امام غائب کيونکر مۆمنين کا سہارا ہوسکتے ہيں؟ 2
امام (عج) خود بھي فرماتے ہيں:
"لوگ ميرے وجود سے بادل کے پيچھے سورج کي مانند، فائدہ اٹھاتے ہيں ميں روئے زمين کے لوگوں کے لئے سکون و امان کا سبب ہوں جس طرح کہ ستارے اہل آسمان کے لئے امن و امان کا سبب ہيں"- (3)
اس تشبيہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اولا غيبت کے زمانے ميں انسان اور جہان شدت کے ساتھ ولي عصر (عج) کے وجود کے محتاج ہيں کيونکہ تمام الہي فيوضات ان کے ذريعے دوسروں تک پہنچتے ہيں:
"ان کي بقاء سے دنيا باقي ہے اور ان کي برکت سے مخلوقات رزق پاتے ہيں اور ان کے وجود سے زمين و آسمان استوار ہيں"- (4)
ثانياً: امام (عج) کي غائبانہ نگراني اور حمايت شيعيان آل رسول(ص) اور مسلمين کي روح و قلب کو تسکين اور تقويت پہنچتي ہے؛ جيسا کہ امام (عج) کے کلام ميں اشارہ ہوا-
چنانچہ اس امام حيّ و حاضر پر ايمان ـ جو مظلومين کا ملجا اور دين و شريعت کے محافظ ہيں ـ ان کے پيروکاروں اور منتظرين کي تسکين و قوت قلب کا سبب ہے اور ان کو مايوسي سے نجات دلاتا ہے- يہ اعتقاد ظلم و ستم کے سامنے شيعيان آل رسول (ص) کي استقامت اور عدل و انصاف طلبي کي روح کي تقويت اور دشمن کے مقابلے ميں ان کي بےمثل مزاحمت کے اسباب فراہم کرتا ہے-
اسي اعتقاد کے بموجب شيعيان آل رسول (ص) ہميشہ اپنے آپ کو ايک نہايت طاقتور مرکز سے پيوستہ پاتے ہيں ايسا مرکز جو آخرکار بني نوع انسان کے روشن انجام کا تعين کرے گا چنانچہ وہ پوري شاداب اور نشاط کے ساتھ ہر قسم کے ايثار و جانفشاني کے لئے تيار رہتے ہيں اور مطلوبہ عالمي معاشرے کي تشکيل کے لئے سعي پيہم کرتے ہيں-
چنانچہ امام غائب (عج) کے متعدد فوائد کے علاوہ، اہم ترين فائدہ يہ ہے کہ ان کا وجود ذيجود مۆمنين اور منتظرين کي اميد کا موجب ہے اور عدل کے قيام کے لئے جدوجہد کا محرک ہے؛ اسي تفکر نے ہي شيعہ معاشروں کو زندہ ترين معاشروں ميں تبديل کيا ہے اور ان معاشروں کي بقاء کي ضمانت دي ہے-
امام صادق (ع) نے فرمايا:
"اہم يہ ہے کہ اپنے زمانے کے امام کو پہچان لو پس جب تم انہيں پہچان لو، ظہور کا تقدم يا تأخر تمہيں کوئي ضرر نہ پہنچا سکے گا"- (5)
...........
3- كمال الدين و تمام النعمه، شيخ صدوق، ص 485-
4- مفاتيح الجنان، دعاي عدليه-
5- الغيبه نعماني، ص 351-