• صارفین کی تعداد :
  • 4472
  • 3/31/2016
  • تاريخ :

ایران کی میزائلی صلاحیت کی تقویت پر وزیر خارجہ کی تاکید

ایران کی میزائلی صلاحیت کی تقویت پر وزیر خارجہ کی تاکید

وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے تاکید کے ساتھ کہا ہے کہ ہم اسلامی جمہوریہ ایران کے میزائلی پروگرام سے متعلق امریکی اقدامات کا اپنی میزائلی صلاحیت کی زیادہ سے زیادہ تقویت کے ساتھ جواب دیں گے۔

محمد جواد ظریف نے صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی کے ساتھ پاکستان کے دورے کے موقع پر کل اسلام آباد میں واشنگٹن کی جانب سے تہران کے میزائلی پروگرام کے خلاف لگائی جانے والی حالیہ پابندیوں کے خلاف اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے ایران کی میزائلی صلاحیت کی زیادہ سے زیادہ تقویت پر تاکید کی۔

مہر خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق محمد جواد ظریف نے اس بات کو بیان کرتے ہوئے کہ ایران اپنے میزائلی پروگرام میں کسی حد کا قائل نہیں ہے کہا کہ اس پروگرام کا ایٹمی ہتھیاروں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ محمد جواد ظریف کا مزید کہنا تھا کہ صدر مملکت کی جانب سے وزیر دفاع کو دیئےجانے والے حکم اور صدر مملکت کی تاکید کی بنیاد پر ایران کی میزائلی صلاحیت کی تقویت کی جائے گی۔ مغرب کے سیاسی اور خبری حلقے ایران کے بیلسٹک میزائلوں کے پروگرام کو خطے خصوصا امریکہ کے علاقائی اتحادیوں کے لئے خطرہ جانتے ہیں۔

امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ایران کے بیلسٹک میزائلوں کے مقابلے کے لئے خلیج فارس تعاون کونسل کے رکن عرب ممالک کے لئے اینٹی میزائل سسٹم نصب کئے جانے کے ذریعے ان ممالک کی اسلحہ جاتی صلاحیت میں اضافہ کیا جانا چاہئے۔ درحقیقت امریکی حکام اس طرح کا ماحول پیدا کر کے خلیج فارس کے ساحلی ممالک کے ہاتھوں زیادہ سے زیادہ ہتھیار فروخت کرنے کا راستہ ہموار کرنے کے درپے ہیں۔

اعداد و شمار سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ ایران کے میزائلی تجربات کے خلاف شور مچانے والوں نے سنہ دو ہزار پندرہ میں علاقائی ممالک کو ایک سو ارب ڈالر سے زیادہ مالیت کے ہتھیار فروخت کئے تھے۔ امریکی حکام نام نہاد میزائلی خطرے کے مقابلے کے بہانے ایران مخالف پابندیوں میں شدت لانے کی ضرورت پر تاکید کے ذریعے اب ایران پر ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کی کوشش کے بہانے نہیں بلکہ دوسرے بہانوں کے ساتھ پابندیاں برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ اس سلسلے میں امریکہ کی وزارت خزانہ نے جمعرات کے دن ایران کی ماہان ایئرلائن اور میزائلی پروگرام کے ساتھ تعاون کرنے کے الزام میں چھ ایرانی اور غیر ملکی کمپنیوں اور دو برطانوی شہریوں کے خلاف پابندیاں عائد کر دی ہیں۔

یہ اقدامات ایسی حالت میں انجام دیئے گئے ہیں کہ جب ایران کی دفاعی پالیسی ہمیشہ دفاع کی بنیاد پر ہی استوار رہی ہے اور وہ ہرگز ایٹمی معاہدے کے منافی نہیں ہے۔ ایران کے میزائلی تجربات بھی اسی بنیاد پر ہیں۔

ایران پر عراق کی جانب سے مسلط کردہ جنگ کے دوران جب صدام حکومت نے مشرقی اور مغربی طاقتوں کی جانب سے ملنے والے میزائلوں کے ذریعے ایران کے شہروں کو نشانہ بنایا تو جو ممالک آج ایران کی دفاعی صلاحیت پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں انہوں نے صدام کو میزائلی حملوں سے روکنے کے لئے حتی ایک میزائل بھی ایران کو نہیں دیا۔ یہ بات مسلّم ہے کہ ایران نے ہمیشہ دفاعی پالیسی ہی اختیار کی ہے اور اس نے کبھی بھی جنگ کا آغاز نہیں کیا ہے اور نہ ہی کسی ملک کے خلاف جارحیت کی کوشش کی ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے خطرات کے جاری رہنے اور مسلط کردہ جنگ کے تجربے کے پیش نظر اپنی دفاعی ڈاکٹرائن کو اپنی دفاعی صلاحیت کی بنیاد پر استوار کیا ہے اور یہ دفاعی پالیسی کسی بھی طرح سے امن و استحکام کے منافی نہیں ہے۔

بنابریں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایران کے میزائلی تجربات سے خوفزدہ ہونے کی کیا ضرورت ہے حالانکہ خطرے کے مقابلے کے لئے دفاعی آمادگی بین الاقوامی سطح پر جائز سمجھی جاتی ہے۔ ایران بھی خطرات کے مقابلے کے لئے دفاعی پالیسی اختیار کرتے ہوئے بیلسٹک میزائلوں کے تجربات کر رہا ہے۔ بنابریں کسی بھی ملک کو بہانوں کے ذریعے اس حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا ہے۔ محمد جواد ظریف نے بھی اسی بنیاد پر ایران کے میزائلی پروگرام کی تقویت پر تاکید کی ہے۔