• صارفین کی تعداد :
  • 1786
  • 4/2/2015
  • تاريخ :

ایران کے ایٹمی مسئلے  کا کامیاب حل

ایٹمی معاملے پرایران چین مذاکرات


اسلامی جمہوریہ ایران اور گروپ پانچ جمع ایک ممالک تہران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے ایک معاہدے پر متفق ہو گئے ہیں۔ سوئزرلینڈ کے شہر لوزان سے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے ٹوئیٹر پیغام میں کہا کہ مسائل کا حل تلاش کر لیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجوزہ جامع معاہدے کے تحت ایران کے خلاف اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی تمام قراردادیں کالعدم قرار دی جائیں گی، جبکہ ایران ایک جوہری پلانٹ پر یورینیم کی افزودگی کا عمل جاری رکھے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ چھ عالمی طاقتوں کے ساتھ ایک معاہدے پر متفق ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ امریکا سے تعلقات بھی معمول پر آ جائیں گے۔ ان کے بقول اس معاہدے کا ایران اور امریکہ کے تعلقات سے کوئی تعلق نہیں، ہمارے واشنگٹن سے سنجیدہ اختلافات ہیں۔
لوزان سے ہمارے نمائندے کی رپورٹ کے مطابق 26 مارچ سے جاری آٹھ روزہ مذاکرات کے بعد جوہری معاہدے کا فریم ورک طے پا گیا ہے۔ مذاکرات کے اختتام پر مشترکہ اعلامیہ پڑھتے ہوئے یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ فیڈریکا موگرینی کا کہنا تھا کہ معاہدے کے اہم نکات پر تمام فریقین کا اتفاق رائے ہو گیا ہے۔ معاہدے کے تحت ایران کی یورینیم افزودگی کی صلاحیت کم کر دی جائے گی جبکہ پہلے سے افزودہ کی گئی یورینیم کی طاقت میں بھی کمی لائی جائے گی۔ معاہدے کا حتمی متن تیس جون تک مکمل کر لیا جائے گا اور اسے اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی ضمانت حاصل ہوگی۔ معاہدےکے تحت ایران کی جوہری تنصیبات اور یورینیم کی افزودگی کے عمل کی نگرانی آئی اے ای اے سے کرائی جائے گی۔ معاہدے کی پاسداری اور آئی اے ای اے کی جانب سے تصدیق پر ایران پر سے امریکی اور یورپی ممالک کی جانب سے عائد اقتصادی پابندیاں اٹھا لی جائیں گی۔
امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے بھی اپنے ٹوئیٹر میں لکھا ہے کہ یہ ایک "بڑا" دن ہے کیونکہ عالمی طاقتیں اور ایران نے جوہری پروگرام کے مسائل سے متعلق اصول طے کر لئے ہیں اور حتمی ڈیل کے لئے جلد کام ہو گا۔ صدر مملکت حسن روحانی نے اپنے ٹوئیٹ پیغام میں کہا ہے کہ معاہدے کا مسودہ تیس جون تک مکمل کر لیا جائے گا۔ جرمن وزارت خارجہ کا بھی کہنا ہے کہ ایک معاہدے کے مرکزی نکات پر اتفاق ہو گیا ہے۔
ادھر امریکی صدر باراک اوباما نے کہا ہے کہ ایران سے سمجھوتےکا فریم ورک بنا لیا گیا ہے، اب تہران کو جوہری ہتھیاروں کی تیاری سے روکا جاسکے گا۔ ایران اور چھ عالمی طاقتوں کی جانب سے جوہری تنازع پر معاہدے کے فریم ورک پر اتفاق کے حوالے سے وائٹ ہائوس میں خطاب کرتے ہوئے اوباما نے اس بات کا اقرار کیا کہ جوہری معاہدے پر کافی عرصے سے ایران کے ساتھ مذاکرات چل رہے تھے، جبکہ امریکہ نے ایران پر تاریخ کی سخت ترین پابندیاں عائد کر رکھی تھیں۔ اوباما نے کہا کہ ایران کے ایٹمی پروگرام پر سمجھوتہ اچھا ہے، جس کے تحت ایرانی جوہری پروگرام کا معائنہ بڑھایا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ معاہدے کے مطابق ایران کو ایٹمی پروگرام محدود کرنا ہو گا اور وہ جوہری بم نہیں بنا سکے گا۔ باراک اوبامہ نے کہا کہ ایرانی جوہری پروگرام کی کڑی نگرانی کی جائے گی، کوئی مشتبہ چیز دیکھی تو معائنہ کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران کے ساتھ عبوری سمجھوتے سے ہمارے مقاصد پورے ہوگئے، کیونکہ ایران کو یورینیم افزودگی کی شرح مقررہ حد تک لانی ہو گی، جبکہ جون تک معاہدے کی تفصیلات طے کر لی جائیں گی، جس کے تحت 10سال تک ایران کوئی ایٹمی ری ایکٹر قائم نہیں کر سکے گا۔
دیگر ذرائع کے معاہدے کے تحت ایران سینٹری فیوجز کی تعداد 19 ہزار سے کم کرکے 6 ہزار کرے گا۔ سوئٹزرلینڈ کے شہر لوزین میں ایران اور یورپین یونین کے درمیان گذشتہ 8 روز سے طویل مذاکرات جاری تھے۔ یورپی یونین کی فارن پالیسی چیف فیڈریکا موگیرینی کا کہنا تھا کہ ایران کے افزودگی کی صلاحیت اور ذخیرے کو محدود کیا جائے گا اور ایران کے جوہری پروگرام پر جامع معاہدہ 30 جون تک مکمل کر لیا جائے گا۔ معاہدہ کو حتمی شکل دینے کے بعد ایرانی وزیر خارجہ جاوید ظریف کے ہمراہ نیوز کانفرنس کرتے ہوئے فیڈریکا موگیرینی کا کہنا تھا کہ ایران کے جوہری پروگرام کے مستقبل کے حوالے سے ''فیصلہ کُن قدم'' اٹھایا گیا ہے۔

 


متعلقہ تحریریں:

ايران خطے کي ايک موثر طاقت

ايٹمي مذاکرات ميں پيشرفت ہو رہي ہے