• صارفین کی تعداد :
  • 15790
  • 3/6/2016
  • تاريخ :

ٹوٹکوں میں علاج ڈھونڈتی قوم (پہلا حصہ)

ٹوٹکوں میں علاج ڈھونڈتی قوم (پہلا حصہ)


دس سال پہلے ہماری ایک رشتے دار جگر کے کینسر سے 8 ماہ کی لڑائی کے بعد چل بسیں۔
جب ہم نے سنا تھا کہ ان کا کینسر تیسری اسٹیج پر ہے، تو یہ ایسا صدمہ تھا جسے ہم بیان نہیں کر سکتے۔ اگلے چند ماہ میں ان کا علاج چلتا رہا، لیکن یہ علاج جدید طبی معیارات کے بجائے غیر روایتی تھا۔ لیکن یہ ان لوگوں کے لیے کافی روایتی تھا جو علاج معالجے کے حوالے سے سنی سنائی باتوں پر یقین رکھتے ہیں، یا جنہیں معلوم نہیں ہوتا کہ ایسے کسی بھی مرض کی صورت میں کہاں جانا چاہیے یا کیا کرنا چاہیے۔
ڈاکٹروں نے ہمیں بتا دیا تھا کہ جدید علاج کے ساتھ بھی ان کے زندہ بچ پانے کے بہت کم امکانات ہیں۔ لیکن وہ جس سہولتوں سے محروم جس دور دراز گاؤں میں رہتی تھیں، وہاں پر شہر کے بڑے ہسپتال میں جانے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔
جو جملہ سب سے زیادہ سننے میں آتا تھا، وہ یہ کہ 'میرے پیر جی کے پاس چلی جائیں، وہ انشاءاللہ آپ کو بالکل ٹھیک کردیں گے۔'
اور انہوں نے ایسا ہی کیا۔
معذوری کی وجہ: ڈاکٹروں کی غفلت

جب پیروں سے کام نہیں بنا، تو انہوں نے حکیموں اور ہومیوپیتھک ڈاکٹروں کے پاس جان شروع کر دیا۔ ان کے شربتوں اور میٹھی گولیوں نے بھی 'مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی' کہ مصداق کام دکھایا۔

تو آخر کار جب تکلیف برداشت سے باہر ہوگئی، تو وہ شوکت خانم ہسپتال لاہور آئیں، لیکن تب تک بہت دیر ہوچکی تھی، اور کچھ ہی ہفتوں بعد وہ چل بسیں۔
مرض کی تشخیص کے بعد میری آنٹی کا رویہ گیر معمولی نہیں تھا۔ اور نہ ہی ان کے چاہنے والوں کا رویہ غیر معمولی تھا، جو انہیں ماڈرن دوائیوں کے بجائے ہر دوسری چیز آزمانے کے مشورے دیتے رہے۔ لیکن یہ صرف کم علمی کی وجہ سے نہیں تھا، بلکہ اس وجہ سے بھی تھا کہ درست علاج تک رسائی نہ تھی، اور سرکاری ہسپتالوں کے تھکے ماندے ڈاکٹروں کی تشخیص اور تجاویز ہمیشہ قابلِ اعتبار نہیں ہوتیں۔
مرض کی خود تشخیص کرنا اور خود ہی دوائیں تجویز کرنا ہماری قومی عادت بن چکی ہے۔ اور اگر دیکھا جائے کہ کس طرح ہمارے ملک کی ایک بڑی آبادی صحت کی بنیادی سہولیات سے محروم ہے، یہ بات آسانی سے سمجھ آسکتی ہے۔
شہروں میں بھی، جہاں پرائیوٹ کلینکس، ہسپتالوں، اور لیبارٹریوں کی کمی نہیں، وہاں پر بھی ہم بیماری کی صورت میں ہمیشہ سب سے پہلے ڈاکٹر کے پاس نہیں جاتے۔ اور اس کی وجہ سادہ سی ہے: نانی اور دادی کے ٹوٹکے سردی نزلہ زکام وغیرہ کے لیے مؤثر ثابت ہوتے ہیں۔
ہم جو بھی دوائیں لیتے ہیں، ان کے اپنے سائیڈ افیکٹس ہوتے ہیں۔ اس لیے احتیاط برتنی چاہیے، اور خود کو اس حوالے سے آگاہ رکھنا چاہیے۔ اینٹی بائیوٹکس کا زیادہ استعمال انسان کو بیماریوں کے نشانے پر لے آتا ہے، کیونکہ آہستہ آہستہ بیکٹیریا اس کے عادی ہوتے جاتے ہیں۔
جاری ہے۔۔۔