• صارفین کی تعداد :
  • 4446
  • 3/30/2016
  • تاريخ :

پانچ برسوں کے دوران داعش میں ہزاروں دہشت گردوں کی شمولیت

پانچ برسوں کے دوران داعش میں ہزاروں دہشت گردوں کی شمولیت


امریکہ کے اسٹریٹیجک تحقیقات کے مرکز سوفان گروپ کی تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ سنہ دو ہزار گیارہ سے اب تک ہزاروں افراد دہشت گرد گروہ داعش میں شمولیت کے لئے شام اور عراق جا چکے ہیں۔

سوفان گروپ کی تحقیقات سے اس بات کی بھی نشاندہی ہوتی ہے کہ داعش میں غیر ملکیوں کی شمولیت کی روک تھام کے لئےکی جانے والی کوششوں کے باوجود گزشتہ پانچ برسوں کے دوران چھیاسی ممالک کے اکتیس ہزار سے زیادہ افراد دہشت گرد گروہ داعش میں شامل ہونے کے لئے عراق اور شام گئے۔

سوفان گروپ کی رپورٹ میں مزید آیا ہے کہ تیونس کی سات سو خواتین سمیت چھ ہزار افراد نے دہشت گرد گروہ داعش میں شمولیت سے متعلق اس گروہ کی درخواست کا مثبت جواب دیا۔ اس تعداد سے پتہ چلتا ہے کہ عراق اور شام میں سب سے زیادہ دہشت گرد تیونس سے ہی گئے ہیں۔ امریکہ کے اسٹریٹیجک تحقیقات کے اس مرکز خبردار کیا ہے کہ دہشت گرد گروہ داعش کے عناصر کی اپنے اپنے ملک میں واپسی ان ممالک خصوصا ان میں سے کمزور ممالک کے استحکام کے لئے بنیادی خطرہ بن جائے گی۔ سوفان گروپ کی رپورٹ ایسی حالت میں سامنے آئی ہے کہ جب دہشت گرد گروہ داعش نے حالیہ برسوں کے دوران امریکہ اور اس کے عرب اور مغربی حامیوں کی مالی اور فوجی حمایت کے ذریعے علاقائی ممالک خصوصا عراق اور شام میں بہت زیادہ جرائم و مظالم کا ارتکاب کیا ہے۔ لیکن اب اس گروہ کی دہشت گردانہ کارروائیوں میں پیدا ہونے والی وسعت اور چند یورپی ممالک میں دہشت گردانہ واقعات ہونے کے بعد دنیا والوں نے اس گروہ اور دہشت گردی کے خطرے کے مقابلے کی نوعیت پر توجہ مرکوز کر دی ہے۔اس کے باوجود ماہرین کے مطابق یورپی اور افریقی ممالک کے بہت سے نوجوان دہشت گرد گروہ داعش میں شمولیت کی جانب مائل ہیں۔ اور اعداد و شمار سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ فرانس اور برطانوی نوجوان بڑی تعداد میں اس دہشت گرد گروہ میں شامل ہو چکے ہیں۔ افریقی ممالک سے بھی بہت سے نوجوان اور لیبیا اور تیونس کی خواتین بھی اس گروہ میں شامل ہو چکی ہیں اور یہ لوگ ضروری تربیت پانے کے بعد اپنے اپنے ملک واپس لوٹ گئے ہیں۔

بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ خاص طور سے افریقی ممالک کی اقتصادی مشکلات اس گروہ میں نوجوانوں کے شامل ہونے کی وجہ ہیں۔ دہشت گرد گروہ داعش افراد کو اپنے ساتھ ملانے کے لئے ان کو زیادہ آمدنی، روزگار اور ان کے اہل خانہ کی سیاسی اور اقتصادی حمایت کا وعدہ کرتا ہے۔ اس لئے بہت سے عرب ممالک کی بگڑتی ہوئی اقتصادی حالت کے پیش نظر مختلف عرب ممالک خصوصا زیادہ اقتصادی مشکلات کے شکار عرب ممالک کے شہریوں کے لئے بہت زیادہ اجرت کی تجویز کا پرکشش ہونا ایک فطری بات ہے۔ خاص طور پر اس بات کے پیش نظر کہ یہ گروہ دہشت گرد عناصر کے اہل خانہ کی حمایت اور ان کی مالی مدد بھی کرتا ہے۔

تیونس ایک ایسا ملک ہے جو شدید سیاسی کشمکش کے مرحلے سے گزرنے کے باوجود بھی بہت سیاسی مشکلات سے دوچار ہے اور اس ملک کے حکام بنیادی تنصیبات کی فراہمی اور سرمایہ کاری کے ذریعے عوام خصوصا نوجوانوں کی اقتصادی حالت بہتر بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ دوسری جانب دوسری چونکہ تیونس کی سرحد لیبیا سے ملتی ہے اور لیبیا میں دہشت گرد گروہ داعش سرگرم ہے اس لئے تیونس کے شہری لیبیا میں داخلے کے بعد دہشت گرد گروہ داعش میں شامل ہونے اور ضروری تربیت اور دولت حاصل کرنے کے بعد اپنے ملک واپس لوٹ سکتے ہیں۔

دہشت گرد گروہ داعش کے بہت سے عناصر اپنے ملک میں واپس لوٹنے کے بعد نہ صرف دہشت گردانہ کارروائیاں انجام دینے کی صلاحیت حاصل کر لیتے ہیں بلکہ وہ دوسرے افراد کو بھی اس دہشت گرد گروہ میں شامل کرنے لگتے ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ دہشت گرد گروہ داعش اور القاعدہ عرب اور دوسرے ممالک میں واقع مساجد اور کرائے پر مکانات لے کر ان کو دوسرے افراد کو اپنے ساتھ ملانے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ وہ ان افراد کو نظریاتی طور پر متاثر کرنے اور مالی مدد کا لالچ دے کر ان کو اپنے ساتھ ملاتے ہیں۔ لوگوں کو ڈرا دھمکا کر ان سے زبردستی پیسے چھیننا اور تیل اور اسلحے کی اسمگلنگ بھی دہشت گرد گروہ داعش کے مالی ذرائع میں سے شمار ہوتی ہے۔