• صارفین کی تعداد :
  • 3407
  • 1/2/2014
  • تاريخ :

جواني کے بارے ميں سوال ہو گا

جوانی کے بارے میں سوال ہو گا

جوانوں کے نام امام علي  کي وصيتيں (حصّہ اوّل)

تقويٰ ايک مضبوط حصار (حصّہ دوّم)

تقويتِ ارادہ  (حصّہ سوّم)

جواني وہ عظيم نعمت ہے جس کے بارے ميں روزِ قيامت سوال کيا جائے گا- ايک روايت ميں رسول گرامي غ– سے منقول ہے کہ آپ  نے فرمايا : قيامت کے دن بندگانِ خدا ميں سے کوئي بھي اس وقت تک ايک بھي قدم آگے نہ بڑھا سکے گا جب تک اس سے ان چار چيزوں کے بارے ميںباز پرس نہ کر لي جائے (1)عمر کے بارے ميں' کہ اسے کس راہ ميں بسر کيا '(2)جواني کے بارے ميں' کہ اسے کيسے گزارا' (3)مال کے بارے ميں' کہ اسے کيسے کمايا اور کہاں خرچ کيا 'اور (4)ميرے اہل بيت  سے محبت اور دوستي کے بارے ميں- (بحارالانوار ـ ج74 ـ ص 16ظ )

اس روايت ميں رسول کريم غ– نے زندگي کے ادوار ميں سے ''دورِجواني'' کا تذکرہ عليحدہ اور جداگانہ طور پر کيا ہے' جس سے اس دور کي خصوصي اہميت ظاہر ہوتي ہے -

افسوس کہ جواني کے غير معمولي حالات اور استثنائي مواقع مختصر اور قليل مدتي ہوتے ہيں' يہ دور جلد گزر جاتا ہے - لہٰذا جب تک يہ ہے اسکي قدر کريں' اور اسے ايک سرمايا سمجھيں-امام علي  فرماتے ہيں : شَيْئان لا يُعرَفُ فَضلُھُما اِلاّ مَن فَقَدَ ھُما : الشبابَ والعافيةَ(دو چيزيںايسي ہيں جن کي قدر صرف اسي وقت معلوم ہوتي ہے جب يہ ہاتھ سے نکل جاتي ہيں' ايک جواني اور دوسرے تندرستي -غرر الحکم و درر الکلم ـ ج 4ـ ص 183)

3 ـ خود سازي

دورِ جواني اپني تربيت اور تعمير ذات کا بہترين زمانہ ہے' کيونکہ جوان کا صفحہء دل سادہ ہوتا ہے 'اس پرابھي برائيوں او ر ناپسنديدہ خصلتوں نے اپنا رنگ نہيں جمايا ہوتا'جو ان ميں خرابياں اور بري عادتيں ابھي پختہ نہيں ہوئي ہوتيں' اور اس کے دل ميں جلتي ہوئي فطرت کي شمع ابھي گل نہيں ہوئي ہوتي- امام علي  اپنے فرزند حسن مجتبيٰ  سے يوں فرماتے ہيں : اِنَّما قَلبُ الحَدَث کالاء رض الخالية ما اُلقيَ فيھا مِن شَي ئٍ قَبِلَتُہ فَبا دَرتُکَ بِالاءدب قَبلَ اَنْ يَقسُوا قَلبک و يَشَتَغِلَ لُبُّکَ ( بے شک نوجوان کا دل خالي زمين کي مانند ہوتا ہے- جو چيز اس ميں ڈالي جائے اسے قبول کر ليتا ہے- لہٰذااس سے قبل کہ تمہارا دل سخت ہو جائے اور تمہارا ذہن دوسري باتوں ميں مشغول ہوجائے 'ميں نے تمہاري تعليم و تربيت کيلئے قدم اٹھايا ہے-نہج البلاغہ-مکتوب 31)

جواني ميں ناپسنديدہ عادات و اطوار کي جڑيں مضبوط نہيں ہوئي ہوتيں اس لئے  آساني سے ان سے چھٹکارا پاياجا سکتا ہے- جوانوں کو چاہئے کہ اس قيمتي موقع سے فائدہ اٹھائيں- امام خميني  نے بھي بارہا ايام جواني ميں اصلاح کي ضرورت پر زور ديا ہے' اسي سلسلے ميں آپ نے اپني ايک تقرير ميں فرمايا : جہاد اکبر 'وہ جہاد ہے جو انسان اپنے سرکش نفس کے خلاف انجام ديتا ہے- آپ جوانوں کو اسي دور سے اس جہاد کا آغاز کر دينا چاہئے' اسے اس وقت تک کے لئے موخر نہ کيجئے گا جب آپ جواني کي قوتوں سے محروم ہو جائيں- انسان جوں جوںجواني کي قوتوں سے محروم ہوتا ہے اسي قدراس ميں اخلاقِ بد کي جڑيں مضبوط سے مضبوط تر ہوتي چلي جاتي ہيں اور ان کے خلاف جہاد مشکل سے مشکل ترہوتاچلا جاتا ہے- جوان اس جہاد ميں جلد کاميابي حاصل کر سکتا ہے (جبکہ )بوڑھا اور عمر رسيدہ انسان اس جہاد ميں جلد کاميابي نہيںپاسکتا- ايسا نہ ہو کہ آپ اپني اصلاح کا عمل جواني کي بجائے بڑھاپے پر ٹال ديں- (جاري ہے )


متعلقہ تحریریں:

نوجوانوں کي فکري تشويش

نوجوانوں کے اصلاح کي ضرورت