• صارفین کی تعداد :
  • 2286
  • 1/27/2014
  • تاريخ :

اردو ادب ميں مرثيہ نگاري  ( حصّہ پنجم )

نواسۂ رسول

اس وقت بھي مرثيہ نگاري کو فروغ دينے کي ضرورت ہے اور اس مقدس مشن کے ليۓ آج بھي آل پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم سے محبت کرنے والے شعراء حضرات اس پہلو پر اپني کاوشوں ميں مصروف نظر آتے ہيں - موجودہ حالات ميں مرثيہ جيسي صنف ادب کے فروغ کي جتني ضرورت ہے اتني شايد پہلے کبھي نہ تھي، بلکہ مرثيہ کہنے والوں کو بھي شايد اس کي اہميت کا اتنا اندازہ نہ ہوگا- مگر آج ہم محسوس کرسکتے ہيں کہ مرثيے ميں جو فضا معاشرتي واخلاقي اقدار کي، اعليٰ کرداروں کے ذريعے حق گوئي اطاعت الٰہي، اطاعت و عبادت گزاري کي پيدا کي گئي ہے، ايمان و ايقان کي اصل روح، حق و باطل ميں تميز کے جو مظاہرے پيش کيے گئے ہيں وہ ہماري گرتي ہوئي اخلاقي اقدار اور مٹتي ہوئي تہذيب کو نہ صرف سنبھال سکتي ہے بلکہ ہميں ايک بار پھر زندہ قوم کے طور پر نماياں کرسکتي ہے- اردو نصاب کے ہر درجے ميں مرثيہ کو ضرور شامل کرنا چاہيے- اساتذہ مرثيہ پڑھاتے ہوئے موضوع اور فضا کو طالب علم کو اچھي طرح ذہن نشين کرانے کي صلاحيت بھي رکھتے ہوں -

تحقيق سے اگرچہ يہ بات تو تقريباً ثابت ہو جاتي ہے کہ دلي ميں اردو شاعري دکن سے آئي ہے، ليکن محمد شاہي خاندان کي فن مرثيہ کي سرپرستي کے باعث دہلي کے شعراء نے دکن کے شعراء سے الگ اپنا مقام اور منفرد حيثيت کا لوہا منوايا ہے- دہلي کے ساتھ لکھنو کا ذکر بھي ضروري ہے- 1775ء ميں شجاع الدولہ کے عہد ميں مرثيہ گوئي کا آغاز ہوا- لکھنو کے ہي ايک شاعر "سکندر" کو يہ اعزاز حاصل ہے کہ اُس نے اردو کے علاوہ پنجابي، بنگلہ اور مارواڑي ميں بھي منفرد مرثيے لکھے ہيں- دراصل سکندر دہلي سے اودھ آگئے تھے اور اودھ لکھنو کے ہي ايک شاعر "سکندر" کو يہ اعزاز حاصل ہے کہ اُس نے اردو کے علاوہ پنجابي، بنگلہ اور مارواڑي ميں بھي منفرد مرثيے لکھے ہيں- دراصل سکندر دہلي سے اودھ آ گئے تھے اور اودھ لکھنو کا دارالحکومت تھا-

لکھنو ميں مرثيہ نگاري کے پانچويں دور کو جديد مرثيہ گوئي کي بنياد قرار ديا جاتا ہے اور جديد مرثيہ گوئي کا موجد مرزا اوج کو تسليم کيا جاتا ہے- پھر 1918 ء ميں جوش مليح آبادي نے "آواز حق" کے نام سے مرثيہ لکھ کر مرثيے کي دنيا ميں ايک نئي اور انقلابي جہت متعارف کرائي- بعد ازاں 1944ء ميں جوش نے "حسين اور انقلاب" نامي مرثيہ لکھ کر مرثيہ کے روايتي اسلوب کو نئي جدتوں اور جہتوں سے مزين کر ديا- جوش کے مرثيے "حسين (ع) اور انقلاب" کا ايک بند نمونہ کے طور پر ملاحظہ فرمائيے-

پھر آفتاب ِحق ہے لبِ بام اے حسين

پھر بزم ِ آب وگل ميں ہے کہرام اے حسين

پھر زندگي ہے سست و سبک گام اے حسين

پھر حريت ہے موردِ الزام اے حسين

ذوقِ فساد و ولولہ شر لئے ہوئے

پھر عصرِ نو کے شمر ہيں خنجر لئے ہوئے

( جاري ہے )


متعلقہ تحریریں:

کربلا منزل بہ منزل

کربلا کا واقعہ