• صارفین کی تعداد :
  • 6946
  • 10/8/2016
  • تاريخ :



ہندوستانی عدالت نے گجرات میں مسلم کش فسادات مقدمہ میں 24 ملزموں کو سزا سنا دی

صدر باراک اوباما کی حکومت اپنے آخری چند ماہ پورے کر رہی ہے۔ اس طرح صدر اوباما کوئی نہ کوئی ایسا قدم اٹھانا چاہتے ہیں کہ تاریخ میں ان کی حکومت کو اس کارکردگی کی بنیاد پر یاد رکھا جائے۔ وہ افغانستان میں مذاکرات شروع ہونے کی امید کھو چکے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل اور فلسطینیوں کو مذاکرات شروع کرنے اور فلسطینی ریاست کے قیام کےلئے کوئی معاہدہ کرنے پر آمادہ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اسی طرح سعودی عرب کو یمن میں جنگ کرنے اور ایک نئے انسانی المیہ کا سبب بننے سے بھی نہیں روک سکے۔ عراق میں صدام حسین کی حکومت کے بعد لیبیا میں کرنل قذافی کی مستحکم حکومت کو گرا کر ایک مزید ملک میں انتشار اور بدامنی پیدا کرنے کی ذمہ داری نیٹو کے علاوہ امریکی حکومت پر بھی عائد ہوتی ہے۔ یہ کارروائی صدر باراک اوباما کے دور میں ہوئی ہے، اس لئے انہوں نے عراق میں صدر جارج بش کے جنگی اقدام کے خلاف جو موقف اختیار کیا تھا، وہی دلائل لیبیا کو غیر مستحکم کرنے کے بارے میں اوباما حکومت کے خلاف دیئے جا رہے ہیں۔ برطانیہ میں حال ہی میں سامنے آنے والی ایک پارلیمانی رپورٹ میں لیبیا میں نیٹو حملوں کو سنگین غلطی قرار دیتے ہوئے واضح کیا گیا ہے کہ حملے نامناسب اور نامکمل انٹیلی جنس کی بنیاد پر کئے گئے تھے اور اس بات کا جائزہ لینے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی کہ قذافی حکومت ختم ہونے کے بعد انتہا پسند قوتیں اس ملک پر قبضہ کر سکتی ہیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ اس وقت داعش اور القاعدہ سمیت متعدد دہشت گرد گروہ لیبیا میں اقتدار حاصل کرنے کی جنگ لڑنے میں مصروف ہیں۔
امریکہ نے شام میں صدر بشار الاسد کے خلاف ایک پرامن تحریک کو عسکری جدوجہد میں تبدیل کرنے کےلئے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ اس جنگ کے 5 برس کے دوران صدر باراک اوباما مسلسل یہ کہتے رہے ہیں کہ صدر بشار الاسد کو اقتدار چھوڑنا پڑے گا لیکن یہ موقف اختیار کرنے کےلئے ان کے پاس کوئی جواز نہیں تھا۔ امریکی حکومت کی یہ خواہش مشرق وسطیٰ میں ایران اور روس کا اثر و رسوخ محدود کرنے کی کوششوں کا حصہ تھی۔ تاہم جب گزشتہ برس روس نے دن بدن کمزور ہوتی بشار حکومت کی حمایت اور روز افزوں قوت پکڑتی داعش کے خلاف فوجی کارروائی کا فیصلہ کیا تو شام کی سیاسی اور فوجی صورتحال تیزی سے تبدیل ہونے لگی۔ بشار الاسد کی فوج کو نیا اسلحہ اور امداد ملنے سے اس نے امریکہ اور سعودی عرب کے حمایت یافتہ باغی گروہوں کے خلاف جنگی کامیابیاں حاصل کرنا شروع کر دیں۔ اس کے ساتھ ہی داعش کو دفاعی پوزیشن پر جانا پڑا۔ امریکہ ، روس کے ساتھ مقابلے بازی میں اس ایک نکاتی ایجنڈے پر عمل کرنے کےلئے آمادہ نہیں ہے کہ بشار الاسد کے خلاف جنگ بند کرکے داعش جیسے خطرناک دہشت گرد گروہ کا خاتمہ کیا جائے۔ اس جنگ میں درمیانی راستہ نکالنے کےلئے روس کے ساتھ مل کر شام کی سرکاری افواج اور باغیوں کے درمیان جنگ بندی کا نیا معاہدہ کروایا گیا تھا تاکہ صدر اوباما یہ کہتے ہوئے اقتدار سے علیحدہ ہوں کہ انہوں نے شام کی خانہ جنگی ختم کروانے کےلئے بنیاد فراہم کر دی ہے۔ لیکن یہ معاہدہ عارضی ثابت ہوا کیونکہ جنگ بندی کے چند روز بعد ہی امریکی طیاروں نے شام کی فوج پر حملہ کر کے 80 فوجیوں کو ہلاک کر دیا۔ اب روس کو صورتحال خراب کرنے کا ذمہ دار قرار دینے کےلئے یہ دعوے کئے جا رہے ہیں کہ روسی طیاروں نے حلب میں امدادی قافلے پر حملہ کیا ہے۔ ( جاری ہے )