• صارفین کی تعداد :
  • 3911
  • 6/28/2016
  • تاريخ :

جو چپ رہے گي زبانِ خنجر لہو پکارے کا آستين کا (حصّہ چہارم )

جو چپ رہے گی زبانِ خنجر لہو پکارے کا آستین کا (حصّہ چہارم )


المختصر فيض احمد فيض نے اپنے وطن کي صورت حال پر جو چند اشعار لکھے تھے آج کے حالات پر وہ صد في صد صادق آتے ہيں۔

نثار ميں تري گليوں کے اے وطن کہ جہاں
چلي ہے رسم کہ کوئي نہ سر اْٹھا کے چلے
جو کوئي چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چرا کے چلے، جسم و جاں بچا کے چلے
       بد قسمتي سے مذہبي اور مسلکي عدم رواداري کا گراف اس وقت نفرت کے آسمان کو چھوتا ہوا نظر آتا ہے کيونکہ چند سال قبل ايک کہنہ مشق شاعر اور اديب پروفيسر سبط جعفر رضو ي کو بھي اسي طرح بہيمانہ طريقے پر قتل کيا گيا واضع رہے سبط ِ جعفر امجد صابري کے استاد تھےعام طور پر شعرا ء اور صابري جيسے فنکار حضرات مذہبي منافرت سے مستشني ہوتے ہيں ليکن دہشت گردوں کے قتل و غار تگري  سے انہيں بھي اثتثني حاصل نہيں ہے۔ 
قابل ذکر بات يہ ہے کہ اس دنيا سے رخصت ہونے سے کچھ ہي دير قبل اپنے آخري سحري ٹرانسمشن ميں جو نعت مرحوم  صابري نے پر نہايت ہي خوبصورت مگر  پردرد آواز ميں پڑھي تھي  ۔ اس کے ابتدائي اشعار تو ان کے انجام خير کي نويد سناتے ہيں۔يہ نعت پڑھتے ہوئے ان کي کئي ايک مرتبہ ہچکياں بندھ گئي ہيں ۔ان کے آخري لحظاتِ زندگي ميں تاجدار حرم سے کي گئي يہ التجا کچھ بعيد نہيں درجہ  اجابت تک پہنچ گئي ہو۔
اے سبز گنبد والے منظور دعا کرنا
جب وقتِ نزع آئے ديدار عطا کرنا
ميں قبر اندھيري ميں گھبراونگاں جب تنہا
امداد کو پھر ميري آ جانا رسول اللہ 


 

تحرير:فدا حسين بالہامي