہ افغانستان کو دیوالیہ ملک میں تبدیل کر دیا جو آج تک سکیورٹی اور سیاسی بحرانوں سے روبرو ہے۔

امریکہ نے تمام بین الاقوامی قوانین اور معاہدوں کو پامال کرتے ہوئے یکطرفہ طور پر عراق کو فوجی جارحیت کا نشانہ بنایا۔ کیوں؟ اس کا جواب امریکہ کے طویل المیعاد اہداف کی روشنی میں ہی دیا جا سکتا ہے۔ امریکہ نہیں چاہتا مغربی ایشیا کے خطے میں امن و امان اور ترقی ہو بلکہ وہ اس خطے میں انارکی اور بدامنی کا خواہاں ہے۔ اس کی وجہ بھی یہ ہے کہ اسرائیلی حکام امریکہ سے ایسا چاہتے ہیں۔ جس قدر مغربی ایشیا میں بدامنی اور لاقانونیت زیادہ ہو گی اسی قدر اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم سکھ کا سانس لے گی۔ ستمبر میں عراق کے زیر انتظام کردستان میں ریفرنڈم کے انعقاد کے دوران یہ امریکہ منصوبہ حقیقت سے زیادہ قریب ہو گیا تھا۔ جیسے ہی جنگ کے میدان میں داعش کی شکست کے آثار نمایاں ہوئے امریکی حکام نے کردستان کا شوشہ چھوڑ کر خطے کو ایک نئے بحران کا شکار کرنے کی کوشش کی لیکن اسلامی مزاحمتی بلاک کی ہوشیاری اور بروقت اقدام سے یہ سازش بھی ناکام ہو گئی۔

3)۔ عالم اسلام اور اسرائیل کے درمیان ٹکراو کو عالم اسلام اور ایران کے درمیان ٹکراو میں تبدیل کرنا:
امریکی حکومت اسلامی دنیا اور اسرائیل کے درمیان ٹکراو کی جگہ اسلامی دنیا اور ایران کے درمیان ٹکراو پیدا کرنے کی سازش کر رہی ہے۔ اسرائیلی اخباروں میں شائع ہونے والی بعض رپورٹس کی روشنی میں یہی حقیقت ظاہر ہوتی ہے۔ صہیونی اخبار ہارٹز اس بارے میں لکھتا ہے: "مختلف نسلوں کی نظر میں اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تنازعہ مشرق وسطی میں امن و امان کے قیام اور ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ قرار دیا گیا ہے۔ آج جہادی تنظیموں اور ایران کی جانب سے درپیش خطرات نے اس حقیقت کو واضح کر دیا ہے کہ خطے میں موجود مسائل کا سبب اسرائیل نہیں۔ مختلف ممالک ان خطرات سے مقابلہ کرنے کیلئے بڑے پیمانے پر اسرائیل سے مشترکہ مفادات کے حامل ہیں۔" امریکہ کی میڈیا اور پالیسی ساز مشینری بہت تیزی سے خطے میں تنازعہ کی نوعیت تبدیل کرنے کیلئے سرگرم عمل ہو چکی ہے۔ اگرچہ اس وقت اس پر خفیہ انداز میں کام ہو رہا ہے لیکن آئندہ چند ماہ اور سالوں کے دوران اس کا منظرعام پر آنے کی توقع رکھنی چاہئے۔

منبع: اسلام ٹائمز