• صارفین کی تعداد :
  • 4500
  • 3/28/2016
  • تاريخ :

امریکہ: عراق میں دوبارہ فوجیوں کی تعداد میں اضافہ

امریکہ: عراق میں دوبارہ فوجیوں کی تعداد میں اضافہ

امریکہ داعش سے مقابلے کے بہانے عرا ق میں ایک بار پھر اپنے فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کرنا چاہتا ہے۔

امریکہ کے چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے سربراہ جنرل جوزف ڈنفورڈ نے جمعے کے دن کہا ہے کہ امریکہ دہشتگرد گروہ داعش سے مقابلے کے تحت عراق میں اپنے فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کرنا چاہتا ہے۔ادھر امریکی وزیر جنگ ایشٹن کارٹر نے اپنے ملک کے اس منصوبے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ امریکہ عراق میں فوجی موجودگی بڑھانا چاہتا ہے کہا کہ پنٹاگون متعدد آپشنوں کا جائزہ لے رہا ہے تاہم ابھی کوئی تجویز وائٹ ہاوس کے سامنے پیش نہیں کی ہے۔ اس تناظر میں پنٹاگون وائٹ ہاوس کو تجویز دینے والا ہے کہ عراق میں امریکی فوج کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔ کانگریس کا جریدہ ہیل نے چند دنون قبل اس بارے میں لکھا تھا کہ عراق میں امریکی فوجی کمان ایک منصوبہ تیار کررہی ہے جس کی اساس پر امریکی فوجی عراق کے شہر موصل کو آزاد کرانے کی کاروائیوں میں شرکت کریں گے۔اس منصوبے کی بنا پر یہ طے پایا ہے کہ ہر عراقی بریگیڈ میں جو موصل کو آزاد کرانے کے آپریشن میں شرکت کرے گا پندرہ امریکی فوجی شامل ہونگے۔

ایسا لگتا ہے کہ امریکہ داعش سے مقابلے کے بہانے عراق میں دوبارہ اپنے فوجی تعینات کرنا چاہتا ہے۔ اس وقت عراق میں امریکہ کے سیکڑوں فوجی مشیر اور اسپیشل فورس کے فوجی موجود ہیں اور امریکہ کے مزید دو سو فوجیوں کے آنے سے عراق میں امریکی فوجیوں کی تعداد اچھی خاصی بڑھ جائے گی جو عراق کے مختلف علاقوں میں فوجی اڈوں میں تعینات ہونگے۔ پنٹاگون نے حال ہی میں اعتراف کیا ہےکہ اس نے شمالی عراق میں صرف امریکی بحری فوجیوں کے لئے ایک چھوٹا فوجی اڈا قائم کیا ہے۔ اس فوجی اڈے کا پتہ اس وقت ملا جب داعش کے راکٹ حملے میں ایک امریکی فوجی ہلاک اور کئی زخمی ہوگئے تھے۔ بظاہر امریکہ کے یہ بحری فوجی مارچ کی ابتداء سے اس فوجی اڈے میں تعینات ہیں۔ اس وقت سرکاری طور پر عراق میں امریکی فوجیوں کی تعداد تین ہزار آٹھ سو ستر ہے لیکن امریکی حکام کہتے ہیں کہ دراصل پانچ ہزار امریکی فوجی عراق میں موجود ہیں، جنرل ڈنفورڈ نے بھی اس تعداد کو مسترد نہیں کیا ہے۔ اس وقت امریکی فوجی عراقی سیکورٹی فورسز سے تعاون کررہی ہیں اور اوباما کے حکم کے مطابق امریکی فوجیوں کو حملوں اور جھڑپوں میں شرکت کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ امریکی صدر باراک اوباما نے دسمبر دوہزار پندرہ میں ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ اس عھد کے پابند ہیں کہ وہ بری فوجیں بھیج کر جنگ عراق کی طرح کے حملے نہیں کریں گے لیکن داعش دہشتگرد گروہ کو شکست دینا بھی ضروری ہے۔ قرائن سے پتہ چلتا ہے کہ اگرچہ امریکی یہ دعوے کرتے ہیں کہ انہوں نے داعش کے خلاف بہت زیادہ فضائی حملے کئے ہیں اور خاص طور سے اس کے سرغنوں کو ہلاک کرکے نیز تیل برامد کرنے کی اسکی توانائی کو کمزور بناکر اسے فوجی اور اقتصادی لحاظ سے خاصہ نقصان پہنچایا ہے لیکن ان اقدامات کا خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا ہے۔اب امریکہ عراق کے لئے مزید فوجی بھیج کر عملی طور سے عراق میں اپنے فوجی تعینات کرنے کی منصوبہ بندی کررہا ہے۔ اس طرح اگرچہ عراق کے سابق وزیر اعظم نوری مالکی کی مخالفت کی بنا پر امریکی فوجیوں کو دسمبر دو ہزار گیارہ میں عراق سے انخلا کرنا پڑا تھا لیکن اب ایک اور بہانے سے عراق میں امریکی فوجیوں کی تدریجا بڑھتی ہوئی تعداد کا مشاہدہ کیا جارہا ہے اور اب اس بات کا منتظر رہنا ہوگا کہ عراق کے مختلف علاقوں میں امریکی فوجی اڈے بھی وجود میں آجائیں گے اور فوجیوں کی بڑی تعداد بھی تعینات ہوجائے گی۔ یہ ایسے حالات میں ہے کہ عراق کی بہت سی سیاسی شخصیتیں اور سیاسی گروہ منجملہ شیعہ پارٹیوں کے سربراہوں نے عراق میں بیرونی ممالک بالخصوص امریکی فوجیوں کی موجودگی کی مخالفت کی ہے۔ دراصل عراقی قوم داعش کے خلاف امریکہ کی صداقت پر اعتماد نہیں کرتی ہے کیونکہ دوہزار پندرہ میں داعش کے لئے امریکہ کی لاجسیٹیک مدد کے کئی واقعات سامنے آئے تھے اور امریکہ کے بعض پائلٹوں نے بھی اعتراف کیا تھا کہ وہ داعش کے ٹھکانوں پرحملے کرسکتے تھے لیکن ان کے سینئر افسر انہیں داعش پر حملے کرنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ ان باتوں سے بڑھ کر ایک سوال یہ اٹھتا ہےکہ کیا امریکہ اور سعودی عرب اور ترکی جیسے اس کے اتحادیوں نے داعش کو جنم نہیں دیا تھا اور اس کا مقصد شام کی قانونی حکومت کو سرنگون کرنا نہیں تھا؟ اور اس وقت امریکہ کن وجوہات کی بنا پر داعش کا مقابلہ کرنے کا دعویدار بنا ہوا ہے؟ اور اگر وہ ایسا اقدام کربھی دیتا ہے تو کیا وہ داعش کو نابود کرے گا یا داعش کی طاقت کو محدود کرنا چاہتا ہے اور اسے علاقے میں اپنے اھداف کے لئے استعمال کرنے کے لئے رکھ چھوڑے گا؟