• صارفین کی تعداد :
  • 6502
  • 4/29/2008
  • تاريخ :

ایک پہاڑ اور گلہری 

گلہری

کوئی پہاڑ یہ کہتا تھا اک گلہری سے

تجھے ہو شرم تو پانی میں جا کے ڈوب مرے

 

ذرا سی چیز ہے اس پر غرور کیا کہنا

یہ عقل اور یہ سمجھ یہ شعور کیا کہنا

 

خدا کی شان ہے ناچیز چیز بن بیٹھیں

جو بے شعور ہوں یوں باتمیز بن بیٹھیں

 

تری بساط ہے کیا میری شان کے آگے

زمین ہے پست میری آن بان کے آگے

 

جو بات مجھ میں ہے تجھ کو وہ ہے نصیب کہاں

بھلا پہاڑ کہاں جانور غریب کہاں

 

کہا یہ سُن کر گلہری نے منہ سنبھال ذرا

یہ کچی باتیں ہیں دل سے انہیں نکال ذرا

 

جو میں بڑی نہیں تیری طرح تو کیا پرواہ

نہیں تو بھی تو آخر مری طرح چھوٹا

 

ہر ایک چیز سے پیدا خدا کی قدرت ہے

کوئی بڑا کوئی چھوٹا یہ اسکی حکمت ہے

 

بڑا جہاں میں تجکو بنا دیا اس نے

مجھے درخت پہ چڑھنا سکھا دیا اس نے

 

قدم اُٹھانے کی طاقت ذرا نہیں تجھ میں

تری بڑائی ہے خوبی ہے اور کیا تجھ میں

 

جو تو بڑا ہے تو مجھ سا ہنر دکھا مجھ کو

یہ چھالیا ہی ذرا توڑ کے دکھا مجھ کو

 

نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں

کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں

 

 شاعر مشرق علامہ محمد اقبال